روس اورسعودی عرب کے درمیان پچھلی دوصدیوں کے سفارتی
تعلقات کے باوجود پہلی مرتبہ خادم الحرمین الشریفین سعودی فرمانرواں شاہ
سلمان کے بھاری بھرکم وفدکے ساتھ روس کے دورۂ نے خطے میں اہم تبدیلی
کااشارہ دیاہے جس پر مغرب اورامریکاکیلئے ایک واضح پیغام پنہاں ہے۔روس
اورسعودی عرب میں سفارتی تعلقات ۱۹۲۶ءمیں اس وقت قائم ہوئے جب سابق سوویت
یونین نے حجازونجدکی بادشاہت کے دوران سعودی عرب کوتسلیم کرلیاتھاتاہم اس
کے بعدعلاقائی اوربین الاقوامی پالیسی اختلافات کی وجوہ سے گزشتہ طویل ماضی
میں کسی سعودی فرمانروا کے دورۂ روس کی راہ ہموارنہیں ہوسکی بلکہ سابقہ
سعودی ولی عہدنے تواسلحے کی خریداوردیگرکئی دفاعی امورکو مضبوط کرنے کیلئے
امریکاپر کلی انحصار کرتے ہوئے سعودی تاریخ کے سب سے بڑے سودے کرکے
امریکاکی زوال پذیر اسلحہ سازکمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا، جس کیلئے
امریکی کانگرس اورسینیٹ کی ایک مجوزہ قراردادکی بناء پرسعودی عرب پرایک
شدیددباؤ بھی موجودتھاجس میں نائن الیون کے حادثے میں شریک سعودی شہریوں کی
بناء پرسعودی حکومت کے امریکی بینکوں میں سعودی سرمایہ کوضبط کرنے کااشارہ
دیاگیاتھا۔
ان حالات میں سعودی فرمانرواں کے روسی دورے میں یقیناایک داخلی دباؤ کے
علاوہ ایک طویل مشاورت بھی کارفرما رہی جس کے نتیجے میں سعودی حکومت میں
بڑے پیمانے پرتبدیلیوں کاعمل بروئے کارلایاگیااور سعودی ولی عہدنے انتہائی
دلیرانہ اقدامات اٹھاتے ہوئے روس اورسعودی عرب کے درمیان شراکت کو تقویت
پہنچانے کیلئے خود روس کے تین دوروںمیں اس کی بنیادرکھی اوراب شاہ سلمان
کادورۂ روس خطے میں گیم چینجربھی ثابت ہوگا ۔دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی
وفودنے تیل ،تجارت،سرمایہ کاری سمیت علاقائی سمیت موجود جاری بحرانوں پربھی
تبادلہ خیال کرتے ہوئے کئی امورپراتفاق بھی کیاہے۔
شاہ سلمان کے دورۂ روس کے دس سال قبل روسی صدرپیوٹن بھی فروری۲۰۰۷ء میں
سعودی عرب کادورۂ کرچکے ہیں اورتعلقات میں خوشگوار تبدیلی کا دوسرا واقعہ
۲۰۱۱ءمیں ابوظہبی میں ہواتھاجب متحدہ امارات نے پہلی بارگلف آپریشن کانفرنس
۴۷/۴۶اورروس کے درمیان پہلے تزویراتی ڈائیلاگ کی داغ بیل ڈالی تھی اوراس
موقع پرہی دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے شام سمیت علاقائی مسائل کے حوالے
سے مشترکہ بیان جاری بیان میں گہری مماثلت کا اظہار کیاگیا تھا۔روس نے خلیج
عرب کی سیکورٹی کے حوالے سے اپنی سوچ سے سعودیوں کوآگاہ کیاتھالیکن بعد میں
دونوں ملک پیش رفت میں ناکام رہے۔اس وقت روس کی جانب سے ان ابتدائی تصورت
کوانتہائی صورت دینے کیلئے مشترکہ طورپرمزید ڈائیلاگ تجویزکئے گئے تھے تاکہ
تمام ممکنہ علاقائی مفادات میں سے ترجیحاً معاملات کا تعین کیاجاسکے ۔اس
وقت بھی فریقین نے یہ نتیجہ اخذکیاتھاکہ دونوں ملک تجارتی ، توانائی،سرمایہ
کاری ، ٹیکنالوجی،ثقافتی اوربین المذاہب مکالموں کے علاوہ سیاست عالم
