آزادی اظہاررائے ہرجمہوری معاشرے کا بنیاد جزو ہے جس کا
مطلب ہے آئین وقانون کی پاسداری کرتے ہوئے ہرا نسان تقریر وتحریر میں آزاد
ہے اورکسی بھی فکر، نظریہ، سوچ، عمل اورنظام کے بارے میں اپنا ایک خاص نکتہ
نظر قائم کرسکتا ہے اورکسی بھی فکر، سوچ، نظریہ یا عمل کی حمایت کرکے اس کی
ترویج کرسکتا ہے یا پھر تنقید کرنے سے اس کی اصلاح یا اس سے یکسر منحرف
ہوجانے کا بھی حق رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ ارضِ پاک میں آزادی صحافت پر حملے
ہوتے رہتے ہیں جب بھی کوئی قلم کار سیاسی بدعنوانیوں کو منظر عام پر لاتا
ہے تو اس کو دھمکیاں موصول ہونی شروع ہوجاتی ہیں ،احمدنورانی صاحب کے حملے
سے چند روز پہلے نوجوان کالم نگار شفقت اﷲ ملک کو جھنگ کے بااثرافراد کی
طرف سے دھمکیاں دی گئیں میڈیا میں رپورٹ ہونے کے باوجود اس پر کوئی نوٹس
نہیں لیا گیا احمدنورانی پر قاتلانہ حملہ چونکہ اسلام آباد میں ہوا اس لئے
سیاسی پوائنٹ سکورننگ کے لیے حزب اختلاف اورحزب اقتدار کو اچانک آزادی
صحافت کا ڈراؤنا خوا ب نظر آنے لگا،اورحملے کو آزادی صحافت پر حملہ قرار
دینے لگے کوئی ان شریف زادوں سے پوچھے کون سی آزادی صحافت ؟ کیسی اورکہاں
یہ فضول بحث ہے آزادی صحافت ہمارے شخصی جمہوری معاشرہ میں جہاں جمہوریت کے
نام پر چندخاندانوں کی بادشاہت کا نظام رائج ہے ،آزادی صحافت کاخواب تب
شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے جب عرضِ پاک سے جاگیردارانہ اوروڈیرانہ نظام کو جڑ
سے ختم کردیا جائے ،اگر یہ نظام یونہی پھلتا پھولتا رہا اقتدار حسب معمول
باپ سے بیٹے کے گھر منتقل ہوتا رہااوراقرباپروری کی بندربانٹ ایسے ہی ہوتی
رہی تو پھر آزادی صحافت ایک ڈراؤنا خواب بن جائے گی ،پہلے ہی کچھ لوگ چاہتے
ہیں کہ آزادی اظہارِ رائے اورآزادی صحافت کے خواب دیکھنے پر بھی پابندی
لگادی جائے ،البتہ بادی نظر میں ایسی آزادی صحافت کے خواب چھینے جاچکے ہیں
خواب نیند سے مشروط ہوتے ہیں خواب آور گولیوں سے نہیں۔ گالی اور گولی کے
کھیل نے ہمیں خواب آور گولیوں کا اسیر کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنے
خوابوں سے محروم ہو گئے ہیں اور ان خوابوں میں آزادی صحافت کا خواب بھی
شامل ہے،جناب وفاقی وزیر سعدرفیق نے احمدنورانی کی عیادت کرنے کے بعد میڈیا
سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احمد نورانی اورپہلے مطیع اﷲ جان پرحملے نے
ہمارے سرشرم سے جھکائے ہیں،دبنگ اور بے باک صحافیوں کو اس طرح روکا نہیں جا
سکتا۔انہوں نے کہاکہ احمد نورانی پر آزادی صحافت پر حملہ ہے اورحملے کرنے
والوں کی سوچ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گی جبکہ اس واقعہ سے ہماری دنیا بھر
میں جگ ہنسائی ہوئی ہے،سابق وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا یہ بزدلانہ حملہ ہے
ملزمان کو جلد پکڑکر کیفرِکردار تک پہنچایا جائے، شریک چیرمین پی پی پی
بلاول بھٹو نے اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا،بیانات سے لگتا ہے جیسے یہ
اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ رونماہوا ہے اس سے پہلے بھی درجنوں صحافیوں کا
خون بہایا جاچکاہے درجنوں پر قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں جب واقع رونماہوتاہے
تب ایسے گرم دم بیانات داغے جاتے ہیں پھر وہ ہی سست روی اورعدم توجہ ان کا
منہ چڑاتی رہتی ہے ،صحافیوں کا آخر قصور کیا ہے صرف یہ کہ وہ اصل حقائق کو
عام لوگوں کے سامنے لاتے ہیں ،لوگوں کے اندر غلط درست کی تمیز پیدا کرتے
ہیں ،منہ زور سرپھروں کی حقیقت عام لوگوں کے سامنے عیاں کرتے ہیں ،لٹیروں ،رہزنوں
،ڈاکوؤں اورچوروں کے کالے کرتوت حقیقت کی آنکھ سے دکھاتے ہیں،حقائق منظرعام
پر لانا ہر صحافی کی بنیادی فرض ہے ،جمہوری معاشرہ میں حقائق کا معلوم کرنا
عوام کابنیاد ی حق ہے اس حق کو کسی بھی صورت میں دبایا نہیں جاسکتا کیونکہ
آزادی اظہار رائے اور جاننے کا حق تسلیم کئے جانے سے ایک عام انسان کے اندر
ایک طا قت آجاتی ہے اور وہ طاقت ان کردار وں کو للکارتی ہے جو انسانی سماج
میں ناانصافی اور ظلم و بر بر یت کو فروغ دینے کا باعث بنتے ہیں ۔ یہ
طاقتیں انسانوں کے مذکورہ دونوں حقوق کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتی
ہیں اور ان حقوق کی پاسداری کرنے والے افراد کا گھیرا تنگ کرتی ہیں ۔
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ صحافت کے شعبے سے وابستہ
افراد نے اس شعبے کی آزادی کے لئے بڑی جدوجہد کی ہے اس جدو جہد کے دوران
کئی صحافیوں نے اپنی جانیں گنوائیں یا قید و بند، تشدد اور دیگر صعوبتیں
برداشت کیں ہیں اور کررہے ہیں ،ایسے حملوں سے قبل بھی حقائق کی جستجوجاری
وساری تھی اب بھی جاری وساری رہے گی بقول شاعر:
مرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے
بدقسمتی سے یہاں کبھی طاقتور ظالم کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا ،اگر
ایسا کیا گیا ہوتا توسرِعام یہ جرائم کبھی بھی نہ پنپتے کچھ ستم ظریفی یہ
ہے کہ ہمارے اردگرد رہنے والے لوگوں کی اکثریت معذور ہے یہ معذوری جسمانی
نہیں ہے بلکہ ذہنی ہے ،ان بیمار لوگوں نے اتنی زیادہ چوری چکاری کی ہے کہ
حقائق انہیں ہضم ہی نہیں ہوتے ،یہ سچ سننے کی قوت سے محرم ہوچکے ہیں ،وہ ہی
قومیں اورمعاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں سچ سننے اورکہنے والوں کا احترام کیا
جاتا ہے ،جوقومیں ظلم وجبر ،زیادتی وناانصافی کو فروغ دیتی ہیں وہ ترقی
وخوشحالی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں کرپاتی ،امن امان کا قیام شہریوں کے جان
ومال کا تحفظ ریاست کا پہلا فرض ہے ۔ |