پاکستان میں سیاسی جماعتیں ، این جی اوز ،سول سوسائٹیز ،
مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کا شمار نہیں ہے۔میڈیاجگہ جگہ موجود ہے۔جدید
ٹیکنالوجی سمیت تیز ترین معلومات کے ذرائع ہیں۔شعور ،آگئی اور علم و تعلیم
کی بھی بہتات ہے۔ گلی محلوں میں تعلیمی ادارے قائم ہیں ۔صحت کیلئے بے تحاشا
ہسپتال اور کلینک موجود ہیں۔میٹرو بس اور موٹرویز ہیں۔شہری آبادیوں میں بڑے
بڑے شاپنگ سنٹر ہیں۔ حب الوطنی کے شدید جذبات ہیں۔مذہب کے محافظ ہمہ تن
تیار ہوتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔بطور پاکستانی ہم قوم
نہیں ہیں ۔ بطور مسلمان ہم امت نہیں ہیں۔ ہماری سیاست ،ریاست ،قیادت،عبادت
، دیانت، صداقت، شرافت، امانت کو کیا ہوگیا ہے۔ ہم سیاسی ،سماجی اور مذہبی
طور پر کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جارہے ہیں ۔کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔
کیا ہم نے کوئی مقصد ،کوئی ہدف ،کوئی روڈمیپ ،کوئی فریم ورک نہیں طے کرنا
ہے۔کیا یہ دھرتی بانجھ ہوچکی ہے۔کیا اس دھرتی سے کوئی جنم نہیں لے گا جو
منزل کا تعین کرے۔ جو راستہ بتائے ، جو قوم کی تعمیر کرے۔جس کے پاس واضع
کوئی پروگرام ہو۔جو سچ بولے۔یا پھر وہی ہوگا جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ جیسا کہ
افواہیں گردش میں ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نئی شفاف قومی حکومت
کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔جو تین سال کیلئے ہوگی۔جنرل(ر) راحیل شریف
سربراہ ہونگے۔جنرل رضوان کا استعفیٰ نئی حکومت کی تان بان کیلئے ہی
تھا۔آمدہ قومی حکومت کے بڑے مقاصد جو طے کیے گئے ہیں ۔ اولین وترجیحی مقصد
بلاتفریق احتساب ہے۔(جو کہ جنرل(ر) پرویزمشرف کا بھی مقصد تھا) دوئم
پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام کا نفاد ہے۔ممکنہ طور پرجنرل (ر)
راحیل شریف بااختیار ملکی صدر ہو سکتے ہیں۔تیسرا بڑا مقصد الیکٹوریل
ریفارمز ہیں جس میں بائیومیٹرک سسٹم لاگو کیا جائے گاتاکہ انتخابی عمل کو
شفاف بنایا جائے۔دس نکاتی فریم ورک میں چوتھا ایجنڈا کرپشن سے پاک
عدلیہ،احتساب کمیشن اور تمام تر قومی اداروں کی بھل صفائی کرناہے۔کڑے
احتساب کے بعد کرپشن اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی سے بیرونی قرضے ادا کرکے
پاکستان کی معیشت منصوبہ بند بنائی جائے گی۔ سی پیک منصوبہ مکمل کیا جائے
گا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کامنصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے
گا۔توانائی کابحران ختم کرکے معاشی اصلاحات کا نفاد کیا جائے گا اور ملک کی
تعمیر نو کی جائے گی۔دلچسپ امر ہے کہ نئی قومی حکومت کی تین سال کیلئے
توثیق بھی موجودہ پارلیمنٹ سے کراوئی جائے گی تاکہ نئی قومی حکومت کو
قانونی اور آئینی تحفظ بھی دیا جا سکے۔پاکستان کی تاریخ میں کیا یہ سب کچھ
،پہلی بار ہونے جارہا ہے۔اس سے قبل جتنے غیر منتخب حکران آئے ہیں ۔ ان کے
مقاصد بھی یہی تھے اور انہوں بھی بلاتفریق احتساب کا نعرہ لگایا تھا۔ حقیقت
ہے ۔آج پاکستان میں قیادت کا بحران ہے۔ سیاسی جماعتیں افادیت کھوچکی ہیں ۔کوئی
ایک سیاسی جماعت بھی عوامی امنگوں کے مطابق پروگرام نہیں رکھتی ہے اور نہ
ہی کوئی عوامی ترجمانی کر رہی ہے۔ بلکہ نام نہاد سیاسی لیڈر گالم گلوچ اور
طعنے بازی سے کام لے رہے ہیں ۔ جس سے سیاست مزید پراگندہ ہورہی ہے ۔ موجودہ
سیاسی جماعتوں پر عوام کااعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی صورتحال اس قدر
مبہم اور غیریقینی ہے کہ اگر الیکشن ہوئے بھی تو کوئی جماعت اس قابل نہیں
ہوگی کہ حکومت بنا سکے۔مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ غیر جمہوری راستہ
اختیار کیا جائے۔اور پھر جنرل(ر) راحیل شریف ہی کیوں ۔ اگر جنرل(ر) راحیل
شریف ہی ضروری ہیں تو انہیں سیاسی دھارے میں شامل ہونا چاہیے ۔سیاسی جاعت
بنائیں یا پہلے سے موجود اپنی ہم خیال پارٹی کی قیادت کریں۔مقتدرہ اگر کچھ
سوچ رہی ہے تو قومی مفاد میں وسیع تر مشاورت کی جائے۔وگرنہ لازمی ہے ایک
جانب سے ردعمل آئے گا۔نئے بحران جنم لے سکتے ہیں ۔اچھا ہوگا کہ شدت پسند
جیسے ملی مسلم لیگ ، تحریک لیبک جیسی نئی جماعتوں کو سیاسی دھارے میں خوش
آمدید کہا جائے۔یہ خوش آئند پہلو ہے کہ مذہبی شدت پسند سیاسی دھارے میں
شامل ہورہے ہیں ۔طالبان سے بات کی جانی چاہیے کہ وہ ہتھیار پھینک کر سیاسی
عمل میں آئیں۔ |