پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
برنارڈ شا نے کہا ’’اچھے کاموں کا معیار صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اِن سے
نوحِ انسانی کو مسرت حاصل ہو‘‘۔ اگر وطنِ عزیز کے بزعمِ خویش رہنماؤں کی
سیاسی زندگی پر نظر دوڑائیں تو اُن کی ساری تگ ودَو صرف اپنی ذات کے گرد ہی
گول گول گھومتی نظر آئے گی ۔ اُن کی جہدِ مسلسل اگر ہے تو صرف ذاتی منعفت
اور ہوس واقتدار کے لیے ۔ نعرہ البتہ مفلسوں کی دستگیری کا اور وہ بھی بہت
بلند بانگ ۔ تاریخ کا سبق یہی کہ جب مسندِ اقتدار کے بھوکے بھیڑیئے جذبۂ
احساس سے تہی ہو کر اپنی ذات کے گنبد میں گُم ہو جائیں تو قوموں کو زوال
آجاتا ہے اور ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ ہماری قومی سیاست بھی اُسی موڑ پر پہنچ
چکی جہاں اپنی ذات کے سوا کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ اہلِ دِل اور
صاحبانِ فکر ونظر بُری طرح بے چین وبیقرار کہ آگے مایوسیوں ،تباہیوں اور
بربادیوں کے گھور اندھیروں میں گُم گہری کھائیوں کے لامتناہی سلسلے کے سوا
کچھ نہیں۔ اُن کا عالمِ یاس اِس مقام پر کہ
خدشوں نے جہاں دی نہ میری آنکھ لگنے
اُس شہر کا اِک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
اُدھر صاحبانِ مکر وریااپنی اپنی ڈفلی سنبھالے جابجا ’’تَک دھنادھن ۔
نااہلی کا روگ پالے میاں نوازشریف انتقام کی آگ میں بھسم ، کپتان اقتدار سے
دوری پر تلملاہٹوں کا شکاراور زرداری ایک دفعہ پھر ’’ تلاشِ زَر‘‘ کا بیمار۔
ایسے میں مفلسوں کے حالِ بَد پر نظر کرنے کی بھلا کسے فرصت۔ رگ وپے میں
قدرتی مایوسی نے مجبوروں سے جینے کی اُمنگ بھی چھین لی۔ اِسی لیے وطنِ عزیز
میں خودکشیوں کا تناسب روزافزوں۔ چاروں طرف وحشتوں کا راج ، اُمید کی ہر
کرن آندھیوں کی زَد میں اور سنہرے سفروں کی تعبیر معکوس۔ نفرتوں اور
کدورتوں کے اِس موسم میں ابرِ نیساں کی آرزو احمقوں کی جنت میں بسنے کے
مترادف۔ اِس عالم میں آرٹیکل 62/63 کی برہنہ تلوار گلے کاٹنے کو
تیارحالانکہ قحط کے عالم میں چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا بھی معطل کر دی گئی
تھی، اب بھی قوم کا سامنا قحط ہی سے ہے۔ البتہ یہ قحط الرجال ہے جس کا کوئی
حل ہے نہ سدِباب۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آرٹیکل 62/63 لاگو نہیں ہونے چاہییں لیکن یہ ضرور کہ
پہلے قوم کی تربیت تو کرلیں۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ اِس معیار پر کوئی بھی
پورا نہیں اترتا، سیاستدان نہ ادارے، عدلیہ نہ فوج اور نہ ہی میڈیا بلکہ
میڈیا سے تو جلتی پر جتنا جی چاہے تیل ڈلوا لو۔ میڈیا پر نقالوں ،بھانڈو
اور جگت بازوں کا قبضہ جو جس کی جی چاہے پگڑی اچھال دے۔ اگر پیمرا حرکت میں
آئے تو عدالتیں نیوز چینلز کو ’’سٹے‘‘ دینے میں ایک لحظے کی تاخیر نہیں
کرتیں۔ پیمرا ایسے کیسز پر کروڑوں روپے صرف کر رہا ہے لیکن نتیجہ ڈھاک کے
تین پات۔ بے بس وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ وہ تمام کیسز واپس لے
رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے کم از کم وکیلوں کو دی جانے والی کروڑوں روپے
فیس تو بچ جائے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ اب میڈیا کے جو جی میں آئے ،کرے۔
مبارک ہو کہ اب ہمارا نڈر اور بے باک میڈیا پہلے سے زیادہ آزاد بلکہ مادر
پدر آزاد ہو گیا ہے۔ اِس شطر بے مہار آزادی میں جتنا حصہ میڈیا کا ہے ،اُتنا
ہی عدلیہ کا بھی جو آزادیٔ اظہار کے نام پر ’’سٹے‘‘ دے دیتی ہے خواہ یہ
اظہار گالی گلوچ ،فتنہ پردازی ،بہتان تراشی، شعارِاسلامی کا مذاق اُڑانے
اور اور انتشار پھیلانے ہی کی صورت میں نہ ہو۔ موجودہ سیاسی بحران کو ہوا
