مسلسل ہٹ دھرمی

 بھارت نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ محاز آرائی اور کشیدگی شروع کر دی ہے۔پہلے نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کا شوشا چھوڑاگیا۔مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی مزید تیز کردی۔ جنگ بندی لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر شہری آبادی کو گولہ باری کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔مقبوضہ وادی اور جنگ بندی لکیر پر بھارتی جارحیت کا جواب پاکستان نے انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ دیا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے اعتماد سازی کے مطالبات بھی گردش کرتے رہے۔ باخبر لوگ کہتے ہیں کہ محبوبہ مفتی کے بھارت سے چند اہم مطالبات ہیں۔ جن میں آزاد کشمیر سے واپس وادی آنے والوں کے لئے نیپال راستہ کھولنے کا باضابطہ فیصلہ، آر پار ٹریول اور ٹریڈ کے مزید راستہ کھولنا، ریاست کے لئے بڑا اقتصادی پیکج، جموں ، سرینگر، کرگل اور دیگر علاقوں میں بھارتی فوج کے زیر قبضہ زمین کی ریاستی حکومت کو واپسی جیسے ایشوز شامل ہیں۔بھارتی فوج نے1500ایکڑ زمین پر سے اپنا قبضہ ختم کرنے کی حامی بھری۔ بعد ازاں فوج نے قبضہ ختم نہ کیا۔ محبوبہ مفتی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی پر بھی زور دیتی رہی ہیں۔یہ بھی کہا گیا تھا کہ نریندر مودی نے محبوبہ مفتی کو مطمئن کرنے کے لئے ہی پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کی تھی۔ کیوں کہ یہ پی ڈی پی کی ایک شرط تھی۔ مگر بھارت کا بات چیت سے مسلسل گریز اس کی ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتا ہے۔

محبوبہ مفتی نیپال راستے کی ریگولرائزیشن چاہتی ہیں۔ تا کہ جنگ بندی لائن سے پار آزاد کشمیر جانے والے نوجوانوں کی واپسی ممکن بن سکے۔ اس سے پہلے بھی کشمیریوں نے یہ راستہ واپسی کے لئے اختیار کیا۔ تا ہم بھارت نے اس کو سرینڈر پالیسی کے تحت لانے کا اعلان کیا۔ سرینڈر یا بھارت کے آگے کشمیریوں کے جھکنے کے تمام مفروضے موجودہ تحریک مزاحمت نے بالکل رد کر دیئے ہیں۔ بھارت نے واپس جانے والوں کی گرفتاری، تشدد، ہراساں کرنے کا سلسلہ تیز کیا تو واپسی کا عمل رک گیا۔ یہی نہیں بلکہ واپس جانے والے نوجوانوں پر قافیہ حیات تنگ کر دیا گیا۔محبوبہ مفتی عوامی دباؤ کے تحت بی جے پی کے ساتھ یہ مطالبات اٹھا رہی ہیں۔پی ڈی پی کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد اس لئے بھی کشمیری عوام کو قبول نہ تھا کہ وادی کشمیر میں بی جے پی ایک سیٹ بھی نہ جیت سکی تھی۔ تا ہم جموں میں بی جے پی نے میدان مار لیا۔ یہ کہا گیا کہ وادی کے عوام نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لئے دہلی میں اس کی حکومت کے باوجود وادی میں بی جے پی کو شکست سے دوچار کیا۔ نومبر ، دسمبر2014کو اسمبلی انتخابات میں محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی نے 28سیٹیں حاصل کیں۔ بی جے پی 25سیٹیوں پر کامیابی حاصل کی۔ یہ تمام نشستیں جموں خطے کے ہندو اکثریتی علاقوں کی تھیں۔ نیشنل کانفرنس 15اور کانگریس نے 12حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ سابق حریت رہنما اور پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون نے بھی اس بار کھل کر الیکشن لڑا اور دو سیٹیں لیں۔ وہ بعد ازاں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے بعد بی جے پی کے اتحادی بن گئے اور آج وہ ریاستی وزیر ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کے یوسف تاریگامی سو فیصد آبادی والے مسلم حلقے کولگام سے مسلسل کامیاب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ایک سیٹ لی۔ بھارت مخالف تحریک میں سرگرم مسلم ڈیموکریٹک فرنٹ کے انجینئر رشید ضلع کپواڑہ کے حلقہ لنگیٹ سے کامیاب ہوئے۔ یہ علاقہ تحریک آزادی کی مسلح جدوجہد میں شدت کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ تفصیل مقبوضہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے کل 87حلقوں کی ہے۔ اس منڈیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ڈی پی اور بی جے پی کا گٹھ جوڑ وادی کے عوام کو کسی طور بھی قبول نہ تھا۔ مگر اتحادی حکومت بن گئی۔ مفتی سعید اس حکومت کے سربراہ تھے۔ ان کی وفات کے بعد چار ماہ تک یہ سوالات اٹھے کہ کیا محبوبہ مفتی کا بی جے پی کے اتحاد اپنے والد کے مشن کے تحت اتحاد سود مند ثابت ہو گا۔ اس دوران ریاست میں حکومت نہ بننے پر گورنر راج بھی رہا۔ تا ہم اتحادی حکومت ایک بار پھر بن گئی جس کی سربراہ محبوبہ مفتی ہیں۔ بی جے پی کے نرمل سنگھ اس حکومت کے نائب وزیراعلیٰ ہیں۔ تا ہم سچ یہ ہے کہ اصل حکومت نریندر مودی چلا رہے ہیں۔ ریاست کو فنڈز نہیں مل رہے ہیں۔ ترقیاتی پروجیکٹ نامکمل ہیں۔ بھارتی فوج کا تعلیمی اداروں تک پر قبضہ ہے۔ لا تعداد سرکاری فوج کی تحویل میں ہیں۔ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جنگ بندی لائن کو نرم کرنے اور مزید سفری و تجارتی راستے کھولنے کا مطالبہ جاری رکھ کر وادی کے عوام کو تسلی دے رہی ہے۔اور بھارت نے اس پر کوئی غور نہ کرنے کا تسلسل نہ توڑا۔ محبوبہ مفتی کرگل کو گلگت بلتستان سے ملانے والے راستے اور جموں کو سیالکوٹ سے جوڑنے کے مطالبہ دوہرا رہی ہے۔ اس کے برعکس نیشنل کانفرنس نے بھارتی آئین کے تحت ریاستی اٹانومی یا نیم خود مختاری کا مطابہ جاری رکھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنے سے آج تک مسلسل انکار کیا ہے۔ فاروق عبد اﷲ کی نیشنل کانفرنس جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد یا’’ سٹیٹس کو‘‘جاری رکھنے کے حق میں ہے۔ کانگریس کا پنا موقف ہے۔ وہ بھی صورت جوں کی توں ہی چاہتی ہے۔ وہ بھی نیشنل کانفرنس کو اٹانومی تک دینے کو تیار نہ ہوئی جبکہ نیشنل اور کانگریس کے اتحاد بھی ہو چکے ہیں۔

