انسانیت کے نام ونہاد ٹھیکے دار امریکہ کے19اگست 1961ء
کے مجریہ نیو یارک (Statelessness of Reduction Geneva convention) کے
قانون کے تحت مسلمان اسی ریاست کے باشندے کہلائیں گے، جہاں وہ پیدا ہوئے۔اس
قانون کا اطلاق اراکانی باشندوں پر باخوبی ہوتا ہے ۔اس کے بعد بھی میانمار
(برما) میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔محتاط
اندازے کے مطابق بیس ہزار مسلمان شہید کر دیے گیے،جن میں بچوں عورتوں کی
کثیر تعداد شامل ہے۔ایک لاکھ سے اوپر لوگ بے گھر ہیں۔ جن کے نیچے سمندر اور
سر پے آسمان ہے۔ان بے آسرا اور زمانے کے دھتکارے مظلوموں کا پسِ منظر کیا
ہے۔؟ ائیے ! ان اراکانی مصیبت زدہ مسلمانوں کے ماضی کے پرت کھول کر دیکھتے
ہیں۔
’’ برما ‘‘جس کا دوسرا نام میانمار ہے ، ایشیا کے جنوب مشرقی ملکوں میں سے
ایک ہے۔یہ دنیا کا پچاسواں بڑا ملک ہے۔چھ کڑوڑ نفوس پر مشتمل ملک برما کی
سرحدیں بنگلہ دیش،بھارت،چین،تھائی لینڈ،لاؤس سے ملتی ہیں۔ برما اگر خانہ
جنگی کا شکار نہ ہو تو سیاحت میں اس ملک کا اول نمبر ہوگا۔طبعی حالات کو
چار چاند لگانے کے لیے سمندر، پہاڑ، صحرا، وادیاں، آب شاریں،اس ملک کو چوٹی
کے ممالک میں شامل کرتے ہیں۔’’برمار‘‘ اس ملک کے قدیم اور اصل باشندے
کہلاتے ہیں۔لیکن بھارت،چین،بنگلہ دیش،اور عرب ممالک سے بھی لوگ یہاں آباد
ہوتے رہے۔ 1930 مربع کلومیٹر اس ملک کا شہری علاقہ ہے،اور نیم خود مختیار
ریاستوں کو ملا کر برما کا کل رقبہ ایک لاکھ مربع میل سے متجاوز ہے۔برما
میں ایک درجن سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں،لیکن بالائی برمی ’’ پیو ‘‘
اور زیریں حصے کے برمی ’’ مون ‘‘ زبان بولتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے بھی برما بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا،اور کئی قوموں
نے اس ملک میں خاک وخون کا کھیل کھیلا۔1277 سے 1301 تک تاتاریوں نے یہاں
قتلِ عام کیا،اور زبردستی یہاں حکومت قائم کیے رکھی۔تاتاریوں نے جب یہاں
حملہ کیا تو برما کے بادشاہ نے بجایے مزاحمت کرنے کے،تاتاریوں کو خوش آمدید
کہا۔وحشی تاتاریوں نے برما میں داخل ہوتے ہی ایک لاکھ برمیوں کو تہ تیغ
کیا، یہ برما میں پہلا قتلِ عام تھا۔آٹھارویں صدی میں برما برطانیہ کے زیرِ
تسلط آگیا۔کیوں کہ بنگلہ دیش برِ صغیر پاک وہند کا حصہ تھا،اور برطانوی
سامراج پر حکومت کا جن سر چھڑ کر بول رہا تھا۔برما سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ
سے اس کا کچھ حصہ ریاست آسام مین شامل ہوگیا۔ 1948ء تک برما برطانیہ کے
قبضہ میں رہا ۔برما میں برطانیہ کے ترقیاتی کاموں کے نشانات آج بھی موجود
ہیں۔ کسانوں کے لیے زرعی آلات،ڈیم،دریاؤں کے بند،سڑکیں ،ریلوے کا نظام
سامراجِ برطانیہ کے متعارف کئے ہوئے ہیں۔بدقسمتی سے برما میں کمیونسٹوں کی
حکومت رہی۔ 1948میں آزادی کے بعد سے اب تک ،چند برس چھوڑ کر،یہاں فوجی
امریتی حکومت نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑکر ملک کے سیاہ سفید کی مالک بنی
رہی۔ملکی آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کیں،اور سیاسی معاملات ملکی خانہ
جنگی،خصوصاٌ مسلم نسل کشی میں بھر پور کردار ادا کیا۔
’’ واشنگٹن اسٹڈی سینٹر برائے ایشیا‘‘ کی ریپورٹ کے مطابق برما کے ایک صوبے
اراکان میں بسنے والے کل آبادی میں صرف 4فیصد مسلمانوں پر بدھوں کے مظالم
نئے نہیں،بلکہ صدیوں پرانے ہیں۔اور اس بات کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں
