612 بچوں کے قاتلوں کو پھانسی کب؟

تھر اور چولستان موت کے کنوئیں اور ایسی گہری کھائی ہیں جہاں آج تک ہزاروں نو مولود کم سن اور کم عمر بچے صرف غذاؤں کی قلت اور پانی کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو کرمدفون ہیں ان علاقوں میں کوئی باقاعدہ قبرستان نہ ہیں لوگ دور دراز پانی کی تلاش میں گھومتے پھرتے اور ذاتی طور پر بنائی گئی جھونپڑیوں میں رہائش پذیر ہیں جونہی بچہ فوت ہوتا ہے اسے وہیں دفنا دیتے ہیں صرف امسال ہی دس ماہ کے دوران چھ سو سے زائد بچے صرف غذاؤں پانی اور ادویات کی کمی کی وجہ سے اگلے جہاں کو سدھار گئے ہیں تھر اور چولستان کے لیے اربوں روپے کے فنڈزسندھ اور پنجاب کی حکومتیں بیرون ممالک امداد کرنے والی کمپنیوں سے وصول کر رہی ہیں مگر ان علاقوں کے غرباء اور مساکین بے حال وپریشان ہیں ان نو مولود ننھے بچوں کی امددا بھی ساری کی ساری اسی طرح ہضم کر لی جاتی ہے جس طرح یہ کرپٹ اژدھے سرکاری خزانہ کا مال ڈکار جاتے ہیں ۔زرداری صاحب ہوں یا نواز شریف یاسابقہ و حالیہ مقتدر افراد کی کھربوں روپوں کی دولت بیرون ممالک جمع پڑی ہے ہمہ قسم لیکس ،پلازوں ،کارخانوں اور فلیٹس میں پاکستانیوں کی خون پسینے کی کمائیاں لگی ہوئی ہیں۔ٹھگوں چوروں اور ڈاکوؤں کے منظم گروہ سیاسی روپے دھارے بڑی پارٹیوں میں اہم عہدوں پر قابض ہیں ا س لیے ایک دوسرے کا احتساب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

حال ہی میں تین اور بچے تھر میں جان سے گزر گئے مگر صدر وزیراعظم گورنر مرکزی و صوبائی وزراء کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی آخر تھر کے اندرمٹھی کے مقام پر اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ ہسپتال کس غرض سے بنایا گیا ہے ؟وہاں ادویات تو مہیا نہ ہیں اور غریب مریضوں کو خوراک تک بھی نہ دی جاسکے تو نئے پلازے عالیشان سڑکیں میٹرو نما بسیں اور اورنج ٹرینیں چلانے کا کیا فائدہ ہے؟مریض بلکتے بلکتے مر جائیں اور انہیں صاف پانی اور ادویات بھی مہیا نہیں کی جاسکتیں تو ایسے چونچلے کرنے کا کیا فائدہ ہوگا۔صدر ممنون حسین نے حال ہی میں یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چار سالوں کے دوران کھربوں روپوں کے قرضے جو کہ صرف ہسپتالوں تعلیمی اداروں اور پانی کے ڈیم بنانے کے لیے حاصل کیے گئے تھے وہ کیا ہوئے خدا ایسے کرپٹ لٹیروں اور ٹھگوں کو لازماً سخت سزاسے گزاریں گے۔

پوری قوم بجا طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ صرف دس ماہ میں ان603و مزیدنو مولود و کم سن بچوں کی ہلاکت کا سبب تلاش کرکے جو بھی ملوث ہو خواہ وہ وزیر اعلیٰ یا کوئی بیورو کریٹ ہی کیوں نہ ہو ان کے خلاف قتل عمد کے مقدمات چلا کر انہیں تختہ دار پر کھینچا جائے ہمارے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓنے فرمایا تھا کہ میری خلافت کے دوران اگرایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو میں آخرت میں کیا جواب دوں گا؟ نہ کوئی نوٹس لیتا ہے اور نہ ہی کوئی انکوائری ہوتی ہے مرکزی و صوبائی حکومتیں زیادہ مال بناؤ مہم میں مصروف ہیں تاکہ آئندہ انتخابات میں دوبارہ ووٹوں کی بندر بانٹ کرتے ہوئے انہیں خریدا جا سکے تاکہ دوبارہ مقتدر ہو کر اسی طرح ان کا لوٹ کھسوٹ کا کاروبار جاری رہ سکے۔شریفین سبھی پانامہ لیکس سے جان چھڑوانے اور مقدمات بھگتنے میں مصروف ہیں معصوم بچے جس طرح بھی ہلاک ہوتے رہیں انہیں کیا پرواہ ہے؟ کہ تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو اگر سخت ترین ایکشن نہ لیا گیا تو یونہی ہلاکتیں ہوتی رہیں گی۔کم ازکم جو خوراک بیرون ممالک سے ایسے علاقوں کے لیے بھجوائی گئی ہے وہی بھوک مرتے بچوں اور مریضوں میں تقسیم کردی جائے مگر کرپٹ بیورو کریٹ اسے دوکانوں پر بیچ ڈالتے ہیں۔ایسے انتظامی افسران محکمہ خوارک کے ذمہ داران کو ٹکٹکیوں پر باندھ کر سخت ترین سزائیں دیا جانا اشد ضروری ہے شریفین تو اپنے مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں مگر سندھ اور پنجاب کی حکومتیں کیا گھاس چرنے گئی ہوئی ہیں؟ کہ ان بے آب وگیاہ ریگستانی علاقوں تھر اور چولستان میں رہنے والے بچے صرف غذائی قلت پانی کی عدم دستیابی اور ادویات کی عدم فراہمی ،ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہوتے رہیں حکمرانواور بیورو کریٹو!خدا کے عذاب سے ڈرو کہ وہ بہت طاقتور ہے اور وہ زلزلے ،طوفان ،سیلاب بھیج کر ہمیں تباہ کرنے کی مکمل طاقت رکھتا ہے اور اگر آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑے تو ظالم افراد بھسم ہو کر کوئلہ بن کر رہ جائیں گے کہ گہیوں کے ساتھ گھن بھی پس جایا کرتا ہے ۔بیرونی امدادوں سے ان علاقوں میں سڑکیں بنانے اور کنوئیں کھدوانے اور بجلی مہیا کرنے کی سکیموں پر آج تک عمل شروع ہی نہیں کیا جا سکا غالباً یہ رقوم بھی ہضم کی جاچکی ہونگی۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چند روز قبل ہی سول ہسپتال مٹھی (تھر)میں ایک ہی روز قبل ازوقت پیدائش اور غذائی قلت کے باعث 9بچے مزید انتقال کر گئے ہیں قاتلوں کو کون پھانسی پر لٹکائے گا؟
وما علینا الا البلاغ۔

Mian Ihsan Bari
About the Author: Mian Ihsan Bari Read More Articles by Mian Ihsan Bari: 278 Articles with 180685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.