نائن الیون کے بعد علمائے کرام نے پرویز مشرف کی امریکا
نواز پالیسیوں کے خلاف دینی اتحاد کی ضرورت کوبڑی شدت سے محسوس کیا اور
تمام مکا تب ِ فکر سے تعلق رکھنے والی دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر
اکٹھا کیا ۔ جولائی2001 میں جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام(ف)جمعیت
علمائے اسلام(س)، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت اہلحدیث اور تحریک فقہ
جعفریہ پر مشتمل ملک کی چھ بڑی دینی جماعتوں کا اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘
MMA قائم کیا ۔ اِن جماعتوں نے پاکستان کی سلامتی، خودمختاری، استحکام اور
اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ ملک کے آئندہ
انتخابات کے پیش نظر اِن چھ دینی جماعتوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ مستقبل کے
خطرات سے نبرد آزما ہونے اور سیکولر قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے انتخابات
کے حوالے سے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ ایم ایم اے نے 23 جولائی 2002 سے
اپنی انتخابی مہم چلانے کا اعلان کردیا۔ مذہبی جماعتوں کے قائدین کا خیال
تھا کہ MMA لادین عناصر کو شکست فاش دے کر کامیابی حاصل کرے گی اور صرف
دینی جماعتیں ہی ملک کو بحران سے نکال سکتی ہیں۔ 10اکتوبر 2002کو ایم ایم
اے حقیقت کا روپ دھار ے قوم کے سامنے تھی۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے
دورمیں ہونے والے 2002ء کے عام انتخابات میں اس اتحاد کو واضح کامیابی ملی
اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں اس کی حکومت قائم تھی۔ کسی کے
وہم وگمان میں نہ تھا کہ دینی جماعتوں کے اِس اتحاد کو عوام اِس طرح
پزیرائی بخشیں گے کہ وہ حکومت کی سرپرستی میں قائم شدہ جماعت مسلم لیگ (ق)
کے بعد دوسری بڑی قوت بن کر ابھرے گی۔ متحدہ مجلس عمل کی کامیابی نے سیاسی
پنڈتوں اور ملکی پالیسی سازوں کو حیران وپریشان کردیا تھا۔ یہ ملکی تاریخ
میں ابھرنے والی پہلی اتنی بڑی تبدیلی تھی۔ تاہم اپنی حکومت کی مدت پوری
ہوتے ہی یہ اتحاد غیرفعال ہوگیا اور تمام جماعتیں الگ الگ ہو گئیں تھیں۔
کافی عرصے سے اِس اتحاد کو دوبارہ فعال بنانے کی کوششیں جاری تھیں۔ اب اسی
اتحاد کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کی مختلف مذہبی
جماعتوں کے رہنماؤں نے سیکولرازم اور لبرل ازم کا راستہ روکنے کے لیے متحدہ
مجلس عمل کو فعال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ رہنماؤں کے مطابق مذہبی جماعتوں
کا اتحاد ہی ملک میں سیکولر ازم اور لبرل ازم کو روک سکتا ہے اور اگر اب
بھی متحد نہ ہوئے تو پھر مستقبل میں کسی اتحاد کا امکان نہیں۔ رہنماؤں کا
کہنا تھا کہ اس اتحاد میں رکاوٹ بننے والی وجوہ کی وجہ سے پہلے اتحاد کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ اب نئے اتحاد کو 6 جماعتوں کی بجائے مزید
وسیع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے کئی اجلاس ہوچکے ہیں اور مزید
ہورہے ہیں۔ حتمی فیصلہ 9نومبر کو کیا جائے گا۔ روزنامہ اسلام نے متحدہ مجلس
عمل کی بحالی کی کوششوں کے حوالے سے اس اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں
سے گفتگو کی، جو نذر قارئین ہے۔
سینیٹر مولانا حافظ حمداﷲ (مرکزی رہنما جمعیت علمائے اسلام (ف)
پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت پہلے دن سے محسوس کی جارہی
تھی، اسی ضرورت کے تحت متحدہ مجلس عمل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پہلے بھی
مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے الیکشن میں بہت بڑی کامیابی حاصل
کی تھی۔ الیکشن کے علاوہ بھی دیگر مذہبی ایشوز پر متحدہ مجلس عمل نے بہترین
کردار ادا کیا، لیکن ایک جماعت کے سخت موقف کی وجہ سے یہ اتحاد برقرار نہ
رہ سکا۔ اس وقت بھی جمعیت علمائے اسلام کی کوشش تھی کہ یہ اتحاد برقرار رہے
، لیکن جے یو آئی کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ آج مذہبی جماعتوں کے اتحا د کی
ضرورت ماضی سے زیادہ ہے، کیونکہ سیکولر قوتیں غیرملکی اشاروں پر پاکستان کی
نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہیں۔ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ آئین اور
نظریہ پاکستان کے خلاف قانون سازی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اندرونی اور
بیرونی راستوں سے ملک کی نظریاتی عمارت کو منہدم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،
ان حالات کا تقاضا ہے کہ مذہبی جماعتیں متحد ہوکر متحدہ مجلس عمل کو بحال
کریں، تاکہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جاسکے۔ مذہبی جماعتوں کا یہ
اتحاد صرف الیکشن کے لیے نہیں، بلکہ تمام معاملات میں ہوگا۔ جہاں بھی اور
جب بھی ملک میں معاشرت، تہذیب، ثقافت، قانون، آئین، نظریہ اور اسلامی نظریے
پر اسلام دشمن قوتیں حملہ آور ہوں گی، یہ اتحاد ان قوتوں کا تعاقب کر کے ان
کی کوششوں کو ناکام بنادے گا۔ان شاء اﷲ۔
حافظ حمداﷲ کا کہنا تھا کہ ملک میں مذہبی جماعتیں اپنی ذمہ داری پوری کرنے
کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔ جب کبھی کسی مذہبی معاملے کو حکومت کی طرف سے
چھیڑا جاتا ہے تو مذہبی جماعتیں اس کا بھرپور جواب دیتی ہیں، خصوصاً جو
جماعتیں پارلیمنٹ میں موجود ہیں، وہ قرآن و سنت کے مطابق بنے ہر قانون کا
دفاع کر رہی ہیں۔ حکومت قرآن و سنت سے متصادم کو ئی قانون بنانا چاہتی ہے
تو جمعیت علمائے اسلام سمیت پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں حکومت کے سامنے
رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال حال ہی حکومت کی طرف سے ختم نبوت کے
قانون میں ترمیم کرنے کا واقعہ ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود مذہبی جماعتوں نے
حکومت کو وہ ترمیم واپس لینے پر مجبور کیا ۔ اسی طرح خواتین بل میں قرآن و
سنت سے متصادم قانون شامل کیا گیا تو اس وقت بھی جمعیت علمائے اسلام
نیحکومت کا راستہ روکا اور دیگر مذہبی جماعتوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔
مولانا حافظ حمداﷲ کا کہنا تھا کہ دشمن ہمیشہ مذہبی قوتوں کو لڑواتا آیا
ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ مذہبی جماعتیں آپس میں کبھی فرقہ واریت کے نام پر
لڑتی رہیں تو کبھی اپنے مفادات کے نام پر لڑیں۔ ان کی کوشش ہے کہ مذہبی
جماعتوں کا اتحاد کامیاب نہ ہوپائے اور یہ فرقہ واریت کے نام پر لڑتی رہیں
اور اگر ان کا اتحاد کامیاب ہوبھی جاتا ہے تو پھر مذہبی قوتوں کو لبرل و
سیکولر قوتوں سے لڑوایا جائے۔ ایم ایم اے کا مقصد کسی سے لڑنا نہیں ہے،
بلکہ سب کو ساتھ لے کر ملک کے مفادات، اسلامی نظریہ، آئین و قانون کا دفاع
کرنا اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ اور انصاف کا فروغ ہے۔ ملک کے مفاد میں
سیکولر قوتوں کو بھی ساتھ دینا چاہیے۔ مذہبی جماعتوں کو دشمن کی تمام
سازشوں کو سمجھ کر انہیں ناکام بنانا ہوگا۔ اگر مذہبی جماعتیں حالات کو
نہیں سمجھیں گی تو دشمن قوتیں انہیں یونہی لڑواتی رہیں گی۔ متحدہ مجلس عمل
