امن و امان کا حقیقی دشمن کون ؟

عراق اور شام میں جب امریکی پالیسیاں زیادہ کارآمد نہیں ہوئیں تو اب ان کا ٹارگٹ پاکستان اور افغانستان قرار دیا گیا ہے لہذا پاکستانی اور افغانی حکام کو اس بارے میں خصوصی طور پر سوچنا چاہئیے کیونکہ جو حال شام اور عراق کا ہوا ہے کہیں یہی حال پاکستان اور افغانستان کا نہ ہو جائے ۔

تاریخ میں ایسے بہت سے جھوٹ بولے گئے ہیں جیسے بحر اوقیانوس کے اس پار سے غلاموں کی تجارت کا جواز پیش کرنے کیلئے یہ کہا گیا کہ یہ تجارت درحقیقت دیگر اقوام کو عیسائی مذہب کی طرف ترغیب دلانے کا ایک بہانہ ہے اسی طرح امریکہ کا یہ دعوی کہ وہ عالمی سطح پر ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں مصروف ہے، اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر موجود جہادی نیٹ ورک کا بانی اور اصل حامی ہے۔ دنیا کے اکثر لوگ اس حقیقت کو جان چکے ہیں جیسا کہ شام کے۸۲؍ فیصد شہری اور حتی داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے۶۲؍ فیصد شہری یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا بانی امریکہ ہے۔

صرف وہ امریکی جو خود کو غیر معمولی خیال کرتے ہیں اور سامراجی ذہنیت کے حامل یورپی واشنگٹن کی اس حماقت اور بے وقوفی کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن واضح ہے کہ یہ حقیقت کہ ’’امریکہ نے شدت پسند تکفیری دہشت گردی کو دنیا پر مسلط کر رکھا ہے‘‘ ہر ملک کیلئے شدید حد تک خطرناک ہے۔ جب یہ کھیل اختتام کو پہنچے گا اور دنیا والے بظاہر یہ دکھاوا کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے کہ امریکہ دنیا میں انجام پانے والی تمام دہشت گردی کی اصل جڑ نہیں، تو اس وقت امریکہ کے پاس کیا جواب ہو گا؟ جب امریکہ پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد ہو گا تو اس وقت ایک مجرم سپر پاور سے کیا سلوک روا رکھا جائے گا؟
امریکہ داعش کے رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ اور ان کے مالی ذخائر کی نابودی پر مبنی دعووں کے ذریعے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکہ کا یہ اقدام ٹرامپ حکومت کی جانب سے شدت پسند مذہبی گروہوں کی حمایت پر مبنی پالیسی سے مکمل ہم آہنگ ہے لیکن اب یہ پالیسی شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ کی پالیسی یہ تھی کہ وہ داعش کے سرگرم تکفیری دہشت گردوں کو بچا لے اور انہیں ایک نئے نام اور عنوان کے تحت اپنے مفادات کیلئے استعمال کرے۔

موجودہ امریکی حکام کا خیال ہے کہ داعش اس وقت ایک’’ باغی گروہ‘‘ میں تبدیل ہو گیا ہے کیونکہ اس نے امریکی پالیسیوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور خود اپنا راستہ مقرر کرنا شروع کر دیا۔ ایسی صورتحال میں بھی امریکہ کی پالیسی صرف داعش کے مرکزی رہنماوں کو ختم کرنا تھا جبکہ وہ داعش کے۳۰؍ ہزار جنگجووں کو اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے بچانے کے درپے تھا۔ امریکہ نے ان افراد کو خام تیل کی تجارت کیلئے استعمال کیا جو شام سے خام تیل اسمگل کر کے نیٹو کے اتحادی ملک ترکی کو ارسال کرتے تھے۔ اگرچہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں شام میں سرگرم تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف بلاامتیاز کاروائی پر زور دیا گیا لیکن عمل کے میدان میں امریکہ نے شام میں سرگرم القاعدہ اور النصرہ فرنٹ کو روس کے ہوائی حملوں سے بچانے کی بھرپور سفارتی کوششیں انجام دیں۔
عراق اور شام میں جب امریکی پالیسیاں زیادہ کارآمد نہیں ہوئیں تو اب ان کا ٹارگٹ پاکستان اور افغانستان قرار دیا گیا ہے لہذا پاکستانی اور افغانی حکام کو اس بارے میں خصوصی طور پر سوچنا چاہئیے کیونکہ جو حال شام اور عراق کا ہوا ہے کہیں یہی حال پاکستان اور افغانستان کا نہ ہو جائے ۔

ریٹائرڈ امریکی جنرل ڈیپولتا کی نظر میں داعش کے خلاف امریکی حملے ’’علامتی‘‘ اور’’ کمزور‘‘ ہیں۔ امریکہ کے یہ ہوائی حملے درحقیقت اس بے بسی کا نتیجہ ہیں جس کا امریکہ داعش کے ذریعے شام میں فوجی توازن قائم کرنے میں شکار ہوا ہے۔ اسی طرح یہ ہوائی حملے امریکہ کی جانب سے اپنے ’’بڑے جھوٹ‘‘ کو برقرار رکھنے میں ناکامی کا بھی نتیجہ ہیں۔ یہ جھوٹ اس دعوے پر مبنی ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ عالمی سطح پر تو یہ جھوٹ فاش ہو چکا ہے لیکن ملکی سطح پر امریکہ میں اس جھوٹ کے کچھ اثرات باقی ہیں جن کا سہرا جھوٹے پروپیگنڈے کے ماہر مغربی اور امریکی میڈیا کے سر سجتا ہے اور اسی کام کے لئے وائس آف امریکا اردو کو بھی پابند کیا گیا ہے تا کہ اس کے ذریعے سے امریکی فاسد اور جھوٹ کو آشکار ہونے سے بچایا جا سکے ۔

عطا الرحمن
About the Author: عطا الرحمن Read More Articles by عطا الرحمن: 25 Articles with 16101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.