گلگت بلتستان میں جب سے مسلم لیگ ن کی حکومت آئی ہے
نمایاں تبدیلی محسوس ہورہی ہے ۔ کیونکہ قیادت نمایاں شخصیت کے پاس ہے ۔
مجھے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے ترقیاتی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے زرہ
برابر بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی ۔ مہدی شاہ کے پانچ سالوں میں کوئی پل اور سڑک
تو دور کی بات بلکہ ایک لنک روڈ بھی تعمیر نہیں ہوسکا تھا اس لئے ان کے دور
میں ایک صاحب نے قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کا نام تبدیل کرنے کا
مطالبہ کیا تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ اس اسمبلی کو ’کلوٹ ساز اسمبلی
قرار دیا جائے ‘۔ اب سابقہ وزیراعلیٰ اور موجودہ وزیراعلیٰ کا مقابلہ کرایا
جائے تو آسمان زمین کا فرق معلوم پڑے گا ۔ حافظ حفیظ الرحمن کی تعریف میں
بڑے بڑے لوگوں نے بڑے قیمتی الفاظ استعمال کیا ہے ۔ جن میں سابق وزیراعظم و
صدر مسلم لیگ ن میاں محمد نوازشریف ، آر می چیف جنرل راحیل شریف ، پی ٹی
آئی رہنما اسد عمر ، عمر ایوب سمیت کئی اور موجود ہیں ۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی سیاست کا سب سے قیمتی اور اہم
دورانیہ گزشتہ پانچ سال ہیں جب انہوں نے اسمبلی سے باہر رہ کر جاندار
اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب گلگت بلتستان میں پہلی
مرتبہ صوبائی حیثیت دیکر نت نئے عہدے متعارف کرائے گئے تھے ۔ حافظ حفیظ
الرحمن اس دور میں انتہائی باریک بینی سے معاملات کا مشاہدہ کرتے رہے
اورایسی اپوزیشن کی کہ آج بھی مہدی شاہ بھولا نہیں ہے ۔
آرمی چیف ، سابق وزیراعظم ، اسد عمر ، برجیس طاہر ،عمر ایوب ،و دیگر معتبر
شخصیات کی تعریفیں ایک سند ہیں ۔ جو وزیراعلیٰ کے زاتی تجربے اور سیاسی
ویژن پر ہیں۔ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کو آج تک کسی بھی موضوع پر لیکچر
دیتے ہوئے ہچکچاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ کسی بھی سوال کے جواب پر ’چپ سادھ لی
‘ کا جملہ نہیں ملا ۔ کسی بھی موقع پر ’گول کرگئے ‘ کی خبر نہیں ملی ۔ ایسی
صورتحال یقینا ایک اجر و رحمت ہے ۔ سابقہ پانچ سال وزیراعلیٰ کے سیاسی
تاریخ میں نمایاں ہیں ۔ اس دوران وزیراعلیٰ کا سیاسی ویژن نکھر نکھر کے
سامنے آتا رہا ۔ اس دور میں حافظ حفیظ الرحمن نے چند پیشنگوئیاں اور حقائق
سے پردہ اٹھایا تھا وہ جملے آج ایک ایک ہوکر سچ کا لبادہ اوڑھ رہے ہیں ۔
حافظ حفیظ الرحمن نے ’پیشنگوئی ‘ کی تھی کہ گلگت بلتستان میں 2009کے صدارتی
آرڈیننس کے تحت دئے گئے نظام میں درجنوں نقائص ہیں جن میں ایک گلگت بلتستان
کونسل کا قیام ہیں وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ جی بی کونسل ربڑ سٹیمپ کی حیثیت
سے زیادہ نہیں ہوگی لیکن یہ صوبائی خزانے پر ایک بوجھ ثابت ہوگا ۔ آج
وزیراعلیٰ کی یہ پیشنگوئی ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے ۔ صوبائی حکومت کے
ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوگیا ہے جی بی کونسل ایک ’ربڑ ‘ سے زیادہ کی حیثیت نہیں
رکھتی ہے ۔ گلگت بلتستان کونسل میں اس وقت پانچ اراکین مسلم لیگ ن سے تعلق