’’ ہیومن رائٹس واچ‘‘ ’’اور ریڈکراس‘‘ نے اپنی ریپورٹوں میں بیان کیا
ہے۔آزادی کے بعد سے برمی حکومت اراکان صوبے میں مسلم نسل کشی کی کوششوں میں
لگی ہوئی ہے۔1942ء میں بدھوں نے تین ماہ کے اندر ڈیڑھ لاکھ اراکانی
مسلمانوں کا قتل کیا۔1950ء میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم طریقے سے اپریشن
شروع ہوا، جس میں کئی ہزار مسلمان شہید ہوئے۔1962ء سے 1982 ء تک فوجی حکومت
کے ظلم و سربریت سے تنگ آکر بیس لاکھ اراکانی ہجرت کرنے پر مجبور
ہوئے،جنہیں پڑوسیوں نے بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا۔ بنگلہ
دیش اور برما میں اسی تنازعے کو لے کر کئی سالوں سے کشیدگی چلی آ رہی
ہے،انڈونیشیا،تھائی لینڈ ،بنگلہ دیش، کسی نے بھی ان مسلمانوں کی داد رسی
نہیں کی،اور اب بھی یہی صورت ِ حال دیکھنے میں آرہی ہے کہ کوئی ان لٹے پٹے
مسلمانوں کا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں۔آپﷺ نے انہی مسلمانوں کو جسدِ واحد
کے لقب سے سرفراز فرماتے ہویے ارشاد فرمایا تھا:’’ مسلمان ایک جسم کی مانند
ہیں،اگر آنکھ میں درد ہو تو پورا جسم بے قرار،اگر جسم کسی بھی حصے میں درد
ہو تو بھی پورا جسم بے قرار۔‘‘ حالیہ مسلمانوں کا قتلِ عام 2013ء میں شروع
ہوا،جو تاحال جاری ہے۔ایک دن میں درجنوں زندہ انسانوں کا نام ونشان مٹا دیا
جاتا ہے،اور اب تک اسی ہزار افراد لاپتا ہیں ۔برما میں کھیلی جانے والی یہ
سنگین خون کی ہولی پر،اور انسانیت پر کئے جانے والے درد ناک ظلم پر عالمی
برادری،انسانیت کے ٹھیکے داروں کی زبانوں پر تالے کیوں ہیں۔؟
دنیا کے تمام مذاہب نے انسانیت کے درس کو نظر انداز نہیں کیا ،بلکہ اقلیتوں
کے خلاف انسانیت سوز سلوک سے منع کیا ہے۔اسلام اس ضمن میں مسلمانوں پر عیاں
کرتا ہے کہ انسان اشرف الخلوقات ہے۔ایسے میں مسلمان انسانی حقوق کی خلاف
ورزی کو گناہ سمجھتے ہیں۔ بدھ مذہب جو اپنے بدھا کی تعلیمات پر سختی سے عمل
کرتے ہیں،آج اس قدر ظالم اور وحشی کیسے ہو گئے۔؟ بدھ مذہب میں انسان تو کجا
کسی جانور کے ساتھ ادنی سا ظلم بھی اسے اپنی تعلیم کے منافی لگتا ہے،اسی
بدھ مذہب کے پیروکار زندہ انسان کو آگ کے آلاؤ میں ڈال دیں،خواتین کی عصمت
دری کریں،بچوں کو کاٹ دیں،اور یہ وحشی صفت انسان ،انسانی اسمگلنگ کے مکروہ
دھندے میں ملوث پائے جائیں۔کہ جہاں نوجوان لڑکیوں کو محض ایک تھیلا چاول
اور ایک گیلن ڈیزل کے عوض فروخت کر دیا جائے۔کیا یہی بدھ مذہب امن و آتشی
کا مذہب تھا۔؟ یا پھر اس کے پسِ پردہ حقائق کشمیر،فلسطین،عراق ،افغانستان
جیسے ہیں۔؟
کہا جاتا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ ایسے فسادات
میں دونوں متحارب گروپوں کا نقصان یکساں ہوتا ہے۔پوری دنیا،بین الاقوامی
ادارے،عالمی تحقیقاتی تنظیمیں واضح کر چکی ہیں کہ برما میں منظم طریقے سے
مسلمان آبادی کو ختم کیا جارہا ہے۔ یہ کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں،بلکہ
کھلی ریاستی دہشت گردی ہے۔اس ضمن میں دنیا کی سب سے بڑی بین الحکومتی
تنظیم،اسلامی تعاون تنظیم، (او آئی سی) عالمِ اسلام،مسلم
ممالک،مسلمان،پاکستانی میڈیا،اہلِ قلم حضرات،دانشور،صحافی،علماء کرام
روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائیں۔بے حسی اور غفلت کی چادر اتار کر
ان بے یارومددگار مسلمانوں کی مدد کے لیے دستِ تعاون دراز کریں۔اور ان کو
موجودہ ہٹلروں سے بچائیں،تا کہ برما اس صدی کا اسپین نہ بنے۔
|