تھائی لینڈ کے فوکٹ سے ملائیشیا کے کوالالمپور ۔۔ حصہ اول

جولائی 2017ء میں ملائیشیا کی نجی ائیر لائن کے ہوائی جہاز سے محو سفر تھا اور جانا تھا پروگرام کے مطابق پہلے براستہ ملائیشیا کے دارلخلافہ کوالالمپور سے تھائی لینڈ کے صوبے فوکٹ اور پھر واپسی پر چار دِن کوالالمپور۔۔۔۔پیٹونگ بیچیا ساحلِ سمندر: دُنیا کے اُن چند مقامات میں سے ہے جسکی وجہِ شہرت بھی وائٹ سینڈ بیچ ہے۔۔۔۔ ہاں 2004ء کے سونامی کا ذکر بہت کیا جاتا ہے۔ چاہے دوکاندار ہوں یا ہوٹل والے یا ڈرائیور ،ٹور آپریٹرز۔آنکھوں دیکھا حال سُناتے ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کا ذکر بہت دردِدِل کے ساتھ کرتے ہیں۔ کرسمس سے اگلے دِن آیا تھا یعنی ٹرو والے دِن جسکو کرسچن " باکسنگ ڈے" کہتے ہیں۔۔۔۔

فوکٹ کی چند یادگار تصاویر

جولائی 2017ء میں ملائیشیا کی نجی ائیر لائن کے ہوائی جہاز سے محو سفر تھا اور جانا تھا پروگرام کے مطابق پہلے براستہ ملائیشیا کے دارلخلافہ کوالالمپور سے تھائی لینڈ کے صوبے فوکٹ اور پھر واپسی پر چار دِن کوالالمپور۔

خلیجِ بنگال :بحرِ ہند کے اوپر سے گزرتے ہوئے ائیر پاکٹس کی وجہ سے ہوائی جہاز کو جھٹکے لگے تو زیادہ تر مسافروں کے ہوش ٹھکانے آگئے۔لیکن چند مسافر وں نے اپنی پریشانی ظاہر نہ ہو نے دی اور اپنے سامنے لگی سکرین پر فلم دیکھنے میں مگن رہے۔لاہور سے کوالالمپور 6گھنٹے کا راستہ ہے اور پاکستان سے ملائیشیا کا ٹائم تین گھنٹے آگے ۔

کوالالمپور بین الاقوامی ائیر پورٹ:پر صبح کے 7بجے ہوائی جہاز نے لینڈ کیا اور چند منٹوں بعد وسیع و عریض خوبصورت ائیر پورٹ کے اندر ایک کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر فوکٹ جانے والی فلائٹ کا انتظار کرنے لگے۔اس دوران مختلف ممالک کے مسافر رنگ برنگے آرام دہ ملبوسات(کیزول وئیر) پہنے ائیر پورٹ کے اندر پھرتے نظر آرہے تھے ۔ کچھ ائیر پورٹ کے اندر چلنے والی ٹرین پر ایک ٹرمینل سے کہیں دُور دوسرے ٹرمینل پر آ جارہے تھے ۔ بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک ٹرمینل کے پاس زمین پر بیٹھے ہو ئے اپنی فلائٹ کا انتظار کررہے تھے ۔ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ یہ ویت نام کے ہیں۔ وہاں کیفے ٹیریا میں چائے پینے کے بعد بِل کی ادا ئیگی ملائیشیا کی کرنسی"رِنگٹ" میں کی۔ 1رِنگٹ پاکستانی 25روپے کے برابر تھا۔
فوکٹ کی فضاؤں میں:ساڑھے پانچ گھنٹے بعد وقتِ مقررہ پر ہوائی جہازپر دوبارہ بیٹھے توڈیرھ گھنٹے بعد فوکٹ کی فضاؤں میں تھے اور ہوا تیز ہونے کی وجہ سے ہوائی جہاز لینڈنگ کے دوران کچھ زیادہ ہی اُوپر نیچے ہو رہا تھا۔پھر جونہی ہوائی جہاز کے پہیئے رن وے کو چُھوئے تیز ہوا نے ہوائی جہاز کو ایک دم دائیں طرف کھینچتے ہوئے اُوپر کی طرف اُٹھا دیالیکن پائلٹ نے مہارت سے دوسری دفعہ میں لینڈنگ کر لی۔مسافر چند لمحوں کیلئے گھبرائے مگر جب فوکٹ کے خوبصورت ائیر پورٹ میں داخل ہو ئے تو سب بھول گئے۔
فوکٹ صوبے کے شہر وساحل سمندر پیٹونگ: پر 8 سال پہلے آنا ہوا تو اُس وقت ائیر پورٹ چھوٹا تھا لیکن وقت کے ساتھ وہاں ٹورازم بڑھنے پر ائیر پورٹ بھی بین الاقوامی سطح پربڑا ،خوبصورت اور مزید سہولیات کے ساتھ مزین نظر آیا۔منزل تھی ائیر پورٹ سے ویگن کے ذریعے فوکٹ کے علاقے پیٹونگ کی جو پیٹونگ بیچ کے نام سے زیادہ مشہور ہے اور کچھ فاصلے بعد راستہ بھی پہاڑی طرز کا ہے۔لہذا تھائی لینڈ کی کرنسی 1400 "باتھ" کی ایڈوانس ادائیگی کرنے پر اے سی ویگن والے نے پیٹونگ جانے کی حامی بھری۔1باتھ پاکستانی3روپے20پیسے تھا۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد بَل کھاتے راستوں سے ہوتے ہوئے پیٹونگ میں واقع "اَنڈاٹیل ہوٹل" میں پہنچے جس کی بُکنگ انٹر نیٹ کی سہولت کے تحت لاہور سے کروائی ہو ئی تھی ۔جہاں اگلے چھ دِن قیام کرنا تھا۔ آٹھ سال پہلے بھی اُسی ہوٹل میں رہے تھے۔جو اس دفعہ مزید بہتر سہولیات سے مزین تھا اور ایک مستطیل نما سوئمنگ پول کا اضافہ بھی ۔