رکھتے ہیں صرف ایک رکن اسلامی تحریک کا ہے ۔ اب غور کریں ان پانچ سالوں
جناب سلطان علی خان ، محترم اشرف صدا ، محترم ارمان شاہ ، محترم وزیر اخلاق
، تاحیات رکن کونسل سید افضل اور آغا علی رضوی صاحب اپنے کارکردگی پر چند
جملے ہی بول کر دکھادیں۔ کارکردگی تو بعد کی چیز ہے صرف یہ تو بتائیں کہ
کونسل کے اختیارات کیا کیا ہیں۔کونسل کے یہ ممبران سابق کونسل ممبران کے
ساتھ کسی بھی زاویے سے تقابلی جائزہ لیں ۔ اب تک کی قانون سازی دکھادیں۔
دعوے سے کہتا ہوں کہ سابقہ کونسل ممبران کے اگر چند ایک چیزیں پائپ لائن
میں تھیں تو ان کی منظوری ملی ہوگی موجودہ ممبران کا کوئی کردار نہیں ہونا
ہے ۔
حافظ حفیظ الرحمن حلقہ 2سے الیکشن میں ہار گئے تھے اور دیدار علی آزاد
حیثیت سے اس حلقے میں ’سکندر ‘ کہلائے تھے ۔ حافظ حفیظ الرحمن اور جمیل
احمد دونوں کا یہ حلقہ مستقل تھا جبکہ دیدار علی اس حلقے میں پیراشوٹ کے
زریعے آئے تھے ۔ پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد
جمیل احمد کو ٹیکنوکریٹ نشستوں پر ممبر منتخب کرایا اور وہ ڈپٹی سپیکر بن
گئے ۔ حافظ حفیظ الرحمن نے اس وقت نشاندہی کی تھی کہ ڈپٹی سپیکر ایک آئینی
عہدہ ہے مگر جمیل احمد اسے غیر قانونی طور پر حکومتی نمائندگی کے لئے
استعمال کررہے ہیں ۔ آج پھر اس بیان کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اگر
مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت میں اگر کوئی بندہ یا رکن اسمبلی کسی بھی طور
پر مخالفین کے ہر بات کا جواب دینے سامنے آتا ہے تو وہ ڈپٹی سپیکر جعفراﷲ
خان ہے ۔ اب حکومت کی یہ کیسی مجبوری ہوگی کہ تمام وزراء کو محکمہ جات اور
اختیارات دئے جائیں مگر ’چپ ‘سادھ لیں۔ ان کے چپ کا روزہ افطار کرانے کے
لئے کوئی منصوبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس میں ممکن ہے کہ ان کے حلقوں میں
بھاری اجتماع کرایا جائے اور ان کے خلاف تقاریر کرایا جائے یا ان کے رہائشی
گھروں پر دھرنے دئے جائیں۔
سابقہ حکومت نے اپنی ’تشہیر ‘کے لئے انفارمیشن سیل کا قیام عمل میں لایا
تھا ۔ جس کی بھرپور مخالفت حافظ حفیظ الرحمن نے ہی کی تھی ان کا سمجھنا تھا
کہ انفارمیشن سیل صرف حکومتی تشہیر کے لئے استعمال ہوگی اور وہ یہ بات کہنے
میں حق بجانب تھے ۔ اس وقت انفارمیشن سیل تھا اور اب تو علیحدہ سیکریٹری کے
ساتھ مکمل ادارہ بن چکا ہے ۔ لیکن حکومتی تشہیر نہیں ہورہی ہے بلکہ اخبارات
کے لئے ’اشتہارات ‘ کے سوا کچھ نہیں ۔ محکمہ اطلاعات میں علیحدہ سیکریٹری
کی تعیناتی کے بعد خاصا فعال نظر آرہا تھا کہ شبیر سہام کیس ان کے خلا ف
چلنا شروع ہوگیا جسے اردو میں کہتے ہیں کہ ’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘۔
وزیراعلیٰ کی دور اندیشی ثابت کرنے کے لئے کئی مثالیں ہیں لیکن ایک مضمون
میں ان کی گنجائش نہیں ۔ مستقبل قریب میں وزرائے خاص کی کارکردگی پر نظر
رکھیں معلوم پڑہی جائیگا۔
جمشید دکھی کا یہ مصرعہ اس موضوع پر خوب جچتا ہے کہ
بدل دے خو امیر وقت ورنہ
سبق اقبال کے شاہین دینگے
نہ بجلی دے سکے آدھی صدی میں
وہ حاکم کیا ہمیں آئین دینگے ۔ |