آمریت بے مہار اونٹ کی طرح آتی ہے۔جب تک جی چاہے رہتی
ہے۔اور جب دل بھر گیاکچھ دنوں کے لیے چلی جاتی ہے۔اس کا جانا اس بات کی
نوید ہوتی ہے کہ وہ جلد دوبارہ آنے کے وعدے پر گئی ہے۔جس منت سماجت اور جتن
سے آمریت کو رخصت کیا جاتاہے۔وہ اس قدر بودا اور نکما ہوتاہے۔کہ آمریت کو
اس عزت افزائی کی بار بار تمنا پیدا ہوتی رہتی ہے۔اس لیے بار بار فوجی طالع
آزماآتے رہے۔آج تک کسی طالع آزما کو بڑی مشکل کا سامنا نہ ہوا۔یہ بات اس کی
حوصلہ افزائی کا سبب بن گئی۔خیال ہے کہ اگر پہلے آمر کو اس موج میلے کی
بھرپور پوچھ گچھ ہوتی۔اس سے حساب کتاب کیا جاتاتو کبھی دوسرے آمر کو اس کی
ہمت نہ پڑتی مگر یہ سودا اس قدر مزے کا قرار پایاکہ بار بار اس کے جتن کیے
جاتے رہے۔پرویز مشرف اس لحاظ سے بد قسمت فوجی کمانڈر لکھے جائیں گے کہ ایک
عرصے سے وہ اپنے ادارے کے لیے آزمائش کا سبب بن رہے ہیں۔کارگل کے معرکے سے
یہ آزمائش شروع ہوئی تھی۔اور آج انیس سال گزرنے کو ہیں۔مگر اب بھی یہی ایک
صاحب پاکستان کے بڑے فیصلوں کا سبب بن رہے ہیں۔ان کا ادارہ آج بھی اپنی
ساری حکمت عملی یا تو مشر ف کو لیکر ترتیب دے رہاہے۔یا پھران سے جڑے کچھ
معاملات انہیں کسی بڑی پلاننگ کی راہ دکھا رہے ہیں۔سابق فوجی صدر سے اس قدر
تنازعات وابستہ ہیں کہ کبھی ان کے لیے کچھ جتن کرنا پڑ رہا ہے۔اور کبھی
کچھ۔قانونی او رآئینی اعتبار سے مشرف کی پوزیشن بڑی کمزور ہے۔یہ جتن اسی
مجبوری کے باعث کرنے پڑ رہے ہیں۔جانے کتنے اور برسوں تک پرویز مشرف اپنے
ادارے کی توجہ بھٹکانے کا سبب بنے رہیں گے۔
پاکستانی عدلیہ ان دنوں بڑے کشمکش کے دور سے گزر رہی ہے۔دوسرے اداروں کی
مشکلات کو اسے جھیلنا پڑ رہا ہے۔عدالتی سماعتیں اور فیصلے اس کی ساکھ کو
گھن کی طرح نگل رہے ہیں۔کچھ لوگ عدلیہ سے کسی ایسی جادوگری کی توقع لگائے
ہوئے ہیں۔جو ایک ہی رنگ کے پانی کو کبھی سفید کردے اور کبھی لال۔ایک جیسے
معاملات کو عدلیہ مختلف زاویے سے دیکھے او رمتضاد حکمنامے جاری کردے۔اس طرح
کی امیدیں لگاکر عدلیہ کو بڑی کشمکش میں مبتلا کردیا گیا۔ہے۔سابق وزیر اعظم
کی نااہلی ہوچکی۔اب عمران خاں او رجہانگیرترین کے کیسز کی سماعتیں بالکل
اسی ماحول اور ریمارکس کی حامل ہیں۔جو نوازشریف کیس سے جڑے رہے۔وہی ادھورے
ثبوت۔اور غیر مصدقہ ڈاکومینٹس۔عدالت کی طرف سے بار بارعدم اطمینا ن کے
ریمارکس۔اگر چہ عدالت عمران خاں سے متعلق معاملے پر اپنی سماعت مکمل
کرچکی۔مگر جہانگیر ترین کے کیس کے ساتھ یہ سماعت مکمل ہونے والا کیس بھی
