22اکتوبر کو یہ حملہ ہوا۔47ء میں دشمن نے منصوبہ
بندی سے کام کیا۔ مجاہدین کی صفوں میں دشمن شامل ہو جائیں تو یہی ہوتا ہے۔
جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے اس وقت پاکستان کے ساتھ Stand
Still Agreement کیا جب انگریز ابھی بر صغیر پر قابض تھے۔ پاکستان کی آزادی
سے صرف دو دن قبل مہاراجہ کا معاہدہ اہمیت رکھتا تھا۔ مہاراجہ کی پہلی
خواہش کشمیر کی خود مختاری کو بحال رکھنا تھا۔ جبکہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق
کے خلاف تھا۔وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں تھا۔کہتے ہیں کہ اگر ایسا
نہ ہوتا تو وہ پاکستان کے ساتھ سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کبھی نہ کرتا۔
12اگست1947کو یہ معاہدہ ہوا ۔ سرینگر کے ٹیلی گراف آفس پر پاکستانی پرچم
15اگست سے لہرانے لگامورخ پروفیسر فدا حسین کہتے ہیں کہ وہ اس کے شاہد ہیں۔
دو ماہ بعد 27اکتوبر کو بھارتی فوج کی پہلی کمپنی سرینگر ہوائی اڈے پر اتر
گئی۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ جما لیا۔ اس کی وجوہات لاتعداد ہو سکتی
ہیں۔بھارتی لابی بڑی یہ قرار دیتی ہے کہ پاکستان سے قبائلی حملہ ہو گیا۔
اگر چہ یہ ایک جواز یا بہانہ ہو سکتا ہے تا ہم یہ بات برسوں گزرنے کے بعد
بھی تشنہ طلب ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ پاکستان کے ساتھ الحاق پر آمادہ تھا
تو پھر قبائلی حملہ کی ضرورت کیا تھا۔ یہ کس کی زہنی اختراع تھا۔ کیا یہ
بھی انگریزوں کی سازش تھی۔ قبائلی تعاون سے کشمیر کو مہاراجہ سے آزاد کرانے
کی ضرورت کیسے پیش آ گئی جبکہ مہاراجہ پاکستان کے ساتھ رابطے میں تھا۔
Raiders in Kashmir میں میجر جنرل اکبر خان نے بھی بعض اہم حقائق کی
نشاندہی کی ہے۔
کرسٹوفر سنیڈن نے Kashmir ,The Untold Storyمیں لکھا ہے کہ 22اکتوبر کو
پختون کشمیر میں داخل ہوئے اور انھوں نے مظفر آباد سے بارہمولہ تک غیر
مسلموں کو مارا، لوٹ مار کی۔ بھارت نے پروپگنڈہ کیا، اس کی خوب تشہیر کی۔
اور بازی بھارت کے حق میں پلٹانے کی کوشش کی گئی۔ بھارت کو موقع مل گیا۔
کرسٹوفر نے نیو یارک ٹائمز کے نمائیندے رابرٹ ٹرمبل کی رپورٹ کا بھی حوالہ
دیا ہے جو اخبار کے 4 اور 9نومبر1947کے شماروں میں شائع ہوئی ۔ جس میں اس
حملے میں لوگوں کے قتل ،جن میں یورپی باشندے بھی شامل تھے اور لوٹ مار کا
بھی زکر کیا گیا ہے۔ وکٹوریہ شیفلڈ نے Kashmir in Conflict:India, Pakistan
and Unending Warمیں لکھا ہے کہ جب قبائلی حملہ کی خبر لاہور پہنچی تو اس
وقت پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض نے کہا کہ اب کشمیر کا
پاکستان کے ساتھ الحاق کا موقع گنوا دیا گیا ہے۔ جی ایم صادق اس وقت لاہور
سے دہلی روانہ ہوگئے تھے۔ صادق مرحوم فیض صاحب کے دوست تھے۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے شیخ محمد عبد اﷲ کو 29ستمبر1947کو جیل سے رہا کیا۔
شیخ صاحب نے اس کے فوری بعد 4اکتوبر کوحضوری باغ(آج کا اقبال پارک
سرینگر)میں خطاب کیا اور دو قومی نظریہ کی مخالفت کی۔ انہوں نے بھارت کے
ساتھ الحاق کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نہرو اور شیخ عبد اﷲ
