افغانستان میں امن کیسے بحال ہوسکتا ہے؟

پاکستان کی مغربی اورشمالی سرحد پر واقع افغانستان کا کل رقبہ چھ لاکھ سینتالیس ہزار پانچ سو کلو میٹر ہے ،مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کا تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے اس کے 99 %لوگ مسلمان ہیں یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، برطانیوں، روسیوں اور اب امریکیوں کے زیر اثر ہے ،البتہ دنیا کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے لیے یہاں ایک جمہوری حکومت ملک کے نظام وانصرام چلارہی ہے یہ حکومت فیصلہ سازی میں کتنی بااختیار ہے یہ ایک الگ مضمون ہے افغانستان کی خطے کے اہم ملک چین کے ساتھ۷۶ کلومیٹر، ایران کے ساتھ ۹۳۶ کلومیٹر ، پاکستان کے ساتھ ۲۴۳۰کلومیٹر، تاجکستان کے ساتھ ۱۲۰۶کلومیٹر ، ترکمانستان کے ساتھ ۷۴۴کلومیٹر اور ازبکستان کے ساتھ ۱۳۷کلومیٹر سرحد مشترک ہے،افغانستان ساحل سمندر سے محرومی کے باوجود ایشیاء میں دل کی حیثیت رکھتا ہے ،اگردل میں تکلیف ہو تو باقی بدن کیسے راحت وسکون حاصل کرسکتا ہے ،وسطی ایشیاء ہو یا جنوبی ایشیاء ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایشیاء کو دل کا عارضہ لاحق ہے بعض حاسدین اس مرض کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اس مرض کا علاج ترقی وخوشحالی کے نئے باب روشن کرے گااورایشیاء یورپ اورامریکہ پر بازی لے جائے گا،یہ بہت تلخ حقائق ہیں گلبدین یار نے کہاتھا افغانستان کی سرزمین سونا نہیں اگلتی باقی یہاں ہرنعمت اگتی ہے اﷲ تعالیٰ نے جو زمین اورجوآب وہوا دے رکھی ہے اگر امن قائم ہوجائے تو افغانستان اپنی معیشت کو جاپان کی معیشت سے بھی اگے لے جاسکتاہے ،گلبدین یار صاحب کے رائے سے اتفاق یااختلاف کیا جاسکتاہے ہم سمجھتے ہیں کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو پاکستان یقینا ایشیاء کا ٹائیگر بن سکتاہے-

انڈیا اورامریکہ دونوں یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں امن قائم نہ ہو اس سازش کو جاری رکھنے کے لیے یہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں پاکستان خلوصِ دل سے خطے میں امن چاہتاہے ضربِ عضب اورردالفساد اپریشن اس کی تازہ مثال ہیں ،امریکی صدر کا ہندوستان کو افغان امن عمل میں شامل کرنا یا کسی بھی طرح کے کردار کی دعوت دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نواب امریکہ امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرنا چاہتا اہل علم واربابِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ افغان غیرت مند مسلم قوم ہیں جو نہ جھکنا جانتے ہیں نہ ہی بکنا قید پر موت کو ترجیح دینے والے افغانیوں نے جیسے روس کا اثر قبول نہیں کیا ویسے ہی امریکی تسلط بھی برداشت نہیں کیا لاکھوں جانیں قربان کرنے والے ہزاروں ہم وطنوں کو اپاہج کروانے والے سالہاسال سے جلاوطنی کاٹنے والے کیسے انتہاپسند مودی کا سایہ برداشت کریں گے ایسا سوچنا دن میں تارے دیکھنے جیساہے سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ افغانستا ن میں کیسے امن عمل بحال ہوگا اس کا سب اچھا اورپہلا راستہ یہ ہے کہ افغانستان سے سب غیر ملکی نکل جائیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ امریکہ اس مشورے پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے وہ خطے میں موجود رہنا چاہتاہے،امن عمل اس فکر کو سپوتاز کردے گا وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ یہاں امن قائم ہولہٰذا جو کچھ کرنا ہے وہ افغان حکومت نے کرنا ہے موجودہ افغان حکومت اپنی آنکھوں سے امریکی غلامی کالباس اتار پھینکے اورمسلح طالبان سے سنجیدہ مذاکرت کے ذریعے مساوات پر مبنی ایک معاہدہ تحریر کرے حکومت مخالف مسلح گروہوں کے تحفظات کو بغور دیکھا جائے اوران کے مطالبات کی نوعیت پر سنجیدہ طریقے سے سوچاجائے ،زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جائے جس پر اکثریت متفق ہوفیصلہ کرتے وقت کسی بیرونی قوت کی خواہش کو مدِ نظر نہ رکھا جائے۔ افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا حکومت مخالف دھڑے اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ اتفاق کرنے پر آمادہ ہوں گے لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ کچھ لوکچھ دو کے ذریعے سالہاسال کی جنگ کو باہمی مفاہمی پالیسی کے تحت ختم کردیا جائے ترقی وخوشحالی کے نئے باب کھولے جائیں ،مگرافسوس افغان حکومت اپنے کرنے والے کام خود سرانجام دے ،اپنی ناکامیوں اورکمزوریوں کا کچرا پاکستان پر نہ ڈالے بلکہ اپنی خامیوں اورکمزوریوں پر غور کرے ،پاکستان سے معاونت حاصل کرے اورپاکستان معاونت دینے کو تیار بھی ہے،جناب اشرف غنی جہاں دیدہ انسان ہیں وہ تاریخی حقائق سے باخبر بھی ہیں کہ کوئی گروپ یا قوت افغانستان پر ہمیشہ حکومت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے البتہ مل جل کر حکومت کرنے کا تجربہ یہاں مثبت ثابت ہوا ہے جناب اشرف غنی صاحب مودی یا ٹرمپ کی خواہش پر کبھی بھی افغانستان کو پر امن سیکولر ریاست نہیں بناسکتے وہ لوگ جنہوں نے ایک نظام کے تحفظ اورپرچار کے لیے لاکھوں جانیں قربان کی ہوں وہ کیسے ایسے نظام کا حصہ بن سکتے ہیں اورنہ ہی افغان طالبان اپنی فکر کوحقیقی شکل میں رائج کرسکتے ہیں کیونکہ بین الاقوامی قوتیں اس نظام کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں دونوں کو اپنے موقت میں نرمی کرنے کی ضرورت ہے دنیا کو بھی افغانستان کے معاملے میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔۔۔۔جاری ہے ۔

Rashid Sudais
About the Author: Rashid Sudais Read More Articles by Rashid Sudais: 56 Articles with 73600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.