پہلو بہ پہلو چل رہاہے۔جانے بظاہرمکمل ہوجانے والی سماعت حقیقت میں کب مکمل
ہوگی۔عدالت کو جانے کب اس کشمکش سے نکلنے کا موقع دیا جائے گا۔
مشر ف کے بعد زردار ی دور اس قدر بھیانک ثابت ہوا کہ لوگ مشرف ودر کو قدرے
بہتر قرار دینے لگے۔کرپشن۔لوٹ مار اور نااہلی کی جو داستانین جمہوریت سے
جوڑی جاتی ہیں۔وہ حرف بہ حرف سچ نکلی۔اس قدر گند ڈالا گیا۔کہ آمریت جو
لوگوں میں نفرت کی علامت بن چکی تھی۔پھر سے اپنی اہمیت جتانے لگی۔نوازشریف
دو رایک بالکل الگ سا تجربہ لگ رہاہے۔یوں لگ رہاہے جیسے کوئی راہ بھٹکا
راہی ایک بار پھر صحیح راستے پر ڈال دیا گیاہو۔ممکن ہے نوازشریف کے موجودہ
دور کے اوائلی کچھ مہینے دنیا نے زیادہ امیدیں نہ لگائی ہوں۔سانپ کا ڈسا
رسی سے بھی ڈرتاہے۔ممکن ہے۔دنیا والے مشر ف او رزرداری کی طرح نوازشریف کو
بھی اسی تھیلی کا کوئی چٹہ وٹہ سمجھ رہی ہو۔ایسا ہواہوگا۔مگر کچھ مہینوں
بعد دنیا نے محسوس کیا کہ نوازشریف کا کام کرنے کا ڈھنگ ذرا الگ ہے۔ان کی
حکومت کی قدرے بہتر پرفامنس نے دوجوں کو متوجہ کیا۔پھر ان کی کابینہ کی طرف
سے کوتاہیوں کی کمی بھی نوازشریف کا اعتماد بڑھاگئی۔جس طرح چین نے پاکستان
کو اندھا اعتماد بخشا وہ صرف او رصرف نوازشریف کے دم سے تھا۔چین دنیا میں
شاید واحد غیر مسلم ملک ہے جو دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی
خفیہ ایجنڈہ نہیں رکھتا۔اسے نہ جوڑ توڑ کی عادت ہے۔نہ توسیع پسندانہ عزائم
ہیں۔نوازشریف کی شخصیت نے چین کو مائل کیا۔اور پھر وہ تعاون کی ساری حدیں
پار کرگیا۔
مشرف سے جڑے معاملات آج بھی پاکستان کے کور ایشو ز پر حاوی ہورہے ہیں۔ان کا
دفاع کرنا آ ج ایک ایسا امر بن چکاہے۔جو کسی ناگوار بوجھ سے کم
نہیں۔دھرنے۔مارچ اور عدالتی کاروائیاں جانے مشرف کے لیے ریاست کب تک
آزمائشوں سے دوچاررہے گی۔جہانگیر ترین او رعمران خان کے مقدمات کی طوالت
اسی مشرف کے چاہنے والوں کی دلی خواہش ہے۔یہ چاہنے والے ایک ہی رنگ کے شربت
کو کبھی لال او رکبھی سفید بنانے کی عدالتی جادوگری کے متمنی ہیں۔نوازشریف
مستند طور پر ایک اہل اور وطن کے خیر خوہ رہمنا ثابت ہوئے ہیں۔مگر کچھ
لوگوں کی انا انہیں نوازشریف کو نیست و نابود کرنے پر اکسارہی ہے۔دیکھنا
ہوگاکہ ان کی انا غالب رہتی ہے۔یا وطن کی محبت کا وزن زیادہ نکلتاہے۔جانے
وہ وطن کے لیے اپنی انا قربان کرتے ہیں یا نہیں۔ان کے پا س دونوں باتوں کا
پورا اختیار ہے۔ |