کی بحالی کی کوششیں الحمدﷲ کامیابی کے ساتھ جاری ہیں۔ اس حوالے سے کئی
اجلاس ہوچکے ہیں، 9نومبر کو حتمی اجلاس ہوگا۔ امید ہے یہ کوششیں مکمل طور
پر کامیاب ہوجائیں گی۔ اگر یہ اتحاد بحال ہوجاتا ہے تو یقین ہے کہ مستقبل
میں یہ بہتری کے ساتھ چلتا رہے گا اور مذہبی جماعتیں اپنی ذمہ داری اچھی
طرح پوری کرتی رہیں گی۔ مسلم قوم کا فائدہ اسی اتحاد میں ہے، کیونکہ مذہبی
جماعتوں کی آپس کے اختلافات اور دوری سے فائدہ دشمن قوتیں اٹھارہی ہیں۔
ڈاکٹر فرید پراچہ (مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل، جماعت اسلامی )
موجودہ حالات میں لبرل و سیکولر قوتیں ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کے لیے
کوشاں ہیں۔ وقتاً فوقتاً پاکستان کے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔
ملک کی نظریاتی سرحدوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ منظم سازش کے ساتھ لبرل ازم
کو پاکستانی قوانین میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بار بار ختم نبوت
کے قانون کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کر کے پاکستانی قوم کا ردعمل دیکھا جاتا
ہے۔ ایسے وقت میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ملک کا مذہبی و دینی طبقہ ایک
پلیٹ فارم پر ایک ساتھ جمع ہوکر سیکولر و لبرل قوتوں کا مقابلہ کرے۔ اسلامی
اقدار، اسلامی دفعات اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔ یہ اسی صورت میں
ممکن ہے جب تمام مذہبی جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر ایک ساتھ کھڑی ہوں۔
اسی تناظر میں مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی کوششیں تیز کی
ہیں۔ یہ اتحاد الیکشن میں بھی ہوگا اور دیگر نظریاتی و مذہبی معاملات میں
بھی ہوگا۔ جہاں ضرورت پڑے گی، یہ مذہبی اتحاد اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔
ان شاء اﷲ۔
ڈاکٹر فرید پراچہ کا کہنا تھا کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی مذہبی
جماعتیں اپنی سی کوشش تو کر رہی ہیں، لیکن کمی اتحاد کی ہے۔ مذہبی جماعتوں
کے پاس منبر و محراب کی قوت ہے۔ پورے ملک میں مذہبی جماعتوں کے پا س بڑی
قوت موجود ہے۔ ملک کے عوام دین و مذہب کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
اب ضرورت ہے کہ تمام مذہبی جماعتیں متحد ہوکر مذہب کے خلاف ہونے والی
سازشوں کو ناکام بنائیں۔ جماعت اسلامی پہلے بھی اس حوالے سے مذہبی جماعتوں
کو متحد کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور اب بھی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ مذہبی
جماعتوں کا اتحا د وقت کی اشد ضرورت ہے، اس لیے جماعت اسلامی اس حوالے سے
بھرپور سنجیدگی کے ساتھ کوشش کر رہی ہے۔اگر مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ
مجلس عمل کامیاب ہوجاتا ہے تو امید ہے سیکولر و لبرل قوتوں کی سازشیں ناکام
ہوجائیں گی، کیونکہ جب ان کا اتحاد ہوجائے گا تو ان کی طاقت بھی بڑھ جائے
گی۔ اس حوالے سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کی کوششیں بھرپور طریقے سے کی
جارہی ہیں۔ 12اکتوبر کو اس حوالے سے اہم اجلاس ہوا تھا، اس کے بعد بھی کئی
اجلاس ہوچکے ہیں۔ مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔
9نومبر کو کمیٹی کا اہم اجلاس ہے۔ توقع ہے اس اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کی
کوئی شکل میں سامنے آجائے گی۔
صاحبزاہ ابوالخیر زبیر (صدر جمعیت علمائے پاکستان)
