یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

سابق وزیر اعظم نوازشریف کی نااہلی اس بات کی دلیل ہے کہ نوازشریف فارمولہ ایک با ر پھر ناکام رہا۔جمہوریت کو مضبوط اور ناقابل تسخیر بنانے کا خواب نوازشریف کے اس دورمیں کامیاب نہ ہوسکا۔بے تحاشہ نرمی اور برداشت اپنانے کے باوجود نوازشریف کو اپنے اس دور میں مسلسل سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک طرف سے بمشکل جان بچاتے تو کوئی دوسری سازش سامنے پاتے۔یوں لگتاہے جیسے نوازمخالف قوتیں کسی بھی قیمت پر انہیں سپئیر کرنے پر آمادہ نہیں ہو پارہی تھی۔ایک منصوبے کو تیار کرنے اور اس پر عملدرامد کروانے کو کافی نہیں سمجھا گیا۔دوسرے اور تیسرے منصوبے کی تیاری ساتھ ساتھ ہوتی رہی۔اب جبکہ نوازشریف نااہل ہوچکے۔مگر اب بھی یہ منصوبہ بندی نہیں رک پائی۔اب بھی یہ کام جاری ہے۔اس کاانجام شاید کبھی نہ ہو۔نوازشریف کی موت سے کچھ تعطل تو آئے گا۔مگرصرف اتناہی جتنا بھٹو کی موت پر آیا۔نئے بھٹو او رنئے نوازشریف آتے رہیں گے۔اس لیے یہ منصوبہ بندیاں کبھی نہ رک پائیں گی۔

میڈیا میں شریف فیملی کے حالیہ آپسی میل جو ل کی بڑی خبریں ہیں۔مریم نواز کی وزیر اعلی شہبازشریف اورحمزہ شہباز وغیر ہ سے ملاقات کی خبریں ان دنوں لائم لائٹ پر ہیں۔اپنااپنا رنگ چڑھانے کی کوشش ہورہی ہے۔اپنا اپنا فلسفہ پیش ہورہا ہے۔کوئی اسے دونوں خاندان میں اختلافات کا ثبوت قرار دے رہاہے۔ کوئی اختلافات میں کسی بڑے بریک تھرو کی نوید سنائی دے رہاہے۔حقیقت شاید ایسی نہیں۔بظاہر دونوں طرف کے نکتہ دان حضرات مبالغہ آرائی سے کام لیتے نظر آ رہے ہیں۔نہ تو اختلافا ت میں تیزی آئی ہے۔اور نہ کمی۔ معاملات اپنی جگہ جوں کے توں قائم ہیں۔آپ ذرا اس ملاقات کے کچھ ریماکس ملاحظہ فرمائیں۔حمزہ شہباز شریف اپنے والد کے موقف کی تائید کرتے نظرآرہے ہیں۔ان کی باتوں سے اس کا ثبوت ملتاہے۔ان کی باقی باتوں کو چھوڑیں۔جو بات میں سب سے زیادہ نمایا ں کی گئی وہ۔ان کا ایک جملہ ہے کہ فوج میری ہے۔او رمیں اس کو ساتھ لیکر چلنا ہوں۔دوسری طرف مریم نواز بھی اپنے والد کے موقف سے دستبردار ہوتی نظر نہیں آتیں۔ان کی طرف سے منسوب اسی بیان کو ہائی لائٹ کیا گیاکہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔

شریف فیملی میں سیاسی حکمت عملی کے حساب سے جداجدا موقف نیا نہیں۔دونوں بھائیوں نے کئی معاملات میں ایک دوسرے سے الگ موقف اپنایا یہ باتیں میڈیا کی زینت بھی بنیں۔مگر کسی نہ کسی طرح معاملات چلتے چلے گئے۔ہوسکتا ہے تب بگاڑ تھوڑا کم ہوگا۔اس لیے برداشت کرلیا گیا۔یا پھر بے بسی نے اظہارخیال کو محدود رکھا۔ایسے مواقع بے شمارہیں۔پارٹی ٹکٹس کا معاملہ ہو۔یا وزارتوں اور مشیروں کا انتخاب چھوٹے موٹے اختلاف عموما دیکھے گئے۔سب سے بڑا اختلاف ان دنوں دیکھا گیا۔جب نوازحکومت کو فوج نے برطرف کیا۔تب شہبازشریف کی حالت پل صراط پر چلنے والے کسی مسافر سے کم نہ تھی۔وہ کسی بھی حال میں فوج سے پنگا نہ لینے کاذہن رکھتے تھے۔ ہر حال میں اس طرح کی مہم جوئی کے خلاف تھے۔دوسری طرف نوازشریف صاحب نے کھل کر کچھ جرنیلوں کی من مرضیوں کے خلاف بطور وزیر اعظم کاروائی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ شہبازشریف کے لیے بڑا کٹھن وقت تھا۔انہوں نے بڑے بھائی کو سمجھانے بجھانے کی بے انتہاکوشش کی۔مگر میاں صاحب نہ مانے۔شہبازشریف کی بالکل نہ سنی گئی۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر شرف فیملی کی مضبوط روایات آڑے نہ آتیں تو شاید شہبازشریف جدہ نہ جاتے۔ان روایات نے سعودی عرب جلاوطنی پر مجبورکیا۔اور بعد میں مشرف کی جانب سے آنے والے متعدد دعوت ناموں کو قبول کرنے میں بھی حائل رہیں۔

نوازشریف ایک بار پھرمقتدر قوتوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔نہ نوازشریف فارمولہ کام آیا نہ شہبازشریف کی انتھک محنت کام آئی۔وزیر اعلی کی وہ تمام یقین دہانیاں جو کچھ لوگوں کو سنبھال لوں گا۔کی طرزپر کروائی گئیں تھیں۔نوازشریف کی ایک ہی بڑھک سے زمین بوس ہوگئیں۔نوازشریف کا جارحانہ انداز چل رہاہے۔نہ شہباز شریف کا مفاہمانہ انداز دونوں کو ناکامی ہورہی ہے۔یہ ناکامی شاید آدھا تیتر آدھا بٹیر کا فارمولہ برتنے کے سبب ہے۔شہباز شریف فارمولہ صد فیصد تابعداری ثابت نہ ہونے کے سبب ناکام ہوا۔اور نوازشریف فارمولہ صد فی صد ناکافی تیاری کی نذر ہوگیا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123915 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.