داعش کی دہشت گردی

سرکاری سطح پر داعش کی پاکستان میں موجودگی کی کبھی تصدیق نہیں کی گئی لیکن افغانستان میں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں مثلاً بھارتی ’’را‘‘، امریکی ’’سی آئی اے‘‘ اور برطانوی ’’ایم آئی 6‘‘ داعش کو سپورٹ کررہی ہیں۔ جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کھل کر امریکی سی آئی اے پر الزام لگایا ہے کہ اس کی موجودگی اور معاونت سے افغانستان میں داعش مضبوط ہو رہی ہے۔ سی پیک کے خلاف امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ دونوں ممالک بلوچستان میں داخل اندازی کرکے سی پیک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرینگے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان میں داعش کو بھی داخل کرنے کی کوشش کی جائیگی۔

داعش دنیا بھر میں نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے اور پاکستان میں بھی پڑھی لکھی نوجوان نسل کو انٹرنیٹ کے ذریعے زیر اثر لانا چاہتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پانچ ہزار مغربی نوجوانوں نے بذریعہ ترکی عراق اور شام کا سفر کیا تاکہ وہ داعش میں شامل ہو سکیں ان میں سے پانچ سو سے زائد کا تعلق امریکہ، کم از کم ایک ہزار کا تعلق برطانیہ اور 3500 سے زائد کا تعلق فرانس اور دیگر یورپی ممالک سے بتایا جاتا ہے۔ اب تک داعش نے اسلامی لبادہ اوڑھ کر عملاً اسلام دشمنی کی انتہا کرتے ہوئے عراق، لیبیا اور شام کو تباہ و برباد کردیا ہے اور اسلامی دنیا کی یکجہتی کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ آخر داعش کس کے لئے اور کیوں کام کررہی ہے۔ اس کے تمام تر اقدامات مسلمانوں اور مسلم ممالک کے خلاف ہیں۔ آخر کبھی داعش نے کیا اسرائیل پر کوئی حملہ کیا؟ نہیں کیونکہ وہی تو اس کا سرپرست ہے۔ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ دہشت گردی کا اپنی سرزمین سے خاتمہ کردیا ہے اور عملاً پاکستان میں داعش کے قدم اب تک نہ لگ سکیں ہیں نہ جم سکیں ہیں۔ تاہم داعش شمالی افغانستان میں امریکی سرپرستی میں قدم جما چکی ہے جو کہ بذات خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں ہر سطح پر اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں داعش کو نظریاتی نقب لگانے سے روکنے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے ہونگے۔ شروع میں پاکستان میں داعش کے بنیادی طور پر بیس سے پچیس افراد تھے لیکن اس تنظیم کے مدد گاروں سمیت کئی افراد کو گرفتار کیا گیا، جس میں پچیس غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ داعش سے تعلق رکھنے والے حافظ عمر، علی رحمان ٹونا اور عبدالسلام سکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث رہے ہیں جب کہ کراچی میں بوہری کمیونٹی پر حملے میں بھی اس تنظیم کا ہاتھ تھا۔

داعش نے مقامی جرائم پیشہ گروہوں کو بھرتی کیا۔ وال چاکنگ کے لیے یہ تنظیم ایک ہزار روپے دیا کرتی تھی۔ انہوں نے دعوی کیا کہ داعش سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے تاہم ان کی افغانستان کے مشرقی صوبوں میں موجودگی ایک چیلنج ہے کیونکہ ان صوبوں کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ داعش افغانستان میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے جہاں سے وہ پاکستان میں آگ بھڑکانے کی کوشش کرے گی ۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ داعش کے جنگجو مشرق وسطی سے افغانستان کا رخ کر سکتے ہیں اور آئندہ ان سے جنگ افغانستان میں لڑی جائے گی۔ پاکستان یہ بات بار بار عالمی فورم پر اٹھا چکا ہے کہ نائن الیون کے بعد القاعدہ اور طالبان کے ساتھ جنگ میں پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا اور اب جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب حکمت عملی اپنا کر منفی قوتوں کا خاتمہ کیا اور عالمی ادارے پاکستان کی تیزی سے مضبوط ہوتی معیشت کو تسلیم کر رہے ہیں آپریشن رد الفساد کا یہی مقصد ہے تاہم اس میں مکمل کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ افغان حکومت بھی خطے میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے پاکستان کی کوششوں میں عملی تعاون کرے اور داعش کے خلاف اپنے ملک میں بھی ردالفساد جیسا آپریشن شروع کرے۔

Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 43869 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.