میں آج کوشش کروں گا کہ اپنی موٹر سائیکل کے بارے میں آپ
دوستوں کو تفصیل سے بتاؤ ں جسے پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ لگانے میں آسانی
ہو گی کہ رانا کی موٹر سائیکل اور محکمہ اینٹی کرپشن میں کوئی فرق نہیں ہے
فرق صرف اتنا ہے یہ پٹرول سے چلتی ہے اور محکمہ اینٹی کرپشن نوٹوں کی خوشبو
پہ دوڑ لگاتا ہے دونوں غصے میں آجائیں تواسی کا برا حال کر دیتے ہیں جو
انکے قریب ہوتا ہے میری موٹر سائیکل کہیں بھی بند ہو جاتی ہے پھر اسکو بھی
کھینچتے ہوئے جہاں سانس پھولنے لگتی ہے وہیں چلتے چلتے پاؤں کی جوتی بھی
گھس جاتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح کوئی شریف شہری محکمہ اینٹی کرپشن کو کسی
،کرپٹ،بدعنوان،قومی خزانے کے لٹیرے،سرکاری ملازم کے خلاف درخواست دے بیٹھے
تو بس مدعی درخواست کوہی ہر پیشی پہ حاضر ہونا پڑتا ہے کمال ہو جاتا ہے جب
ایک کرپٹ کلرک چودہ تاریخوں پر نہ آئے اور مدعی درخواست محکمہ اینٹی کرپشن
کے فرض شناس افسران کی شان بے نیازی دیکھتے دیکھتے اپنے جوتے تڑوا
بیٹھے۔میری موٹر سائیکل ٹھان لے کہ منزل مقصود تک پہنچنا ہے تو پھر کئی روز
لگ جاتے ہیں گو بند نہیں ہوتی مگر دوڑتی بھی اس شان بے نیازی سے ہے کہ پیدل
چلنے والاکراس کر جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے محکمہ اینٹی کرپشن کے افسران
عوام سے تعاون تو چاہتے ہیں مگر جب کوئی نشاندہی کر بیٹھے تو اسے فوری
انصاف یوں دیا جاتا کہ درخواست کی شنوائی ایک سے دو ماہ کے درمیان شروع
ہوتی ہے پھر ایک ڈیڑھ سال تاریخ اسی سچائی پر مل جاتی ہے کہ دوسرا فریق ہر
تاریخ کی طرح اس بار بھی حاضر نہیں ہوا اور اگر خدا خدا کر کے دوسرا فریق آ
بھی جائے تو ایک آدھ سال حقائق تک پہنچنے میں لگ جاتا ہے اگر حقائق بھی جان
لیے جائیں تو ٹیکنیکل برانچ،لیگل برانچ،چھوٹا افسر،وڈا افسر،کلرک تے
منشی،ان چکروں میں درخواست دینے والا بڑھاپے میں چلا جاتا ہے اور جس کے
خلاف ہوتی ہے وہ ریٹائرمنٹ لے لیتا ہے نوجوانی کی عمر میں محکمہ اینٹی
کرپشن کے دفتر جانے والا سفید بال ،جھکی کمر لے کر آفس سے نکلتا ہے معلوم
ہوتا ہے منزل ابھی بھی کافی دور ہے شاید اولاد میں سے کوئی ،چھوٹا پتر یا
بڑا پتر پہنچ جائے۔میری موٹر سائیکل ،میری رانو،نیا سلنسر لگوانے کے باوجود
اکثر چلتے پھرتے،پٹاکے مارتی پھرتی ہے جس طرح اینٹی کرپشن افسران کی ملزم
فریق جیب بھاری کر دے تو وہ سیٹ پر بیٹھا،کمرے میں ٹہلتا ،مصنوعی غصے کا
اظہار کرتے ہوئے آئندہ تاریخ پر ہر حال میں ریکارڈ لانے کا حکم دے رہا ہوتا
ہے جبکہ اسکی جیب مسکراتے مسکراتے مدعی کا مذاق اڑا رہی ہوتی ہے۔جیسے کہہ
رہی ہو ،،، ہن چنگا ریہ اے اے تے ہن اگلیاں تاریخاں تے نئی آندا توں ای منہ
چک کے ،،ٹیں ٹیں،بیں بیں،،ٹھاہ ،پھٹاہ کردا پھریں گا۔جلدی میں کہیں جانے کے
لیے موٹر سائیکل پر دوسرا بندہ بٹھا لیں تو اسکا ،،چین گراری
سیٹ،،گھیں،،گھیں،،کرنے لگتا ہے اور بار بار اتر جاتاہے یہ پریکٹس تب تک
جاری رہتی ہے جب تک دوسرا بندہ اتر نہ جائے یا جسکے پاس جانا ہے وہ کہیں
نکل نہ آئے میری موٹر سائیکل کی طرح اگر کوئی محکمہ اینٹی کرپشن ملازمین کو
سرکاری ملازم ریڈ ہینڈ پکڑوانے کی بات کرے اور مکمل تیاری کرلے تو کبھی
گاڑی نہیں ملتی وہ مل جائے تو بڑے افسر کی پیشی نکل آتی ہے وہ گزرے تو
ملازم پوررے نہیں ہوتے اور جب پوری تیاری کے ساتھ ریڈ کیا جاتا ہے رشوت
لینے والے کے بارے معلوم ہوتا ہے یاتو وہ تبادلہ کروا گیا یا اس نے برے
کاموں سے توبہ کرلی ہے۔محکمہ کا معدہ جس انداز میں لکڑ پتھر ہضم کر رہا ہے
اسی طرح ،،رانو،،کا کاربریٹر،،مٹی کا تیل تک ،،پی،،جاتا ہے۔آج کل بن بریک