اس وقت قوم صاحب اقتدار طبقے سے تنگ آچکے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں
جانب کے ارکان کے نام پاناما لیکس میں ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے
اپنی ذمہ اری پوری نہیں کی۔ عوام حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام کو انصاف
نہیں مل رہا۔ بنیادی سہولیات سے محروم رکھا جارہا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ
صاف ستھرے کردار کی مذہبی جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ عوام کو مذہبی جماعتوں
سے بہت سی توقعات ہیں۔ ایسے میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت مزید بڑھ
جاتی ہے۔ دوسری جانب حکومت وقتاً فوقتاً مذہبی قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ
کرتی رہتی ہے، ان میں تبدیلی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ملک کی نظریاتی سرحدوں
اور اسلامی قوانین و آئین کی حفاظت کرنا مذہبی جماعتوں کی ہی ذمہ داری ہے۔
الیکشن قریب ہیں، اس لیے مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت محسوس کی
جارہی ہے۔ متحدہ مجلس عمل اگر بحال ہوجاتی ہے تو یہ اتحاد صرف پارلیمنٹ میں
ہی نہیں ہوگا، بلکہ پارلیمنٹ سے باہر بھی ہوگا۔ جہاں ضرورت پڑے گی، ماضی کی
طرح اپنی ذمہ اری پوری کرے گی۔
ابوالخیر زبیر کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتیں اپنے طور پر اپنی ذمہ داری
نبھال تو رہی رہی ہیں، لیکن جب تک کوشش اجتماعی نہ ہو، اس وقت تک زیادہ
فائدہ نہیں ہوتا۔ سب کو متحد ہو کر ہی مذہبی قوانین کے خلاف ہونے والی
سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے، لیکن یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ اس
اتحاد میں دو تین جماعتیں ہی شامل نہ ہوں، بلکہ تمام مذہبی جماعتوں کو شامل
کیا جائے، کیونکہ اگر چند مذہبی جماعتیں اتحاد کرتی ہیں تو ان کی افادیت و
حیثیت کم ہوجاتی ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے سب کو
ساتھ لے کر چلا جائے۔ اس لیے ہم ایک بڑے اتحاد کے لیے کوشاں ہیں، اس حوالے
سے کئی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ میری سراج الحق، ساجد نقوی، شیخ
یعقوب، اہل سنت کے حامد سعید کاظمی، سنی اتحا د کونسل کے حامد رضا سمیت کئی
رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوچکی ہیں، جن میں ایک مشترکہ اتحاد قائم کرنے کا
فیصلہ کیا گیا ہے۔ امید ہے یہ اتحاد کامیاب ہو گا اور بعد میں بھی کامیابی
کے ساتھ چلتا رہے گا، لیکن باقی سب کچھ مستقبل میں ہی سامنے آئے گا۔
مولانا ساجد فاروقی (ڈپٹی جنرل سیکرٹری، جمعیت علمائے اسلام (س) پنجاب)
مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ یہ ملک اسلام کے نام پر
وجود میں آیا ہے، لیکن یہاں آج تک اسلام کو حقیقی معنوں میں نافذ نہیں کیا
گیا۔ نفاذ شریعت کی مشترکہ جدوجہد کرنا مذہبی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔
حکمران طبقہ ہر معاملے میں ناکام ہوچکا ہے۔ حکمران طبقہ ملک کی دولت لوٹ
رہا ہے۔ وہ ملک کے عوام کی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ ایسے میں
ضرورت ہے کہ مذہبی جماعتیں اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم
کی سلامتی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشش کریں۔ ملک میں عادلانہ نظام
مذہبی جماعتیں ہی لاسکتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کی وجہ سے ہی نہ صرف ملک میں
عوام کو انصاف ملے گا، امن قائم ہوگا، شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا اور عوام کو
