کابل سے دہلی تک کا سفر براستہ اسلام آباد

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ہنری کسنجر امریکہ کے مشہوروممتاز سفارتکار اور دانشور ہیں ۔ہنری کسنجر کی سفارتکاری اس وقت سامنے آئی جب امریکہ ویت نام کی جنگ میں بری طرح پھنس چکا تھا ۔ ان دنوں ہنری کسنجر نے اپنی سفارتکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے اس جنگ کی دلدل سے امریکہ کو نکالا۔ہنری کسنجر 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بنائی جانے والی امریکی پالیسیوں کے گواہ ہیں۔ہنری کسنجر وہ سفارتکار ہے جس کے درجنوں اقوال امریکہ کی خارجہ پالیسی بن چکے ہیں ۔ ہنری کسنجر ہی وہ دانشور تھا جس نے کہا تھا کہ امریکہ نے اب تک تمام جنگوں میں شکست کھائی سوائے خلیج جنگ کے کہ جس میں اس نے اپنے اہداف حاصل کر لیے۔ ٹرمپ کے صدر کا منصب سنبھالنے کے بعددنیا کے نقشے پر ابھرتی معاشی میدان میں سپر پاور ریاست چین کے ساتھ جب امریکہ کے تعلقات متاثر ہونے لگے تو امریکہ نے پھر ہنری کسنجر کے تجربات سے فائدہ اٹھایا اور تعلقات کی بہتری کے لیے ہنری کسنجر کو مشن سونپ دیا۔ ہنری کسنجر نے فوری طور پر چین کا دورہ کیا اور یوں اپنی کامیاب سفارتکاری سے چین اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔بھٹو دور میں ہنری کسنجر پاکستان کی سیاست میں بھی کافی متحرک نظر آئے ۔ امریکہ پاکستان کی طرف سے اسلامی دنیا کو اکٹھا کر کے کانفرنس کروانے اور ایٹمی پروگرام کے شروع کرنے پر کافی ناراض تھا ۔انہی دنوں ذوالفقار بھٹو نے تاریخی الفاظ کہے کہ ’’ہم گھاس پھوس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے ‘‘۔پاکستان کی اس جرات پر ہنری کسنجر نے بھٹو کو مخاطب کر کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھاـ’’ ہم تمھیں بدترین مثال بنا دیں گے ــ‘‘۔

ہنری کسنجر ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی تھے ۔ امریکہ کی دوستی کے حوالے سے ان کا ایک قول بہت ہی مشہور ہے بلکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ قول ہی امریکہ کی خارجہ پالیسی کا حصہ یا شایداس کی بنیاد ہے ۔ہنری کسنجر نے کہا تھا ’’اگر آپ امریکہ کے دشمن ہیں تو آپ خطرے میں ہیں لیکن اگر آپ دوست ہیں تو پھر آپ انتہائی خطرے میں ہیں‘‘۔ہنری کسنجر کے یہ الفاظ ہر اس ریاست کے لیے ہیں جو امریکہ کو دوست یا دشمن سمجھتا ہے ۔نائن الیون کے بعد افغانستان و عراق میں طویل جنگ کے بعد دنیا میں امریکی ورلڈ آرڈر کا بت زمین بوس ہو گیا لیکن اس کے باوجود دنیا میں امریکی مداخلت جاری ہے ۔ خلیج جنگ کے بعد امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں اور اسرائیل کی غیر معمولی حمایت نے خطے کو بدترین بحران میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ کے وزیر خارج ریکس ٹیلرسن مشرق وسطیٰ کے دورے کے بعد افغانستان سے بھارت پہنچے ہیں تاہم انہوں نے کچھ دیر پاکستان میں بھی گزارے جس میں پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے ان کے ساتھ ملاقات بھی کی ۔ریکس ٹیلرسن کا یہ دورہ اس لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کا یہ ان کا پہلا دورہ ہو گا بلکہ ایسے وقت میں ہو رہا جب کہ دونوں خطوں میں انتہائی اہم معاملات پر حالات کافی حد تک شدت اختیار کر چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا دورہ تو فی الحال ناکام ہو چکا ہے کیونکہ وہ سعودی عرب اور قطر کی مفاہمت کروانے میں ناکام رہے تاہم اس موقع پر ایک اہم پیش رفت ریاض و بغداد کا اتحاد ضرور ہے۔ دوسری طرف وہاں سے جنوبی ایشیا میں ان کی پہلی قیام گاہ افغانستان تھی ۔ یہ دورہ ایسے وقت میں تھا جب امریکہ کی جانب سے ہمیشہ کی طرح سے ’’ڈو مور‘‘ کا تقاضا پہلے کی نسبت ذیادہ شدت سے کیا جارہا ہے۔ البتہ پاکستان کی جانب سے پہلی بار اس کے جواب میں ’’نو مور ‘‘ کا موقف رکھا گیا ہے۔ افغانستان پاکستان اور بھارت کی مثلث کے مسائل کو امریکہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے اپنی نگاہ سے دیکھنا چاہتا ہے ۔ سابق صدر افغانستان حامد کرزئی کی جانب سے چند دن قبل ہی یہ بیان سامنے آیا کہ امریکہ افغانستان میں داعش کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور امریکہ کے ہوائی اڈے بھی داعش استعمال کر رہی ہے ۔حامد کرزئی کے یہ الزامات معمولی نوعیت کے نہیں تھے کہ ایک عرصہ تک امریکی چھتری تلے وہ افغانستان پر حکومت کرتے رہے ہیں ۔ جبکہ افغانستان میں امن کی صورتحال کا اس بات سے جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان کے صدر سے ملاقات کے لیے کابل کی بجائے انہیں بگرام ائیر بیس پر موجود امریکی اڈے پر بلایا اور سخت سیکورٹی کے باوجود وہ کابل جانے پر راضی نہ ہوئے۔افغانستان میں اس ملاقات کے دوران ٹیلرسن نے ایک دفعہ پھر پاکستان کو ڈومور کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے۔امریکہ کا یہ موقف دراصل بھارت و افغانستان کی زبان ہے ۔ یہ اطلاعات بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کی آمد سے قبل افغان صدر اشرف غنی نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور دونوں ممالک نے پاکستان پر الزامات عائد کرنے ہوئے اتفاق رائے کا اظہار کیا کہ سرحد پار( پاکستان میں ) دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے تباہ کرنا ضروری ہے ۔

