شاہین اختر
بلوچستان میں بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ کے فنڈز سے چلنے والی دہشت گرد
تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد اور من گھڑت پراپیگنڈے کی جبراً اشاعت کے لئے
کھلی بدمعاشی اور قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اس سلسلہ میں 9اکتوبر
کو بلوچستان لبریشن فرنٹ بی ایل اے نے ایک آن لائن اخبار روزنامہ توار میں
بلیک میلنگ پر مبنی دھمکی آمیز پمفلٹ شائع کیا ہے جس میں میڈیا ہاؤسز
اوراخبارات کو بیس دن کا الٹی میٹم دیا ہے۔ 22 اکتوبر الٹی میٹم کا آخری دن
ہوگاجس کے بعد بی ایل اے نے ہر طرح کی صحافت اور صحافی دشمن کارروائیوں کی
دھمکی دی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی بلیک میلنگ کو سختی سے کچلا
جائے تاکہ پاکستان دشمنوں اور سی پیک کے مخالفوں کا ایجنڈا بندوق کی نوک پر
میڈیاپر نہ لایا جاسکے۔ اس ضمن میں صحافی تنظیموں کو بھی ملک بھر میں
بھرپور احتجاجی مہم چلانی چاہئے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بی ایل اے کا
بلیک میلنگ پر مبنی پمفلٹ من و عن ان کی نذر کیا جاتا ہے۔ تاکہ بی ایل اے
کا صحافت دشمن چہرہ پوری طرح بے نقاب ہو۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ نے میڈیا حوالے جاری کردہ بیس روز کے الٹی میٹم پر
مقبوضہ بلوچستان بھر میں بہ عنوان بلوچ عوام میڈیا بائیکاٹ کیلئے تیار رہے
پمفلٹ تقسیم کیا،تاحال پمفلٹ تقسیم کا سلسلہ جاری ہے جس میں میڈیا بائیکاٹ
اور میڈیا کی یک طرفہ رویہ اور پارٹی پالسی واضح کیا گیا ہے۔جس میں22
اکتوبر الٹی میٹم کا آخری دن حوالے کہا گیا ہے کہ میڈیا نے اگر روش نہ بدلی
تو تمام اخبارات کی سرکولیشن و میڈیا ہاوسز کو سخت نتائج پرتیار رہنا
ہوگا،پمفلٹ میں بلوچ قوم سے مخاطب ہو کر کہا گیا ہے کہ
عزیز ہم وطنو!
بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت، آپریشنز، آبادیوں پر زمینی و فضائی حملے
آج جو سنگین صورت حال اختیار کر چکے ہیں،وہ شاید پہلے کبھی نہیں تھے۔ اس
میں دنیا کی خاموشی اور بے خبری ایک اہم جزو ہے۔ یہ بات ہر ذی شعور کی علم
میں ہے کہ عالمی بلوچستان داخلے کیلئے عالمی میڈیا پر مکمل پابندی ہے اور
مقامی میڈیا آئی ایس آئی کے کنٹرول میں ہے۔ صحافت میں پیشہ ورانہ فرائض میں
رکاوٹوں کو خاطر میں لانا بد دیانتی ہے۔ صحافی کسی بھی قوم یا معاشرے کا
آئینہ ہوتے ہیں مگر بلوچ کے معاملے میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ معاشرے و
زمینی حقائق کوبیان کرنے کے بجائے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزوں کو وحی
تصور کرکے من و عن شائع کرنا اور بلوچ سرزمین پر جاری فرعونی بربریت پر چشم
پوشی کرنا صحافیوں کی بدعنوانی کو بھی پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں صحافی بکا
مال بننے میں شرم محسوس نہیں کرتے، اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ قابض فوج
کی بے لگامی پر صحافیوں کی خاموشی بھی اسی کرپشن کے سانچے میں نظر آرہے
ہیں۔ دیانتدار صحافیوں کی بھی کمی نہیں ہے، جو مظلوموں کی آخری امید ہیں۔
اگر امید کی آخری کرن بجھ گئی تو بلوچ آزادی پسند تنظیمیں بھی اس کے جواب
میں اہم فیصلے کرچکے ہیں۔
پاکستان میں صحافت مکمل طور یک طرفہ کردار پیش کرتے ہوئے پاکستان کی سول و
عسکری بیانیہ تک محدود ہے جو حیرانگی کی بات نہیں مگر ایک تشویشناک امر
ضرور ہے۔بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے بارہا اپنے بیانات
اور سیٹلائٹ فون کے ذریعے بات چیت میں نیوز ایجنسیوں سمیت تمام پرنٹ و
الیکڑونک میڈیا کو اس بارے آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے
ریاستی بیانیہ کے ساتھ بلوچ کی آواز بھی سنیں۔بی ایل ایف نے ہمیشہ میڈیا کا
احترام کرتے ہوئے انکی مجبوریوں کو ضرور سمجھا ہے جس کا فائدہ صرف پاکستان
کو پہنچا ہے اور بلوچ ظلم کی چکی میں پستے رہے اور کسی کو معلوم تک نہ ہوا۔