بی جے پی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ یا تقسیم کے فارمولے کو عملانے کا سلسلہ جاری رکھے ہو ئے ہے۔ بی جے پی نے لداخ کومقبوضہ جموں و کشمیر سے کاٹ کر براہ راست دہلی کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کی مہم زور سے چلائی۔ وہ اس مہم میں اس حد تک کامیاب ہو چکی ہے کہ لداخ ہل کونسل کے بعد تمام مقامی سیاستدان اس کے لئے متحد ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔ جس میں لداخ کو کشمیر سے کاٹ کر نئی دہلی کے تسلط میں دینا شامل ہے۔بی جے پی جموں کو ریاست سے کاٹ کر ایک الگ ریاست کی تشکیل چاہتی ہے۔ اگر چہ پیر پنچال اور وادی چناب کی مسلم آبادی اس کی مخالف ہے تا ہم جموں ڈویژن کے ہندو اس کے حامی ہیں اور مہم بھی چلا رہے ہیں۔ جموں خطے میں 1947کو انگریزوں کی ایما پر ہندو انتہاپسندوں اور ڈوگرہ حکومت نے مسلمانوں کا صفایا کیا۔ 5لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور جو بچ گئے انہیں پاکستان ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ سیکڑوں خواتین کو اغوا کیا گیا۔جموں میں یہ کشیدگی آج تک جاری ہے۔ بھارت نے جموں خطے میں فوجی کیمپوں پر کئی حملوں کی تصدیق کی۔ شہریوں پر بھی نام نہاد حملے کئے گئے۔ جن میں بھارتی ایجنسیوں کا کردار تھا۔ بھارت مسلسل ڈوگرہ آبادی پر باور کر رہا ہے کہ جنگجو ان کو مذہب کی بنیاد پر ان کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جموں کے شہری سمجھتے ہیں کہ بھارتی ایجنسیاں ہی انہیں نشانہ بنا کر الزام جنگجوؤں پر دال دیتی ہیں تا کہ ہندو آبادی تحریک کے خلاف کھل کر سامنے آجائے۔ اعتماد سازی کے اقدامات کو کوڑے دان میں ڈال دیا گیا ہے۔ بھارت نے اپنی جارحیت اور مکاری ، پاکستان پر بے بنیاد الزامات، دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش جاری رکھیہے۔ جس سے پاک بھارت کشیدگی میں کمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487526 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More