والڈ سٹی آف لاہور کی پاکستان کے ثقافتی مرکز کے حوالے سے
دنیا میں اپنی ایک نمایاں شناخت ہے، سیاحوں نے جب بھی پنجاب کا رُخ کیا شہر
کے اس قدیم شہر کو دیکھے بغیر واپس نہ لوٹے،یہاں تاریخی مکانات،تنگ رستے،
دُکانوں کی بھرمار، دن ڈھلتے ہی رات گئے تک عوامی ہجوم کی چہل پہل قابل دید
رہی ہے۔میوہ جات، قہوہ ،چپلوں، برتنوں،ذائقے دار روایتی کھانوں کی دُکانوں
اور ٹھیلوں پر ہمیشہ رونق کا سماں دیکھنے کو ملا ۔زندہ دلان شہر کے اِس حصے
کا یہ خاصہ رہا کہ یہاں کے باسیوں کو اپنی گلیوں ،چوراہوں، ثقافتی رہن سہن
سے اتنی محبت رہی کہ وہ شہر کے جدید ترین سہولیات کے آراستہ علاقہ جات میں
بھی بسنے کو کبھی تیار نہیں رہے۔مگر وقت کی برق رفتاری میں عوام کی بڑھتی
ہوئی بنیادی سہولیات کے تقاضے گزشتہ حکومتوں کے آنکھ سے اوجھل رہے۔تجاوزات
بڑھنے لگیں،چلنے والوں کیلئے قدم رکھنا مشکل ہوگیا،یہاں کے عوام عدم توجہ
کا شکار رہی، غیر فعال سیوریج،پانی کی عدم دستیابی،ٹوٹی گلیوں اور سڑکوں،
بجلی کی بے ہنگم تاروں جیسے مسائل سے پریشانِ حال نظر آنے لگے۔اِس تاریخی
ورثے کی جس انداز میں حفاظت کی جانی چاہیے تھی،ماضی میں بالکل نہیں کی گئی،
یہی وجہ ہے کہ والڈ سٹی کی رونقیں وقت کے ساتھ ساتھ مدھم ہونے لگیں۔کہا
جانے لگا کہ لاہور کا یہ جیتا جاگتا ثقافتی ورثہ اپنے رہائشیوں کی زندگیوں
کے لیے خطرہ بن رہا ہے،رہائشیوں کے چہرے پر افرسودگی کے بادل چھانے لگے
۔مگر مسلم لیگ(ن) نے برسرِاقتدار آتے ہی اِس تاریخی ورثے کی حفاظت کے عزم
کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ عملی اقدامات بھی کئے۔ 2012میں دی والڈ سٹی آف
لاہور اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا،اسکی قائم کردہ ذیلی کمیٹی نے شارٹ
،میڈیم اور لانگ ٹرم اقدامات تجویز کئے۔جسکا مقصد عوام کی طرزِ زندگی کو
بہتر بنانا ،ترقیاتی کاموں کی تکمیل،سیاحت کو فروغ دینے،سولڈ ویسٹ مینجمنٹ،
ماسٹر پلان ،قابل رشک ثقافت کو اُجاگر کرنے سمیت کئی دیگر عوامل شامل تھے۔
اِس اتھارٹی نے والڈ سٹی آف لاہور میں مختلف پروجیکٹس کا آغاز کیا جس میں
رائل ٹرائل پروجیکٹ سرفہرست ہے جس میں دہلی گیٹ ،شاہی حمام، چیتا گیٹ،
وزیرخان مسجد اور دینا نتھ کنواں شامل تھے۔ اِس منصوبے کے تحت مذکورہ علاقہ
جات میں، واٹر سپلائی سسٹم، سیوریج سسٹم، سٹارم واٹر ڈرینج سسٹم، زیرزمین
برقی نظام، زیر زمین آپٹک فائبر، سوئی گیس کی تنصیب کے منصوبے پایہ تکمیل
تک پہنچے۔ جبکہ رائل ٹرئل پروجیکٹ کے پیکچ ٹو جسکا آغاز 12 اپریل2012کو کیا
گیا، جس میں پانچ سو ملین کی لاگت سے دہلی گیٹ سے چوک پُرانی کوٹ والی
گلیوں کی تعمیر ،گھروں اور دُکانوں کی زیب و آرائش کی گئی۔اور 890ملین کی
لاگت سے چوک پُرانی کوٹ والی سے اکبری گیٹ تک انہیں منصوبوں پر کام کیا
گیا۔ مصروف ترین ،گنجان آباد اِس علاقے میں دکانوں، محلوں، مکانوں، گلیوں
کی تعمیر و مرمت جوئے شیر لانے سے کم نہ تھی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ
قدیم شہر کی اصل صورت میں بحالی کیلئے پُرانی طرز کا ہی تعمیراتی میٹریل
استمعال کیا گیاجس نے تعمیراتی کاموں کو حُسن بخشا ہے۔
وزیرااعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ویژن کے مطابق حکومت پنجاب کی کاشوں سے
والڈ سٹی کو اپنی اصلی حالت میں بحال کر نے پر رونقیں واپس لوٹ آئیں
ہیں۔جاذب نظر مکانات، بجلی کی بے ہنگم تاروں کے بغیر صاف گلیاں۔قمقموں سے
جگمگاتے داخلی راستے،گلیوں بازاروں میں رداں دواں ٹریفک،رات گئے گھروں کی
زینت بڑھاتیں برقی لائٹس، وزیر خان مسجد کا دللش منظر، اپنی اصل حالت میں
شاہی حمام جس کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر1ستمبر 2016کومیرٹ پر یونیسکو
ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ، یہ سب سیاحوں کو اپنی جانب راغب کر رہے ہیں ۔
بسنے والوں کے رسم و رواج میں نئی رنگینیاں، گلیوں بازاروں میں کھیل کود
،ٹھیلوں ریٹریوں پر لاہور کے روایتی چسکا دار کھانوں سے لطف اندوز ہوتی
عوام کو دیکھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت پنجاب کی انتھک محنت کی بدولت اِس
قدیم شہر کو ایک نئی زندگی عطا ہوئی ہے
|