ان کے حقوق ملیں گے، بلکہ عالم اسلام کی سطح پر بھی پاکستان کا مورال بلند
ہوگا۔ ہمارا موقف ہے کہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد صرف الیکشن کی حد تک نہیں
ہونا چاہیے، بلکہ ملک میں اسلامی نظام کو حقیقی معنوں میں نافذ کرنے تک
ہونا چاہیے۔ اس سے فرقہ واریت ختم ہوگی، شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا اور عوام
کو ایک ایسا نظام میسر آئے گا جو ان کی خواہش ہے۔ مذہبی جماعتوں کو اس بات
کا معاہدہ کرلینا چاہیے کہ اس اتحاد کا اصل مقصد اسلامی نظام کا نفاذ ہے،
اس کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے
عنوان سے پہلے بھی بھرپور ذمہ داری ادا کی ہے۔ مرکز میں بھی اہم کردار ادا
کیا تھا۔ مذہبی جماعتوں نے سیکولر طبقے کا راستہ روکا تھا۔
مولانا ساجد فاروقی کا کہنا تھا کہ ایم ایم اے کی بحالی کے لیے کوشش تو کر
رہے ہیں۔ جدوجہد کرنا انسان کے اختیار میں ہے، نتائج اﷲ پر چھوڑ دینے
چاہیے۔ دینی جماعتیں جدوجہد کی مکلف ہیں، نتائج کی نہیں۔ سازشی عناصر چاہتے
ہیں کہ دینی جماعتوں کا اتحا د نہ ہو۔ سازشی عناصر کو دنیا میں کسی بھی جگہ
اسلامی سوچ کی جماعتوں کی کامیابی ہضم نہیں ہوتی۔ مصر سے لے کر الجزائر تک
جہاں بھی اسلامی جماعتوں کو کامیابی ملی، سازشی عناصر نے ان کو ناکام بنانے
کی کوشش کی ہے۔ ان سازشی قوتوں کا مقابلہ کرنا دینی قوتوں کی ذمہ داری ہے۔
ان کی کوششوں کا حساب آخرت میں ملے گا۔ اس اتحا د کو کامیاب بنانے کے لیے
بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے کئی چھوٹے بڑے اجلاس ہوئے ہیں۔
ہماری طرف سے مولانا یوسف صاحب نے اجلاس میں یہ بات رکھی ہے کہ یہ اتحاد
وقتی اور چند مفادات کی خاطر نہ ہو، بلکہ اس میں نفاذ شریعت سمیت اہم مذہبی
معاملات کو مدنظر رکھا جائے، ورنہ یہ اتحاد فضول ہوگا۔
مولانا اویس نورانی (مرکزی سیکرٹری جنرل، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی
گروپ)
مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت تو بہرحال عرصے سے محسوس کی جارہی تھی، اب
الیکشن قریب ہیں، اس لیے زیادہ احساس ہوا کہ تمام حلقوں میں مذہبی ووٹ بینک
تقسیم ہوجاتا ہے۔ اگر مذہبی جماعتیں متحد ہوجائیں تو یہ ووٹ تقسیم نہ ہو،
اس کا تجربہ ماضی میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں ہوچکا ہے۔ ملک میں
ناانصافی، کرپشن، مغربی تہذیب و ثقافت اور اسلامی رویات کی پامالی بڑھتی
جارہی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو ان کی روک تھام کرنی چاہیے۔ مذہبی جماعتیں اب
اس حوالے سے متحرک ہوئی ہیں اور اتحاد کی کوشش کر رہی ہیں۔ فی الحال یہ
اتحاد صرف الیکشن کی حد تک ہے، باقی معاملات لیکن الیکشن کے بعد دیکھیں گے۔
مولانا اویس نورانی کا کہنا تھا کہ ملک میں موجود مذہبی جماعتیں اپنی حد تک
اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہیں، جب کوئی مذہبی معاملہ سامنے آتا ہے تو یہ
پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر مذہبی جماعتوں
کا اتحاد ہوجاتا ہے تو یقین ہے کہ بہتر انداز میں کام کریں گی۔ پانچ مہینے
سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے ہوم ورک کیا جارہا ہے۔ میری مولانا فضل
الرحمن سمیت کئی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی ہے۔ تمام مذہبی جماعتوں میں اس
حوالے سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ بحال ہونے کے بعد ان شاء اﷲ متحدہ مجلس
عمل کے بہتر نتائج نکلیں گے اور امید ہے کہ مستقبل میں بہتر کردار ادا کرے
گی۔
|