70سالہ اَسٹریلین اور 2 بوتلیں :ہاں ! اِسی ہوٹل میں آٹھ سال پہلے جو قدآور اور بھاری جسم کا 70سالہ آسٹریلین ملا تھا وہ اس دفعہ پھی حسبِ معمول 4مہینے گزارنے آیا ہوا تھا۔ چند ماضی کی یادوں سے اُس نے پہچان لیا اور پھر جب تک ہوٹل میں رہے لابی میں اُسے گپ شپ رہتی۔ وہی لمبی بغیر بازو کی برانڈڈ ٹی شرٹ اور لمبی نیکرزیب تن۔ لیکن اُس نے ایک ترقی کی تھی پہلے بیئر کی دوچھوٹی بو تلیں سامنے رکھ کر آہستہ آہستہ پیتا تھا اب دو بڑی بوتلیں۔ دِن بھر میں پندرہ کے قریب۔ہاہاہاہا۔

حلا ل کھانے کا انتظام:پہلے چھ گھنٹے کا سفر پھر ساڑھے پانچ گھنٹوں کا انتظار ، اُوپر سے ہوائی جہاز کے جھٹکے اور آخر میں رہتے سہتے ائیر پورٹ سے ہوٹل تک کا بَل کھاتی ہوئی اُونچی نیچی سڑکوں پر مزید ایک گھنٹے کے سفر نے وہ حال کر دیا تھا کہ ہوٹل کے اے سی والے کمروں میں جاتے ہی سب بستروں پر نڈھال ہو کر گِر پڑے۔پاکستان سے تھائی لینڈ کا وقت دو گھنٹے آگے ہے لہذا اُس وقت وہاں کے دو بجے ہو ئے تھے۔شاید اس ہی لیئے چند منٹوں بعد ایک آواز آئی یہاں کھانے کو کیا ملے گا؟

کچھ حلال ڈھونڈ کر لیکر آتے ہیں۔جولائی کا مہینہ تھا لہذا باہر موسم گرم تھا لیکن لاہور سے بہتر۔چند منٹوں بعد ڈسپوزیبل ڈبوں میں کھانا ہوٹل کے کمروں میں ہی لیکر آگئے اورسب نے مِل کر تناول فرمایا ۔ساتھ معلومات میں اضافہ بھی ہوا کہ یہ حلال کھانا جس میں زیادہ تر سبزیاں تھیں قریب کی مارکیٹ کے ایک ہندو مالک کے ریسٹورنٹ سے مل گیا ہے ۔ جسکے پاس مسلم ملازم بھی ہیں۔ بلکہ اُس نے کہا ہے کہ اگر آپ آئندہ جتنے دِن بھی یہاں رہتے ہیں اُس سے کھانا لیں گے تو وہ خصوصی رعایت بھی کرے گا۔ چونکہ کھانا مزیدار تھا لہذا سب نے ہاں میں ہاں ملائی " او کے"۔

ایک بولا " ناشتہ تو اس ہوٹل میں رہائش کے پیکج کے ساتھ فری ہے اور کھانے کا بھی مناسب قیمت میں انتظام ہو گیا ہے اب ہر ایک کی اپنی مرضی جو کچھ جہاں سے مرضی کھائے اور جب اکٹھے کھائیں تو ہندو کا ہوٹل"۔

