نظام سیاست کو کسی شغل میلے کی طرح چلانے کی ریت نے
جمہوری نظام کوکمزور کیا ہے۔سیاسی قیادت نے امامت کی بجائے اقتدا کوترجیح
دی۔ہمیشہ دوسروں کی طرف دیکھا۔قیاد ت صرف خاص دنوں میں متحرک ہوتی ہے ورنہ
انڈرگراؤنڈ رہتی ہے۔کہیں نظرنہیں آتی۔اسے ملناتو دور اس کی شکل دیکھنادشوار
ہوجاتاہے۔اس کی پارٹ ٹائم سیاست صرف اور صرف چند مخصوص دنوں میں فعال ہوتی
ہے۔جب کبھی الیکشن کے دن ہوں یاکسی خاص جگہ پر کوئی جلسہ یا ریلی۔اس کے
علاوہ ا ن کی شکل کہیں نظر نہیں آتی۔کچھ جائز او ر بہت سی ناجائز مصروفیات
انہیں دنیا و مافیہا سے بے نیاز کیے رکھتی ہیں۔سقوط ڈھاکہ کے بعد اگر نیا
مینڈیٹ لے لیا جاتاتو شاید بچے کھچے پاکستان کی بنیادیں مضبوط کی جاسکتی
تھیں۔ایسا نہ کرکے ایک ناقابل معافی جرم کیا گیا۔اس جرم کے نتیجے میں آج تک
بچے کھچے پاکستان کاکوئی نظام نہیں بن پایا۔جب سچ جھوٹ کافرق ختم ہوجائے۔جب
مجرم اور بے گناہ کو ایک سے انجام سے گزرنا پڑے تو ایسے ہی انجام انتظار
کرتے ہیں۔تب کی بے ایمان ملٹری اور سول قیادت نے غیر حقیقت پسندانہ انداز
اپنایا۔دونوں طرف سے خود غرضانہ رویہ اپناتے ہوئے۔حقائق سے چشم پوشی کی
گئی۔بجائے سول ملٹر ی قیادت کے ان گناہوں کا حساب لینے کا سلسلہ شروع
ہوتا۔سقوط ڈھاکہ کے مجرمان کو چھپانے کا فیصلہ کیا گیا۔بھٹو اور یحیی اس
سانحہ کے برابر کے شریک تھے۔ایک کو باعزت رخصتی نصیب ہوئی اور دوسرے کواس
کارنامے پر حکومت سے نوازدیا گیا۔ممکن ہے بھٹو صاحب آگے چل کرکسی مناسب
موقع پر کچھ بڑا کرنے کا سوچے ہوئے ہیں۔مگر پھر ایسے کاروبار حکومت میں
الجھے کہ نہ سقوط ڈھاکہ یاد رہا۔نہ یحیی او رنہ مجیب الرحمان۔
سابق وزیراعظم نوازشریف سعودی عرب سے دوبارہ لندن چلے گئے ہیں۔وہ پچھلے ایک
ہفتے سے سعووی عرب میں تھے۔ان کا دورہ کچھ معاملات کے سبب طویل ہوتا
چلاگیا۔آئے تو وہ ایک مختصر دورہ پر تھے۔اپنی والدہ کی عیادت اور عمرہ کرنے
کے بعد انہوں نے پاکستان آنا تھا۔جہاں نیب عدالت میں ان کی پیشی تھی۔مگر
کچھ وجوہات کی بنا پر یہ طول دودن کی بجائے ہفتہ تک طویل ہوگیا۔انہوں نے اس
دوران کئی اعلی سعودی حکام سے ملے۔آخری لمحے تک ان کے پاکستان آنے کی اطلاع
تھی۔مگر وہ نہ آسکے۔ اہلیہ کی طبیعت بگڑنے کی اطلاعات آنے کے بعد وہ لندن
چلے گئے۔
سابق وزیر اعظم کی وطن واپسی کا شد ت سے انتظارہورہاہے۔ان کی عدم موجودگی
کے دوران یہاں کے سیاسی منظر نامے میں بڑی تبدیلیاں آچکیں۔ انہیں نکالنے
والے اپنے اگلے اقدام کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف ہیں۔شیخ رشید صاحب اس
ضمن میں تھوڑی بہت آگاہی فرماتے رہتے ہیں۔شیخ صاحب پہلے سال چھہ مہینوں کی
گیم کا دعوی کیا کرتے تھے۔اب وہ تین ماہ تک سمٹ چکے ہیں۔شیخ صاحب نے مارچ
سے پہلے کوئیک مارچ ہونے کا اعلان کرکے نکالنے والوں کے عزائم وا کیے
ہیں۔سابق وزیر اعظم کی واپسی کا انتظار بھی اسی پیش رفت کے حساب سے
ہورہاہے۔اس بات کا انتظار ہورہاہے کہ اپنی لندن روانگی سے قبل سابق وزیر
اعظم نے ووٹ کے تقدس کی بحالی کی تحریک چلانے کاجو اعلان کیا تھا۔وطن واپسی
پر وہ اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔نوازشریف کے اس اعلان نے
اننہیں نکالنے والوں کو ذرا تیز ہونے پر مجبورکردیا تھا۔اسی اعلان نے ہی
عمران خاں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑانے کا شیڈیول دیا گیا۔میاں صاحب تو
لندن چلے گئے۔مگر خاں صاحب تب سے مسلسل گردش میں ہیں۔ مسلسل شہر شہرجلسے
کرکے اپنے دل کی تسلی کاسامان کررہے ہیں۔امکان یہی ہے کہ میاں صاحب جب وطن
واپسی کے بعد اپنے احتجاجی پروگرام کا اگلا فیز شروع کریں گے تو تب تک
تحریک انصاف کی قیاد ت اپنے طے شدہ جلسوں کے بعد فارغ ہوچکی ہوگی۔ممکن
ہے۔نکالنے والے اپنی دوسری ٹیم کو پروفیسر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی
قیادت میں میدان میں اتار دیں۔کم ازکم عمران خاں تب تک ہانپ چکے ہونگے۔
نوازشریف کوئی نیا ٹرینڈ سیٹ کرنا چاہ رہے ہیں۔مگر اب تک انہیں کامیابی
نہیں مل پائی۔انہیں اپنی صدارت واپس ملنے اور نااہلی کے تاحیات نہ رہ جانے
کے معاملے پر جزوری کامیابی ضرور ملی ہے۔مگرجس طرح کے تاریخ بنانے کے عزائم
وہ لیے ہوئے ہیں۔ان کی تکمیل ابھی بہت دور ہے۔اصل میں اس تکمیل کی راہ میں
جو رکاوٹیں ہیں۔وہ میاں صاحب کے روائتی اسلوب سے دور ہونے والی نہیں۔وہ
پارٹ ٹائم سیاست سے دور ہونے والی نہیں۔ایک مربوط اور جاندار حکمت عملی ہی
سے کچھ کمال دکھایا جاسکتاہے۔میان صاحب لندن او رسعودیہ کی بجائے پاکستان
میں بیٹھ کر ہی کچھ رزلٹ پاسکتے ہیں۔انہیں اپنے ٹرینڈ سیٹر عزائم کے لیے
جیلوں۔احتجاج او رسٹریٹ پاور کاراستہ لینا ہوگا۔بات چیت۔ادھر ادھر کے دورے
جیسی پارٹ ٹائم سیاست میاں صاحب کو کچھ نہ دے پائے گی۔ |