اسی طرح پوری دنیامیڈیا کی خاموشی کی وجہ سے دنیا بلوچ نسل کشی سے بھی بے
خبر ہے۔ اب فیصلہ ان گنے چنے صحافیوں کے ہاتھ میں ہے جو آج بنگالیوں کی نسل
کشی پر لب کشائی اور احتجاج کررہے ہیں، کل وہ بلوچ نسل کشی پر صرف افسوس کر
سکتے ہیں۔
ہم نہیں کہتے کہ صحافی حضرات بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں بندوق اٹھائیں
مگر قلم کی طاقت کو مختلف طریقو ں سے مثبت استعمال کرکے وہ بلوچستان کی
حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے لاکر جاری بلوچ نسل کشی کو روکنے میں کردار
ادا سکتے ہیں۔ ریاستی جبر،عام لوگوں کا حراستی قتل عام پر صرف ریاستی
بیانیہ کو پیش کرنا صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔میڈیا پرسنز،صحافی حضرات و
نیوز ایجنسیوں کو ہمیشہ یہی گزارش کیا گیا کہ وہ جنگ زدہ علاقوں کا خود
دورہ کریں یا اپنے لئے ان علاقوں میں مقامی صحافی یاانفارمرمقرر کریں تاکہ
زمینی حقائق تک رسائی کو ممکن بنا کر سچ کو پیش کیا جاسکے۔ بی ایل ایف نے
کبھی بھی کسی میڈیا پرسنز یا پرنٹ و الیکٹرونک اداروں کو دھمکی نہیں دی ہے
کہ وہ ہماری پارٹی پالیسی بیانات،دیگر بیانات کو کوریج دیں ،بلکہ ہم نے
صحافتی اقدار کا احترام کرتے ہوئے نیوز ایجنسیوں سے خوش گوار ماحول بناتے
ہوئے ہر وقت ان سے گزارش کی ہے کہ وہ ریاستی بیانیہ کے ساتھ آزادی پسندوں
اور عام متاثرہ بلوچ عوام کی بات بھی سنیں اور حقائق کو پیش کریں۔مگر گزشتہ
پانچ مہینے سے میڈیا کی جانب سے بلوچ کی آواز کو دبانے کے لئے بی ایل ایف
سمیت تمام آزادی پسندوں کے بیانات و بلوچ کی آواز کا مکمل طور پر بائیکاٹ
سے واضح ہے کہ اب ہم بلوچ قوم سے رجوع کرکے سخت اقدام اٹھائیں۔ کئی مہینے
پہلے نیوز ایجنسیوں سے پارٹی ترجمان گہرام بلوچ کی بات چیت بھی ہوئی ۔
انہوں نے کچھ مہلت مانگی مگر تاحال مقبوضہ بلوچستان میں پرنٹ و الیکٹرونک
میڈیا و نیوز ایجنسیوں نے اپنا رویہ نہیں بدلا ہے۔ مجبوراً بی ایل ایف نے 2
اکتوبر کو میڈیا ہاسز کو بیس روز کا وقت دیا جو 22 اکتوبر کو مکمل ہو
گا۔الٹی میٹم کی میعاد پوری ہونے سے پہلے اگر میڈیا ہاسز نے اپنا روش بدلی
اورخونچکاں بلوچستان کی حقیقی تصویر کشی اور ایک سچی و حقیقی صحافتی کردار
نبھانے کی فلسفے پر گامزن ہوگئے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہوگئی
ہے اور ہماری آواز کو بھی ان سنی نہیں کی جائیگی۔ اگر پھر سے وہی نظر انداز
اور آنکھیں بند کرنے کی پالیسی جاری رہی تو ہم دوسرے بلوچ مسلح تنظیموں کے
ساتھ ملکر میڈیا ہاسز کیخلاف ایک سخت پالیسی ترتیب دیں گے جس میں پہلی فرصت
میں بلوچستان میں بھر میں اخبارات کی ترسیل روکنا اورالیکٹرک میڈیا کی بندش
شامل ہیں ۔
پاکستانی فورسز کی آئے روزبربریت ، آپریشنز، گھروں میں گھس کر لوگوں کو
اٹھا کر لاپتہ کرنا،سکول و عوامی مراکز پر چیک پوسٹیں بناکر عوام کو بلاوجہ
تنگ کرنے کے باوجود میڈیا کی خاموشی پر ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ
وہ اخبارات کا بائیکاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ ورک سمیت تمام الیکٹرونک
و پرنٹ میڈیا کا بائیکاٹ کیلئے ذہنی طور پر تیار رہیں کیونکہ پاکستانی فوج
و سول حکام کی طرح تمام میڈیا ہاسز بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی جرائم میں شامل ہو رہے ہیں۔یہی روش جاری رہا
تو ہم سنگین قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے۔بلوچستان بھر میں تمام اخبارات،
ڈسٹربیوٹرز، سرکولیشن ذمہ داران،ہاکرز،کیبل نیٹ ورک مالکان اور
ٹرانسپورٹرزکو تنبیہ کیا جاتا ہے کہ الٹی میٹم کے مکمل ہونے پر اپنی سروسز
مکمل طور پربند کر کے بلوچ ہونے کا ثبوت دیں،بصورت دیگر و اپنے ہر طرح کی
نقصان کے ذمہ دار ہونگے۔
بنیادی طور پر صحافت دشمنی اور بدترین معاشی کا بی ایل اے کی طرف سے جاری
کردہ یہ پمفلٹ کھلا ثبوت ہے جس کے بعد ریاستی اداروں کو ان کی سرکوبی اور
صحافتی تنظیموں کو بھرپور مظاہروں سے اپنے وجود اور ذمہ داریوں کا حق ادا
کرنا ہوگا۔
|