اورسیکورٹی کے حوالے سے تزویراتی تعلقات میں پیش رفت کرسکتے ہیں۔اس موقع
پردونوں ممالک نے دہشتگردی ،انتہاپسندی سے نمٹنے سے اتفاق کیاتھاتاہم
ترجیحات کے حوالے سے دونوں میں اختلافِ رائے بھی تھا۔روس اورسعودی عرب سمیت
خلیجی ممالک کے درمیان تجارتی حجم تین کھرب ڈالرسے بھی متجاوزہے اوردو طرفہ
تجارت تین ارب ڈالرسے زیادہ ہے لیکن شام کے بحران نے دونوں ملکوں کی راہیں
جدا کردیں اوراب ۲۰۱۵ءسے پےدرپےولی عہدمحمد بن سلمان کے روس کے دوروں نے
یکسرصورتحال تبدیل کردی ہے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے کہاہے کہ ان کے دورۂ روس کاہدف روس اورسعودی عرب
کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات کوجدیدخطوط پر استوارکرنے کیلئے مشترکہ
مواقع کی ٹھوس تلاش میں روسی قائدین کے ساتھ تبادلۂ خیالات کے نتیجے میں
سامنے آنے والی ہم آہنگی پربے حداطمینان ہوا۔ماسکومیں سعودی روسی بزنس
کونسل ارکان سے ملاقات میں بھی دونوں ملک مستقبل میں زیادہ مضبوط شراکت
قائم کریں گے۔اس لئے دونوں ممالک آپس کے تعلقات کومزیدبہتر بنانے کیلئے
باہمی تعلقات میں وسعت لائیں گے ۔ سعودی فرمانرواں نے کہاکہ روس اور سعودی
عرب شامی تنازعے کے خاتمے میں فیصلہ کن کردارادا کر سکتے ہیں ۔روسی صدرنے
بھی اس کی تائیدکرتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں
میں استحکام اورشامی تنازعے کے خاتمے میں فیصلہ کن کرداراداکریں گے۔ شامی
بحران کے حوالے سے دونوں ملکوں نے اس بات پراتفاق کیاہے کہ اس بحران کے
فوری حل کیلئے جون۲۰۱۷ءکے جنیوااعلامیہ اوراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قرارداد۲۲۵۴ اور۲۲۶۸کوبنیادبنایاجائے اوران کے تحت شام کوایک مکمل
اورباضابطہ عبوری اتھارٹی کی حیثیت دی جائے ۔روس نے بھی اب اس بات سے اتفاق
کرلیا ہے کہ وہ آئندہ اعتدال پسنداپوزیشن اورداعش والنصرہ فرنٹ جیسے
دہشتگردگروپوں کے درمیان امتیازاورفرق کالحاظ رکھے گا۔
ایران کے حوالے سے بس قدرے پیش رفت ہوئی ہے اوراشارتاًیہ بات کہی گئی ہے کہ
خطے میں عدمِ استحکام پیداکرنے کیلئے ایران کی شام کے معاملات میں مداخلت
نے ناگوار صورتحال پیداکردی ہے۔ روس نے اس بات سے اتفاق کیاہے کہ خلیجی
ممالک اور ایران کے درمیان تعلقات داخلی امورمیں اچھے پڑوسی ممالک کے
طورپرہونے چاہئیں اور انہیں ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں
کرنی چاہئے بلکہ ملکوں کی سیاسی منظوری ،حاکمیت اور علاقائی یکجہتی کالحاظ
رکھتے ہوئے باہمی تنازعات کوپرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہئے اور طاقت
کے استعمال کرنے کی دہمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کی سیاست کی بھی مذمت کرتے
ہوئے کہاکہ ایسی دہمکیوں اوراشتعال انگیزیوں کے نتیجے میں خطہ عدم استحکام
کاشکارہوسکتاہے۔روس نے اعتراف کیاکہ ایران روزانہ ہی ان اصولوں کی خلاف
ورزی کررہاہے ۔روس نے ایران اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان تین خلیجی