دینے میں بھی سب سے زیادہ حصّہ الیکٹرانک میڈیا کا ہے ،وہ خواہ نیوزچینلز
کی صورت میں ہو یا سوشل میڈیا کی صورت میں۔
بات پاناما پیپرز کی شروع ہوئی اور پاکستانی ترقی کو رگیدتی چلی گئی۔ ہم تو
سمجھتے تھے کہ اب روتی بلکتی قوم کو کرپشن کے عفریت سے نجات مل جائے گی
لیکن نتیجہ برعکس نکلا۔ اعلیٰ عدلیہ نے پاتال کی گہرائیوں تک جا کر ایک
اقامہ تلاش کیا اور اُسے بنیاد بنا کر وزیرَاعظم کو گھر بھیج دیا اور یوں
ثابت ہو گیا کہ مقتدر قوتیں کسی بھی آئینی حکومت کو اُس کی آئینی مدت پوری
کرنے کو سخت ناپسند کرتی ہیں۔ پھر نواز لیگ نے پارلیمنٹ سے الیکشن اصلاحات
2017ء کی صورت میں پارلیمنٹ سے ایک بِل منظور کروا لیا جس کے تحت نااہل شخص
بھی کسی سیاسی جماعت کا صدر بن سکتا ہے ۔اِس بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن
نے آسمان سر پر اٹھا لیاکیونکہ میاں نوازشریف کی پارٹی صدر بننے کی راہ
ہموار ہو چکی تھی اور اپوزیشن کو ایسی قد آور سیاسی شخصیت کسی صورت بھی
قبول نہیں تھی حالانکہ پہلے ہی آئین کی دفعہ 17 کے تحت کسی بھی شخص کو
سیاسی جماعت بنانے کا حق حاصل ہے اور اِس آرٹیکل میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ
نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں ہو سکتا۔ نااہلی کی شرط آمروں کی دین
تھی جسے انتخابی اصلاحات 2017ء سے نکال دیا گیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ
سید منظور علی شاہ نے اِس بِل کے خلاف دی گئی اپوزیشن کی درخواستوں کی
سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ’’ اخلاقی طور پر برا لگتا ہے کہ عدالت سے
نااہل قرار دیا جانے والا شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بنے لیکن برا یا
عجیب لگنے کی وجہ سے قانون کالعدم نہیں کیے جاتے‘‘۔ درخواست گزاروں کے
وکلاء نے جب چیف جسٹس کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ عدالتوں کو اخلاقی تقاضے
پورے کرنے کے لیے فلٹر بھی لگانا ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو
کوئی دہشت گرد بھی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔ جواباََ چیف جسٹس
صاحب نے دوٹوک انداز میں کہاکہ فلٹر لگانا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں،آئین نے
ووٹر کو جو حق دیا ہے ،اُس پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا اصل فورم
پارلیمنٹ ہے۔ عدلیہ پارلیمنٹ کے دائرۂ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی ا،س
لیے درخواست گزاروں کو پارلیمنٹ کا ہی دروازہ کھٹکٹانا چاہیے ۔چیف جسٹس
صاحب نے تو پارلیمنٹ کو سپریم مان لیا لیکن اِس کا کیا کِیا جائے کہ
پارلیمنٹ میں بیٹھے آئین ساز ہی اسے سپریم ماننے کو تیار نہیں۔اگر نااہلیت
کی شرط پہلے ہی سے آئین کا حصہ ہوتی تو اپوزیشن یہ کہہ سکتی تھی کہ حکومت
نے اپنی اکثریت کے زور پر اِس شرط کا خاتمہ کروا دیا لیکن یہ تو آمروں کا
تحفہ تھا جس سے آئین کو پاک کیا گیا۔ بالکل اسی طرح اپنے مخصوص عزائم کی
تکمیل کے لیے ضیاء الحق نے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو آئین کا حصہ بنایا تاکہ
اِن آرٹیکلز کو بنیاد بنا کر وہ جس کو جی چاہے کان سے پکڑ کر باہر نکال
سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین میں پارلیمنٹیرین کے لیے پہلے ہی سے کڑی شرائط
موجود ہیں جن کے بعد اِن آرٹیکلز کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔
1973ء کا آئین تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا متفقہ آئین ہے۔ اگر اُس وقت
آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تو آج بھی اِس کی قطعاََ
ضرورت نہیں۔ |