بھارتی حکومت نے مشرقی پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم تو کر
دیا لیکن اس کے باوجود سکھوں کی آزادی کے جذبے کو سرد نہیں کر سکا۔سکھوں کے
مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی اور ہزاروں سکھوں کے قتل عام کے بعد
سکھوں کی آزادی کی مسلح تحریک کو ختم کرنے کے لئے قتل و غارت گری کی طویل
بھارتی فورسز کی کاروائیوں میں مزید ہزاروں سکھوں کو ہلاک کیا گیا۔سالہا
سال پہلے چندی گڑھ میں ایک سکھ صحافی نے بتایا تھا کہ بھارت میں رہنے والے
سکھوں میں یہ گہرا احساس پایا جاتا ہے کہ بھارت میں پنجابی زبان اور پہچان
کو ختم کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں پنجابیت کو فروغ مل رہا ہے۔مشرقی
پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے باوجود بھارتی حکومت سکھ شناخت کو
ہندوستان کے ''ہندو دھارے'' میں غائب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور
سکھوں میں اس کا ردعمل اب تیز ہوتا نظرآ رہا ہے۔ آپریشن بلیو سٹار میں
بھارتی فوج کے حملے میںسکھ حریت پسندوں کی ہلاکتوں اور گولڈن ٹیمپل کو بھی
تباہ کئے جانے کے حوالے سے امرتسر میں ایک یادگاری میوزیم قائم کیا گیا
ہے۔چند ہفتے قبل گوردوارہ پربندھک کمیٹی امرتسر کے ہرمندر صاحب میں قائم
کردہ اس میوزیم میں آزادی پسند سکھ رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراں والا اور ان
کے ساتھیوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔بھارت سے مشرقی پنجاب کی آزادی کے لئے
بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ممتاز و معروف آزادی پسند رہنما
بھنڈراں والا اور دوسرے آزادی پسند سکھ رہنمائوں کو سکھوں میں مذہبی حوالے
سے بھی وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے اور اسی تناظر میں حکومت بھی اس
معاملے میں سکھوں کی جذبے کے سامنے بے بس ہے۔
اہم خبر یہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں سکھوں کی آزادی کے لئے تین سال بعد،2020ء
میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا گیا ہے اور پنجاب کے تمام شہروں میں سکھوں
کی آزاد ریاست خالصتان کے قیام کے لئے ریفرنڈم کے بڑے بڑے بینرز لگائے گئے
ہیں۔بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ امریکہ اور کینڈا میں مقیم سکھوں کی
تنظیم''سکھ فار جسٹس'' مشرقی پنجاب میں خالصتان ریاست کے قیام کے لئے
ریفرنڈم کرا رہی ہے۔بھارتی پولیس نے اس سلسلے میں کئی افراد کو گرفتار کرنے
کا دعوی بھی کیا ہے۔اکالی دل کی طرف سے خالصتان کی آزادی کی جدوجہد کی یاد
میں قائم میوزیم کے قیام اور آزادی پسند سکھ رہنما بھنڈراں والا اور
خالصتان تحریک کے دوسرے آزادی پسند سکھ رہنمائوں کی تصاویر لگائے جانے سے
بھارتی پنجاب کی حکومت پریشانی سے دوچار ہے ۔بھارت نے خالصتان تحریک کے
حوالے سے کینڈا اور امریکہ سے بھی بات کی ہے لیکن بھارت کو سکھوں کے خلاف
ان ملکوں کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔29اکتوبر کو امرتسر میں دو سکھ نوجوانوں
نے انتہا پسند ہندو تنظیم کے ایک لیڈر دپن شرما کو سرعام فائرنگ کر کے ہلاک
کر دیا ۔ مشرقی پنجاب میں انتہا پسند ہندوئوں کی سرگرمیاں تیز کرنے میں دپن
شرما نمایاں کردار ادا کر رہا تھا۔ظاہری طور پر انتہا پسند ہندو تنظیم کا
یہ عہدیدار سکھوں کے ردعمل میں مارا گیا ہے تاہم بھارتی حکام کی طرف سے
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس معاملے میں خالصتان تحریک کے حامی ملوث ہو
سکتے ہیں۔بھارتی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ خالصتان تحریک کے حامی مجرموں
اور منشیات کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔
دریں اثناء بھارتی حکام نے دعوی کیا ہے کہ ممبئی سے دہلی جانے والے ایک
مسافر طیارے کو اغوا کر کے آزاد کشمیر لیجانے کی کوشش کو ناکام بنایا گیا
ہے۔جہاز کے باتھ روم سے اردو اور انگریزی میں دھمکی کی تحریر سامنے آنے پر
جیٹ ایئر ویز کی فلائٹ کو ہنگامی طور پر احمد آباد کے ہوائی اڈے پر اتارا
گیا۔بھارتی حکام کے مطابق خط میں لکھا گیا تھا کہ فلائٹ نمبر9ڈبلیو33میں
ہائی جیکر موجود ہیں اور طیارے کے سامان والے حصے میں بم بھی نصب کیا گیا
ہے۔بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ خط میں دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا کہ طیارے
کوپاکستانی کشمیر (آزاد کشمیر) لے جایا جائے اور اگر طیارہ کہیں اور اتارنے
کی کوشش کی گئی تو مسافروں کو ہلاک کر کے طیارہ تباہ کر دیا جائے گا۔بھارتی
میڈیا کے مطابق دھمکی کا فون آنے پر پونے چار بجے صبح طیارے کو ہنگامی طور
پر احمد آباد اتاراگیا ۔بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ طیارے میں موجود سلام
جو( یہ کشمیری نام ہے) نامی ایک مسافر نے ملنے والے خط کو لکھنے کا اقرار
کیا ہے۔پولیس نے اس شخص کو گرفتار کیا ہے ۔بھارتی شہری ہوا بازی کے محکمے
کے وزیر کے مطابق اس شخص کے کسی بھی ہوائی سفر پر پابندی لگائی جائے گی۔
یاد رہے کہ1971ء میں ہندوستان نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان معمول
کی فلائٹ سروس ختم کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر سے گنگا نامی جہاز کے اغوا کی
سازش پر عمل کیا تھا جس میں انڈیا کی بی ایس ایف کے ایک ملازم کو استعمال
کیا گیا تھا جس نے ایک معصوم کشمیری نوجوان کو کشمیر کی آزادی کے حوالے سے
اپنے ساتھ اس بھارت سازش میں استعمال کیا تھا۔واضح رہے کہ آزاد کشمیر میں
اس وقت کوئی ایئر پورٹ نہیں ہے۔سالہا سال پہلے مظفر آباد اور راولاکوٹ میں
دو ہوائی پٹیاں تعمیر کی گئی تھیں جہاں سب سے چھوٹے طیارے''ٹوئن ایٹر'' ہی
لینڈ کر سکتے ہیں۔بعد ازاں یہ دونوں ایئر پورٹ بھی بند کر دیئے گئے تھے۔یوں
کسی طیارے کا آزاد کشمیر میں لینڈ کرانے کا منصوبہ ''گنگا سازش'' کی طرح
انڈین ایجنسی کا ہی منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔ |