24اکتوبرآزادکشمیر کایوم تاسیس ہے۔24اکتوبر ہی اقوام
متحدہ کا بھی یوم تاسیس ہے۔تاہم اقوام متحدہ آزاد کشمیر سے عمر میں دو سال
بڑی ہے۔جس کا سال قیام 1945ہے۔ 1947ء کواسی د ن کشمیریوں نے ڈوگرہ شاہی سے
بغاوت کے بعدآزاد کرائے گئے13ہزار297مربع کلو میٹر علاقے پرپہلی انقلابی
حکومت قائم کی۔ عبوری حکومت نے اپنے پہلے اعلانیہ میں کہا کہ یہ حکومت اس
امر کا انتظام کرے گی کہ یہاں غیر جانبدار مبصرین آئیں، جن کی نگرانی میں
پوری ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے۔آزاد کشمیر اور گلگت و
بلتستان نے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے بیس کیمپ کا کردار ادا کرنا
تھا۔جو ہر وقت تحریک کے لئے پیش قدمی جاری رکھتا۔لیکن ایسا نہ ہوا۔ مگر
آزادی کے نام پر یہاں اقتدار، مفادات اور مراعات کا ایک کھیل شروع کیا گیا۔
جو حکمران 1989کے چند ہزار مہاجرین کی آبادکاری میں گزشتہ 27سال میں بہانے
بازی سے زیادہ کچھ نہ کر سکے، ان سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔یہ
جھوٹے وعدوں اور دعوؤں، مکاری کو سیاست سمجھتے ہیں۔ورنہ آزاد کشمیر آبادی
کے لحاظ سے ضلع راوالپنڈی سے بھی چھوٹا ہے۔راولپنڈی کی آبادی 2017کی مردم
شماری کے مطابق 54 لاکھ اور آزاد کشمیر کی 40 لاکھ ہے۔اس میں سے بھی 10لاکھ
سے زیادہ لوگ بیرون ملک ہیں۔ضلع راولپنڈی سے آزاد کشمیر کا بجٹکئی سو گنا
زیادہ ہے۔راولپنڈی کو ایک ڈی سی او(ڈی سی) چلاتا ہے ۔آزاد کشمیر میں صدر
،وزیر اعظم،ایک محکمے پر کئی وزیر، مشیربیٹھتے ہیں۔سیکریٹریوں،کمشنروں،ڈی
جیز اور افسران کی فوج موجود ہے۔جو صرف اپنے پیکیج پر توجہ دیتے ہیں۔جو
افسر اپنا پیکیج لاکھوں روپے طے کروائے اور ماتحت عملے کو چند ہزار پر
گزارہ کرنے کی تلقین کرے ، اس جیسا گھٹیا اور خود غرض اور کون ہو گا۔ اس سے
کسی خیر کی کیسے توقع کی جا سکے گی۔اورجو کشادہ دفتر وں اور بڑی گاڑیوں کے
دم خم پر اکڑتے ہیں۔اپنی مراعات میں اضافے کے لئے سمریاں تیار کرتے
ہیں۔میرٹ کو پامال کرتے ہوئے من مانی کرتے ہیں،وہ کیسے مخلص ہو سکتے
ہیں۔2005ء کے زلزلہ میں بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوئیں۔اس آڑ میں کواپریٹو
بینک کے کروڑوں روپے کے قرضے معاف کر دیئے گئے ۔ یہ بینک دیوالیہ ہو گیا۔
بدقسمتی سے زلزلہ کے 11سال بعدسابق سکریٹری مالیات جو آج اے جے کے آر ایس
پی کے سربراہ ہیں، نے متاثرہ اضلاع کی طرز پر میر پور ، کوٹلی اور بھمبر کے
قرضے بھی معاف کرا دیئے۔تا کہ اپنے نام سے کوٹلی میں اپنی تین سوسائٹیوں کے
لاکھوں روپے کے قرضے بھی معاف کرا ئے جا سکیں۔ جب کہ اس وقت چیف سیکریٹری
صاحب نے سمری کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد میں نہیں ہو
گا۔لیکن ریویوکے بجائے سمری منظور ہو گئی۔ مقامی بیوروکریٹس کی ان ہی
حرکتوں کی وجہ سے لینٹ افسران کا جواز درست قرار دیا جاتا ہے۔تا ہم آ ج چیف
سیکریٹری اور سیکریٹری مالیات ذہین شخصیات ہیں۔اگر محکموں کے سربراہ برادری
ازم اور علاقہ پرستی کو مزید پروان نہ چڑھائیں تو عام انسان کی حالت
قدریبدل رہی ہے۔زرخیز زمین دستیاب ہونے کے باوجود اناج،سبزیاں اور پھل باہر
سے درآمد ہوتے ہیں۔یہ خطہ آبی وسائل سے مالا مال ہے لیکن آبپاشی کے زرائع
موجود نہیں۔ آزاد کشمیر کا زیر کاشت رقبہ صرف 13فی صد ہے جو ایک لاکھ
71ہزار ہیکٹر بنتا ہے۔حکوت تسلیم کر رہی ہے کہ زرعی زمین کا ایک بڑا رقبہ
زیر کاشت نہیں لایا گیاہے ۔پھل دار درختوں کے بجائے سفیدے کے درخت زمین کو
بنجر بنا رہے ہیں۔ لیکن متعلقہ محکمہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے ۔نیلم
جہلم پروجیکٹ شروع ہونے پر میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر معقول بندوبست
نہ کیا گیا تو شفاف دریا ئے نیلم نالہ لئی بن سکتا ہے۔آج ہر طرف یہی خدشات
ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
حکمرانوں کی ترجیحات بدل گئیں۔آج200سے زیادہ یونین کونسلوں اور تقریباً
1700دیہات پر مشتمل آزاد ریاست میں اقتدار اور مراعات کی جنگ جاری ہے۔ بجٹ
کا خسارہ بڑھ گیا ہے ۔کشمیر کونسل ادائیگی کرنے سے گریزاں ہیں۔آزاد کشمیر
کو کشمیر کونسل کی جانب سے ٹیکسوں کی وصول کردہ رقم کا80فی صد ملتا
ہے۔ماہانہ تقریباً 40کروڑ روپے اسی مد میں آمدن ہوتی ہے۔ اس کے ذمہ اربوں
روپے واجب الادا ہیں۔یہ وہ رقم ہے جو فیڈرل ٹیکسوں کی مد میں آبادی کی
بنیاد پر آزاد کشمیر کو 3.5فی صد کے حساب سے دی جاتی ہے۔رائلٹی کے بجائے
واٹریوز چارجزکی مد میں واپڈا کے ذمہ بھی رقوم واجب الادا رہتی ہے۔آزاد
کشمیر میں موبائل ٹاورز لگانے کے سلسلے میں کشمیر کونسل نے موبائل کمپنیوں
سے 40ملین ڈالر سیکورٹی فیس وصول کی ہے ۔یہ رقم کونسل کے اکاؤنٹ میں جمع
ہے۔اس میں سے بھی آزاد کشمیر کو ادائیگی نہیں کی گئی ۔اس کے علاوہ ایک سال
کا مارک اپ6فی صد کے حساب سے 6.1ملین ڈالر ہے۔کشمیر کونسل ایک آئینی ادارہ
ہے جو آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی دفعہ 21کے تحت قائم کیا گیا ہے۔21ارب
روپے کشمیر کونسل کی آمدن،منگلا ڈیم واٹر یز چارجز اور فیڈرل ٹیکسوں سے
حاصل ہوتے ہیں۔پاکستان حکومت تقریباًً 10ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لئے
دیتی ہے۔1947ء سے1950ء تک آزاد کشمیر کا بجٹ جنگلات کی آمدن کا مرہون منت
تھا ۔1947ء میں وادی نیلم کے جنگلات کی آمدن 49لاکھ روپے جبکہ کل بجٹ
48لاکھ روپے تھا ۔ایک لاکھ روپے سر پلس تھے۔آج جنگلات کی آمدن 25کروڑ روپے
سالانہ کے قریب ہے۔آزاد کشمیرکی زراعت ،جنگلات،سیاحت ،فلوری کلچر کے حوالے
سے اہمیت ہے ۔بل کھاتی ندیاں،جہلم ،نیلم اور پونچھ جیسے دریا نہ صرف خطے کی
حسن کو مالا مال کرتے ہیں، بلکہ یہ انمول آبی وسیلہ ہیں ۔ان پرہزار وں میگا
واٹ تک پن بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ لائم سٹون کے بڑے سلسلے اور روبی کے
پہاڑ ہیں۔سونے، تانبے کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ان قدرتی وسائل کا استعمال
کیا جائے تو یہ سرزمین سونا اگل سکتی ہے۔ حکمران، وزیر مشیر، سیکریٹریز سست
اور کام چورنہ ہوں تو وہ اس دھرتی کی ترقی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کھیت
لہلہا سکتے ہیں۔پالتو جانوروں کی افزائش ،ڈیری فارمنگ،فش فارمنگ سے معیشت
میں انقلاب آسکتا ہے۔لیکن قیمتی روبی، جڑی بوٹیوں، جنگلات سمگلنگ اور دیگر
خزانہ کی چوری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔الزامات عائد ہو رہے
ہیں۔آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ سمندر پر رہائش پذیر ہیں۔سمند رپار کشمیری
اپنے مادر وطن کے لئے کوئی مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے مختلف جماعتوں میں
تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف سرگرم ہو جاتے ہیں ۔دنیا میں تعارف ایک
منتشر قوم کے طور پر ہو نے سے سفارتی خدمت کے بجائے بدنامی اورکشمیر کاز کو
نقصان پہنچتا ہے۔آزاد کشمیرحکومت کی حثییت مسلہ کشمیر کے حل تک عبوری ہے۔اس
کا آئین بھی عبوری ہے۔ اس کا اصلی کام پورے کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد
کرنا ہے۔ حکمران عوام کے خلوص کا جواب خلوص سے دیں اور اقتدار واختیار کی
جنگ کے ببجائے آزادی کی جنگ کی جانب توجہ دیں تو آزاد کشمیر میں ترقی ہو
سکتی ہے اور تحریک آزادی میں اس خطے کے کردار کی اہمیت بھی بڑھ سکتی ہے۔
ریاستی پیداوار میں اضافے کے لئے محکمہ زراعت، جنگلات ، انڈسٹریز ہی کچھ
کریں تو یہاں معاشی ترقی کا پیہہ حرکت میں آ سکتا ہے۔یہی آج کے یوم تاسیس
کا پیغام بھی ہو سکتا ہے۔ |