جزائرکے حوالے سے تنازعات میں خلیجی کونسل کی حمائت کرنے کابھی اعلان
کیااورکہاکہ ان سب جزائر کے حوالے سے فریقین کے درمیان براہِ راست مذاکرات
سمیت بین الاقوامی قانون اوراقوام متحدہ کے منشورکومقدم رکھاجائے۔
یمن اورعراق کے ساتھ معاملات کے حوالے سے بھی خلیجی تعاون کونسل کی حمائت
کی اورعالمِ اسلام میں اپنے امیج کوبہتربنانے میں گہری دلچسپی کا اظہار
کیااورعندیہ دیاکہ روسی گروپ برائے تزویراتی ویژن کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ
مسلمانوں اورروسیوں میں مکالموں کیلئے کانفرنسوں کا اہتمام کرے گا جو
سعودیہ اورخلیجی تعاون کونسل سے روس کی اقتصادی شراکت داری جوصنعت ،
ٹرانسپورٹ، کمیونکیشن، زراعت، دہشتگردی،تعلیم،سائنسی ریسرچ اورتیل پالیسی
میں تعاون پرمبنی ہوگی۔اس کے ساتھ ہی فریقین علاقائی اورعالمی معاملات پر
خوشگوارفضابرقراررکھنے پرآمادہ ہیں،اس لئے توقع کی جارہی ہے کہ شاہ سلمان
کاحالیہ دورۂ روس ایک انقلابی پیش رفت ثابت ہوگا۔شاہ سلمان ابھی روس سے
روانہ ہوئے تھے کہ پینٹاگون سے ایک بیان جاری ہواکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے
پندرہ ارب ڈالرمالیت کے "تھاڈ" میزائل سسٹم کی سعودی عرب کو فروخت کے بل پر
دستخط کردیئے ہیں جوایک سودس ارب ڈالرپیکج کاایک حصہ ہیں۔ ممکنہ میزائلوں
حملوں سے محفوظ رکھنے کے اس امریکی سسٹم کے اعلان کی ٹائمنگ انتہائی اہم
ہے،یہ اعلان روس کے اس وعدے کے جواب میں کیاگیاہے جس کے مطابق روس سے
۵۴۰۰میزائل خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے،یوں واشنگٹن نے یہ اشارہ دیاہے کہ
امریکا روس کوہتھیاروں کی مانگ کی سعودی مارکیٹ میں داخل نہیں ہونے دے
گا۔روس کی معیشت مغربی پابندیوں اور جکڑ بندیوں کومحسوس کررہی ہے۔عالمی
منڈی میں تیل کی قیمتیں گرناکریملن اور سعودی عرب کیلئے ڈھکے چھپےمطلب
رکھتاہے اورامریکی آئل انڈسٹری کے اس ڈھکے چھپے چیلنج کومحسوس کرکے ہی روس
اورسعودی عرب کے تعلقات کو سمجھا جاسکتاہے۔پیوٹن کے مطابق تیل کی عالمی
منڈی میں قیمتیں بڑھانے کی تیل کی پیداوارکم کرنے کے معاہدے کی مدت
کوبڑھادیاجائے گا،دوسری جانب شام کے بحران کوختم کرنے کیلئے سعودی عرب
کاجھکاؤ ماسکوکی جانب ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق سعودی عرب روس کے ساتھ
اپنے مفادات کی وجہ سے اپنی خارجہ پالیسی میں توازن قائم کرناچاہتاہے
اورمشترکہ مفادات پرروس کے ساتھ شراکت داری میں تنوع لاناچاہتاہے اورشام کے
معاملے پربھی کریملن کوحقیقت پسندانہ پالیسی اپنانے پرآمدہ کرناچاہتی ہے۔یہ
بات اب طے ہے کہ حالیہ سعودی فرمانروا کے اس نئے اقدام اور سی پیک کی تکمیل
اس خطے میں امریکی اثرونفوذکے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی اوراب پاک چین
اورروس کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی امریکاکومسقط میں افغان مذاکرات میں
مشکلات کاشکار کرسکتے ہیں۔ |