دوڑ رہی ہے بالکل محکمہ اینٹی کرپشن کی طرح جس نے کسی کو منزل تک نہ
پہنچانے کی قسم کھا رکھی ہے۔میں تو تنگ آ گیا ہوں اسکی بری بری عادات سے ہر
جگہ مجھے شرم سار ہونا پڑتا ہے میں نے تو سوچ لیا ہے اب اسکا یا تو کام
کروا کر چلاؤں گا یا پھر کباڑے کو دے دوں گا ۔کافی دنوں کی سوچ بچار کے بعد
جب موٹر سائیکل کو مکینک کے پاس لے گیا تو اس نے کہا اس کی ہر چیز بدلنے
والی ہے ،ٹینکی کو ڈینٹ پڑ چکے ہیں ،بیک بتی اور اشارے کجا ،ہیڈ لائٹ کا
ڈبہ ہے مگر بلب شلب ہی نہیں،یہاں تک کہ انجن کی بھی ہرچیز بدلنی پڑے گی
مستری کی بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ تو موٹر سائیکل ہے اسکے سئیر
پاٹ مل جائیں محکمہ اینٹی کرپشن کی تو میری موٹر سائیکل سے بھی حالت بری ہے
اسے کیسے مستری ٹھیک کرنے آئے گا موٹر سائیکل کا تو انجن نیا کیا جا سکتا
ہے اس محکمہ کے ان ملازمین کے ضمیروں کو کون جگائے گا یا بدلے گا جو میرٹ
اور انصاف کرنے کا حلف اٹھا کر بے انصافی کررہے ہیں۔جنکا علاقہ کے سرکاری
ملازمین،ٹھیکداروں سے رابطہ رہتا ہے جیسے ہی درخواست آتی ہے فوری درخواست
کے ملزم کو فون کر کے مک مکا کر لیا جاتا ہے اور پھر مدعی درخواست کو کئی
کئی،ماہ و سال دفتر کے چکر لگوا کر مبجور کر دیا جاتا ہے کہ درخواست کی
پیروی چھوڑ دے۔کئی محکمہ اینٹی کرپشن کے ملازم مدعی درخواست کو یہ کہہ کر
تاریخ پر آنے سے منع کر دیتے ہیں کہ دوسرا فریق درجنوں تاریخوں پر نہیں آیا
اب مقدمہ ہی درج کریں گے مگر دو چار ماہ اچانک نیند سے بیدار ہوتے ہیں پھر
تاریخ پر آنے کا حکم جاری کر کے فرائض منصبی ادا کر رہے ہین۔
کیا محکمہ اینٹی کرپشن ،کرپشن روکنے کے لیے ادارہ بنایا گیا تھا ؟
اگر یہ سچ ہے تو اسکی کرپشن کو کون روکے گا ؟
اگر عوام اداروں سے تعاون کرنا چاہتی ہے تو انہیں یہ صلہ دیا جاتا ہے کہ
کئی کئی ماہ و سال کرپشن بے نقاب کرنے والے دھکے کھاتے پھریں اور کرپشن
کرنے و روکنے والے ایک صف میں کھڑے ہو کر مذاق اڑائیں؟
ہاں شاید اسی لیے عوام کا اعتماد اداروں سے اٹھتا جا رہا ہے اور ادارے
چلانے والوں کی بے حسی،پر ہر شخص آواز بلند کر رہا ہے؟
میاں شہباز شریف صاحب اس ادارے کو بند کر دو یا پھر اسے جس مقصد کے لیے
بنایا ہے وہاں ایسے ایماندار اور فرض شناس آفیسر بھی لگاؤ جو انصاف کر سکیں
اور دولت کی چمک میں فیصلہ نہ کریں؟
مجھے شرم آتی ہے جب کوئی مجھ سے کہتا کہ میں انصاف کے لیے محکمہ اینٹی
کرپشن سے رجوع کر رہا ہوں ؟کیا بتاؤ ں کہ احتساب کرنے والا ادارہ خود نیلام
ہو چکا ہے؟جہاں انصاف کے نام پر عوام کو خواری دی جاتی ہے ؟جہاں دن بھر
بازار حسن کی طرح بولیاں لگائی جاتی ہیں؟جہاں انصاف کے نام پر ٹھینگا
دکھایا جاتا ہے ؟جہاں تاریخ پر تاریخ صرف اس لیے دی جاتی ہے کہ کرپٹ لوگوں
کو بچایا جائے ؟
کیا یہ میرے ملک کی تقدیر ہے ؟کیا یہ میرے ملک کے باسیوں کا نصیب ہے ؟ہرگز
نہیں ہرگز نہیں ؟ہم اور آپ آواز اٹھائیں جہاں جہاں کرپشن ہو گی اور کرپٹ
مافیاء کا راج دکھائی دے گا بے نقاب کرتے جائیں گے؟اٹھو میرے ملک کے
نوجوانوں ہمیں اپنے ملک کو سنوارنا ہے اور ہر اس ادارے کا قبلہ درست کرنا
ہے جہاں کرپٹ لوگوں نے قبضہ جما رکھا ہے ؟جہاں کرپشن کے ڈیرے ہیں؟
ہمیں مل کر اچھا کام کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوگا اور کرپٹ
لوگوں کو بے نقاب کر کے انکے انجام تک پہنچانا ہوگا اور یہ تب ممکن ہو گا
جب میرے ملک کے نوجوان اپنا اپنا کردار ادا کریں گے اور اب وہ وقت آ گیا جب
ہمیں مل کر اپنے اداروں کو بچانا ہے اور کرپشن سے پاک معاشرے کی بنیاد
رکھنا ہے؟
یا میں بھی مستری سے موٹر سائیکل واپس لے آؤ ،جیسے بھی ہے چل تو رہی ہے ؟
|