قبائلی حملہ کے بارے میں پہلے سے جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ خاندان کو
پہلے ہی وادی سے نکال کر بھارتی شہراندور میں رکھا گیا۔ اور جب وہ واپس
کشمیر آئے تو ایک ہوٹل میں ٹھہرے۔ اسی ہوٹل کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔
شیخ عبد اﷲ آتش چنار میں لکھتے ہیں ’’ دوسری صبح میں نے سرینگر سے دہلی
جانا تھا، میں ہوٹل سے نکل کر ائر پورٹ روڈ پر اے کے واتل کے گھر پہنچا۔
تھوڑی دیر بعد ایک دھماکہ ہوا۔ میں سمجھا قبائلی آ گئے ہیں۔ لیکن وہ نہ آئے۔
اگلی صبح میں جہاز سے دہلی چلا گیا۔ ‘‘شیخ صاحب کو قبائلی حملہ کا کیوں
انتظار تھا۔ انہیں کس طرح پتہ چلا کہ قبائلی آ گئے ہیں۔ ایک کتاب Sheikh
Mohammad Abdullah, Personality and Achievmentsمیں عاشق حسین بٹ لکھتے ہیں
کہ قبائلیوں میں لاتعداد ریڈ شرٹ والے یعنی کانگریسی بھی شامل ہو گئے تھے۔
یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے مظفر آباد سے بارہمولہ تک لوگوں کا قتل عام کیا
اور لوٹ مار کی۔ جس کا مقصد کشمیریوں کو پاکستان سے بد ظن کرنا تھا۔
اگر بٹ صاحب کی معلومات درست ہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس نے ہی
قبائلی حملے کی راہ ہموار کی۔ اپنے لوگوں کو قبائلی قافلوں میں شامل کیا۔
ان کے زریعے لوگوں کا قتل عام کرایا۔ عوام کو بے دردی سے لوٹا۔ اس قتل عام
اور لوٹ مار کی بہت تشہیر کی۔ اسے جواز کے طور پر پیش کیا۔ڈوگرہ راجہ جس نے
پاکستان کے ساتھ معاہدہ قائمہ بھی کر لیا تھا اور وہ پاکستان کے ساتھ رابطے
میں تھا۔ سرینگر میں پاکستان کا پرچم بھی لہرا رہا تھا۔ پھر کیوں یہ قبائلی
حملہ کیوں ضروری تھا۔ مہاراجہ کو خوفزدہ کرنے کی وجہ کیا تھی۔ یہ ساری
منصوبہ بندی بھارت کی تھی۔ جس طرح آتش چنار میں بھی قبائلی حملے کے بارے
میں لکھا گیا ہے کہ انہیں اس حملے کا پہلے سے پتہ تھا۔ بلکہ نہرو اور شیخ
عبد اﷲ کو پلان کے عین مطابق قبائلی حملے کا انتظار بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ
شیخ محمد عبداﷲ نے اپنی رہائی کے فوری بعد پارٹی کے اجلاس میں بھارت سے
الحاق کا فیصلہ کیا۔ اقتدار کے بدلے الحاق۔ سرخ قمضیوں والے اس میں استعمال
ہوئے۔ ان کانگریسیوں نے مسلم لیگی بن کر کردار ادا کیا۔ ان کے قتل عام اور
لوٹ مار نے کشمیری عوام کو بھی متنفر کیاا ور عالمی برادری کو بھی کشمیر
میں بھارتی افواج کے داخلے کی مخالفت سے روکے رکھا۔ یعنی لوگوں نے پاکستانی
بن کر بھارت کے مفادات کو پروان چڑھایا۔ہمارے ارد گرد آج بھی ایسے لوگ
موجود ہیں جو بات پاکستان کے مفادات کی کرتے ہیں لیکن وہ پاکستان دشمنوں کو
براہ راست فائدہ پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ انہیں پہنچاننے کی ضرورت ہے۔ ان کی
نشاندہی ہونی چاہیئے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے برسوں قبل مسلم لیگی بن کر
کانگریس کے مفاد میں کام کیا۔ آج یہ پاکستانی بن کر پاکستان دشمنوں کی مدد
کر رہے ہیں۔جیسے کے طالبان جو بھارت کے اشارے پر پاکستان میں دہشتگردی کر
رہے ہیں۔ اس کے لئے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کے انکشافات کی روشنی میں
تحقیقات کی جائے تو کئی حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ |