جماعت اسلامی نے لاہور میں عزم نو کنونشن کے نام سے سیاسی
طاقت کا بہترین مظاہرہ کیا۔ این اے 120میں شکست کے بعد جہاں جماعت اسلامی
کا کارکن اور ہمدرد دونوں ہی سخت مایوس تھے۔ ایسے میں انہیں صدمے سے نکالنے
اور حوصلہ دینے کی سخت ضرورت تھی۔ امید نہیں تھی کہ اس پروگرام میں جماعت
اسلامی اچھا پاور شو دکھا پائے گی۔ مگر اتنی بڑی تعداد میں کارکنوں کے اکٹھ
نے ثابت کیا کہ جماعت اسلامی میں ابھی دم خم باقی ہے۔
مذکورہ الیکشن میں شکست کے بعد جماعت اسلامی میں نچلی سطح تک سخت تشویش
پائی جاتی تھی، یہاں تک کہ جماعت کے مقامی امیر نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے
استعفیٰ بھی دیا…… لیکن قیادت نے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدات کی۔ میں
ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس شکست میں ذکر اﷲ مجاہد کا اتنا قصور بھی نہیں
تھا، کیونکہ رائے عامہ ہمارے ہاں صرف دو ہی پارٹیوں کے حق میں منظم ہے۔
حالانکہ جماعت اسلامی اس وقت ملک کی واحد پارٹی ہے جو سیاسی، سماجی اور
خدمت کے میدان میں جدوجہد کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ میں جماعت اسلامی سے لاکھ
اختلاف رکھوں، مگر اپنے ارد گرد نظر دوڑاؤں اور اب تک کی حکمران پارٹیوں کا
ماضی اور حال دیکھوں تو مجھے جماعت اسلامی سے بہتر اور شفاف پارٹی کوئی بھی
نہیں دِکھتی …… میں دیکھتا ہوں کہ آج قوم کو مسلکی، لسانی اور علاقائی
بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے اور بھانت بھانت کے نظام ہائے تعلیم نے اس
تقسیم کو مزید گہرا کر ڈالا ہے …… میں دیکھتا ہوں کہ آج جبکہ پورا نظام
اسٹیٹس کو کے نرغے میں ہے اور جس جس نے بھی ہم پر حکومت کی، اس نے ہماری
حالت سنوارنے کی بجائے مسائل میں اضافہ ہی کیا …… جس کے نتیجے میں ڈگریاں
تھامے ہمارے لاکھوں نوجوان روزگار سے محروم ہیں …… حالات سے مجبور والدین
خودکشی کو ترجیح دینے لگے ہیں …… ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ پورے پاکستان
سے لوگ اپنا علاج کروانے لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں آتے ہیں، کیونکہ آج
تک کوئی بڑا اور مستند عوامی ہسپتال نہیں بن سکا، جو ہیں وہ سہولیات کی قلت
کا شکار ہیں …… میرے مشاہدے میں آتا ہے کہ حالات کے مد و جزر کے موقع پر
بھاری مینڈیٹ کے دعویدار بیماری کے نام پر ملک سے فرار ہو جاتے ہیں …… میں
دیکھتا ہوں کہ سیاست اور جمہوریت کے نام پر میرا استحصال گذشتہ 7 دہائیوں
سے ہوتا آرہا ہے، مگر میں کچھ نہیں کر پاتا …… کیونکہ میرا ووٹ ہر الیکشن
میں چوری ہوا اور میری رائے کو یرغمال بنایا گیا ۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس قوم کو وحدت اور یکجہتی کی لڑی میں پرونے کی شدید
ضرورت ہے …… میں دیکھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے سوا ہر سیاسی پارٹی نے قوم
کو گمراہ کیا، ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا، ہیجان میں مبتلا کیا، نفرت اور
محاذ آرائی کی سیاست کو فرغ دیا اور امید اور تبدیلی کے نام پر ٹرک کی بتی
پیچھے لگائے رکھا …… لیکن جماعت اسلامی کو میں نے ہمیشہ ان زخموں پر مرہم
رکھتے، سب کو یکسو کرتے پایا …… میں اپنی قوم کو معاشرتی، تہذہبی، تمدنی،
لسانی اور سیاسی لحاظ سے خطرات و مسائل کا شکار دیکھتا ہوں …… ہسپتالوں کی
بجائے سڑکوں پر بچوں کی پیدائش ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے شدت کے ساتھ احساس
ہوتا ہے کہ اس مظلوم و محروم طبقے کے جان و مال کے تحفظ اور ان میں وسائل
کی منصفانہ تقسیم کیلئے شعوری کوششوں کی ضرورت ہے۔ ایسی کوششیں جنہیں قیمے
والے نان اور بریانی کی پلیٹ بھی شکست نہ دے سکے …… مجھے اس پر اپنی قوم کی
سائیکی سے ہرگز شکوہ نہیں کہ ’’اب تو عادت سی ہوگئی ہے اپنے رِستے زخموں پر
نمک پاشی کی‘‘۔ ہم اپنے ہی ہاتھوں منتخب کیے گئے لوگوں سے حق تلفی بھی
کرواتے ہیں، اور ان کا بار بار انتخاب کرنے سے گریزاں بھی نہیں ہوتے۔ ہم
شرمندگی اور ندامت کو پاس بھی نہیں آنے دینا چاہتے، تو پھر اپنے کئے کے ذمہ
دار کوئی اور نہیں، ہم خود ہیں۔
آج ہمیں آئین اور جمہوری نظام کی بقا کی جس قدر ضرورت ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ حالات کے مدو جذر کے بعد مجھے جماعت اسلامی سے شدید
اختلافات کے باوجود اس سے بہتر متبادل دکھائی نہیں دیتا …… مجھے جماعت
اسلامی کا حالیہ عزم نو کنونشن اس کے مستقبل کے روشن ہونے کی دلیل دکھائی
دے رہا ہے۔ بلاشبہ یہ کامیاب کنونشن جماعت کے کارکنوں کی محنت کا نتیجہ ہے
جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ یہ ابھی آغاز ہے۔
الیکشن 2018 سے قبل جماعت اسلامی کو بہت کام کرنا ہے۔ وقت کم اور مقابلہ
سخت ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق چلنا ہوگا اور یوتھ کو موبلائز کرنا ہوگا۔
جماعت اسلامی کی جے آئی یوتھ جو بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں کو ممبرز بناتی
جارہی ہے، دیکھنا ہوگا کہ ان میں سے کتنے یوتھ ممبرز جماعت کے ساتھ سنجیدہ
ہیں۔ انہیں ہر صورت اپنا ہم نوا بنانا اور والینٹئیرازم کے جذبے کے تحت
جماعت کے کام پر آمادہ کرنا ہوگا …… مستقبل قریب میں مذہبی جماعتوں کا
اتحاد بھی ممکنہ طور پر سامنے آسکتا ہے، اس صورت میں جماعت اسلامی کو فیس
سیونگ کیلئے اور بھی زیادہ محنت درکار ہوگی، کیونکہ اگر ہم صرف لاہور کی
بات کریں تو 120 کے انتخاب میں چند مذہبی تنظیموں کے حق میں ووٹوں کی گنتی
دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ الیکشن کسی بھی مذہبی جماعت کیلئے آسان
نہیں ہوگا، بلکہ مذہبی جماعتوں کا پلیٹ فارم وجود میں آنے کے باوجود بھی
آپسی مقابلے کی فضا نہایت سخت ہوگی۔
تحریک انصاف کو دیکھیں تو اس کی تمام تر توجہ نوجوانوں کو اپنی جانب مائل
کرنے پر ہے۔ آج عمران خان نوجوانوں کا آئیڈیل بن چکا ہے۔ بڑی تعداد میں
یوتھ تحریک انصاف کو حکومت میں لانے کی خواہاں ہے۔ جماعت اسلامی کو بھی
یوتھ پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جے آئی یوتھ کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں کی
جتنی بڑی تعداد جماعت اسلامی کی ممبر ہے، اس قدر تعداد کسی کے پاس بھی نہیں
ہے۔ ان نوجوانوں کو اپنے حق میں کردار ادا کروانے کیلئے موبلائز کرنے کی
ضرورت ہے۔ تاہم اس بات کو مدنظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ووٹر اور ممبر
میں فرق ہے ۔ ووٹر آپ کی وہ طاقت ہے جس نے آپ کو اختیار دینا ہے ۔ ممبر آپ
کی صرف سٹریٹ پاور ہوسکتا ہے ، اصل طاقت نہیں ۔ لہذااس امر کو یقینی بنانا
ہوگا کہ یہ نوجوان نہ صرف جماعت اسلامی کی سیاسی پاور بنیں بلکہ اپنے اور
اپنے حلقہ احباب کے ووٹوں کا رخ جماعت اسلامی کے حق میں کریں ۔ پاکستان میں
نصف فیصد سے زائد تعداد نوجوانوں کی ہے اور مستقبل بھی انہی کا ہے، جماعت
اسلامی نے جس روز نوجوانوں کی رائے اپنے حق میں تبدیل کر لی، وہ دن اس کی
کامیابی کا پہلا قدم ہوگا۔
جماعت اسلامی لاہور چیپٹر کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کا امیر ایک باصلاحیت
نوجوان شخص ہے جس کے پاس ایک وسیع ویژن ہے۔ اور صرف لاہور نہیں، دیگر بہت
سے چیپٹرز میں بھی ان جماعت کی قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو گہری
بصیرت اور تدبر کے حامل، موقع شناس اور معاملہ فہم ہیں۔ وہ مسائل کو سمجھنے
اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف ان سے استفادہ کی ضرورت ہے، جس
پر بحثیت قوم، ہم آمادہ نہیں ہیں۔
میں نے بہت سی پارٹیاں دیکھی ہیں، سب کو پرکھا ہے، جس کے بعد میں اس نتیجے
پر پہنچا ہوں کہ حالات کی صحیح معنوں میں بصیرت رکھنے، مسئلے کے مرض اور
مزاج کی صحیح تشخیص کرکے اس کا علاج کرنے اور مواقع کی مناسبت سے تدابیر
اختیار کرنے کا فن صرف جماعت اسلامی ہی کے پاس ہے۔ ’’عزم نو کنونشن‘‘ کو
اگر اس کی ایک جھلک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عزم نو کنونشن میں کئے گئے عہد اور دعووں کو عملی
جامہ پہنایا جائے۔ اس کیلئے جماعت اسلامی میں شامل ہر فرد کو، ہر ذمہ دار
کو خود اپنی ذات میں سراج الحق بننا ہوگا، جی ہاں، وہی سراج الحق جو امیر
بننے کے بعد سے اب تک اک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھا، اور مسلسل عوام میں
ہے۔ یہی نقطہ آغاز ہے۔
|