افغانستان سے دورہ کے بعد امریکی وزیر خارجہ پاکستان پہنچے تو وہاں دیئے گئے بیانات کے اثرات بھی دیکھنے میں آئے ۔سینیٹ کے چئیرمین کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان پر بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ۔ جبکہ شاید پہلی دفعہ کسی امریکی وزیر خارجہ کا سرد استقبال ہوا ۔ ریکس ٹیلرسن کو دفترخارجہ کے چند افسر ائیرپورٹ لینے گئے اور وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے چند وزراء اورآرمی چیف و ڈی جی آئی ایس آئی کی موجودگی میں چند گھنٹے امریکہ وفد سے ملاقات کی ۔ ملاقات میں بھی پاکستان کی جانب سے واضح طور کہا گیا کہ پاکستان نے اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہیں اور اب امریکہ سمیت دیگر ممالک کو اپنے حصہ کا کام کرنا ہے ۔پاکستان کی قیادت نے یہ بھی واضح کیا کہ بہتر تعلقات کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اعتماد کرے اور افغانستان میں بھارتی کردار کو محدود جبکہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی بقایا رقم کی ادائیگی کو یقینی بنائے ۔ان اقدامات کے بغیر خطے میں نہ صرف دہشت گردی کی جنگ کو بلکہ براہ براست امریکہ کے مفادات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ریکس ٹیلرسن بھارت پہنچ چکے ہیں جہاں وہ بھارتی قیادت سے ملاقات کریں گے ۔ اس موقع پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو ہنری کسنجر کے قول کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسی طے کرنا ہو گی۔ پاکستان کے خلاف افغانستان و بھارت کا اتحاد مخفی نہیں لیکن امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد یہ اتحاد ثلاثہ پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آچکا ہے ۔ دنیا می منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے پاکستان کو بھی اس منظر نامے کو سمجھ کر اپنی خارجہ پالیسی کو درست کرنا ہو گا۔ ’’نو مور ‘‘ کے موقف کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر طاقتوں جن میں چین اور روس سرفہرست ہیں کے ساتھ مل کر ایک نئے سفر کا آغاز کرنا ہو گا۔ جس کے لیے بہت حد تک ابتدائی کام مکمل ہو چکا ہے ۔ امریکہ کی دشمنی اس کی دوستی سے بھی خطرناک ہے تو کیوں نہ اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں پاکستان بھی اپنے مفادات کے لیے ایک نئے سرے سے سفارتکاری کا آغاز کرے۔

Asif Khursheed Rana
About the Author: Asif Khursheed Rana Read More Articles by Asif Khursheed Rana: 97 Articles with 64420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.