فوکٹ میں مسجد و مسلمان:
ہوٹل کے پیچھے ایک فرنگ پر مسلمانوں کیلئے ایک مسجد اور مدرسہ بھی ہے۔ مسجد میں نماز پہلی منزل پر پڑھی جاتی ہے اور وہاں خواتین کیلئے بھی پردے میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا نتظام ہے۔ مسجد کے اردگرد مسلمانوں کے چند کھانوں کے ہوٹل بھی ہیں جہاں صرف حلال دستیاب ہے۔ وہاں کے ایک مسلم وین ڈرائیور نے بتا یا کہ اب پیٹونگ میں مزید دو مسجدیں اور بھی تعمیر ہو چکی ہیں اور مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ کم و پیش 20فیصد مسلمان ہیں ۔

جیٹ لیک (وقفہ): کا شکار ایک ساتھی اگلی صبح ہوگیا۔یعنی لمبے سفر اور ٹائم زون کی تبدیلی کی وجہ سے اُسکو اندازہ لگانا مشکل ہو گیا کہ وہ کہاں ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟چند گھنٹے اُسکی یہی حالت رہی جسکی وجہ سے ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد کچھ اُسکے ساتھ کمرے میں چلے گئے اور کچھ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں نہانے۔

ہوٹل سے سمندر پر جانے کا راستہ کم وپیش 1کلومیٹر تھا اور اُس پر جانے کے شوق میں ہی اتنا لمبا سفر کر کے دوبارہ فوکٹ آئے تھے لیکن پہلے دِن تھکن کی وجہ سے رات گئے صرف قریب کی مارکیٹ میں ونڈو شپانگ کی، کھانا کھایا اور ہوٹل واپس آکر جلد سو گئے تھے۔ لہذا دوسرے دِن سب کا یہی دِل کر رہا تھا کہ پہلی دفعہ سب مِل کر سمندر پر جائیں۔

پیٹونگ بیچیا ساحلِ سمندر: دُنیا کے اُن چند مقامات میں سے ہے جسکی وجہِ شہرت بھی وائٹ سینڈ بیچ ہے۔ ساتھ میں اُس کے محلِ وقوع میں مارکیٹیں ،ہوٹلز،شاپنگ پلازہ اور مختلف اقسام کی رنگ برنگی اشیاء سے سجی ہوئی دوکانیں ہیں جن میں خریدار بھی دُنیا بھر کے ممالک سے مختلف رنگ و نسل کے سیاح ہوتے ہیں ۔ مردو خواتین کی ٹی شرٹس، نیکریں ، پاجامیں ،سکارفس،ٹوپیاں اور خصوصی طور پر جوگرز اور ہوائی چپلیں دوکانوں پر عام سیل ہو تی ہیں اور سمندری خوارک (سی فوڈ) کے دلدادہ اس کھانے کا شوق پوراکرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

سہ پہر تک ساتھی جان گیا کہ اُسکی آنکھ فوکٹ میں کیوں کُھلی ہے اور پھر سب نے فوکٹ کے رات دِن کے نظاروں کی طرف رُخ کیا۔ کسی دِن پیٹونگ ساحلِ سمندر پراور اگلے دِنوں میں اُ س سے ملحقہ اور خوبصورت اور دلکش آئی لینڈز اور ساحلوں پر جن میں فی فی، جیمز بانڈ آئی لینڈز، کیرون بیچوغیرہ شامل تھے۔گزشتہ ٹور پر" فی فی" جزیرے سے واپسی پر سمندر ی طوفان کا سامنا بھی کرناپڑا تھا اور " کروز شپ" جسطرح شدید لہروں کی وجہ سے اُوپر اُٹھتا اور پھر پانی نیچے سے نکلتا اور شپ سر کے بَل نیچے کی طرف جُھکتا۔اوہ!

ساحلِ سمندر پر دلکش مناظر: میں حدِ نظر تک سمندر کا انتہائی صاف ہلکے نیلے رنگ کا پانی جس میں خوبصورت مچھلیاں بھی تیرتی نظر آتی ہیں۔ سمندر میں نہاتے اور تیز لہروں سے لُطف اندوز ہونے والے بڑے بوڑھے اور بچے ،موٹر بوٹ، واٹر موٹر سائیکل (جیٹ سکی( کی سیر کرنے والے نڈر نوجوان مرد و خواتین،ناریل کا پانی پیتے اور ساحل کے کنارے آرام کرتے ، چہل قدمی کرتے ہوئے مقامی و غیر ملکی سیاح۔ کچھ نوجوان رگبی کھیلتے نظر آئے۔ایک بوڑھا انگریز پانچ چھوٹے چھوٹے کتوں کو ساحل کی سیر کروا رہاتھا۔ جسکو کو سب خوشگوار حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔

ایک جوان اور خوبصورت گورے میاں بیوی ۔میاں کی آجکل کے اسٹائل کے مطابق گولڈن رنگ کی لمبی داڑھی تھی ۔ بیوی کچھ بھاری جسم کی تھی اور شرارتی بھی زیادہ لگ رہی تھی۔دونوں ساحل پر موجود سیاحوں سے انتہائی دلچسپ انداز میں مذاق کرتے رہے جو سب کو اچھا لگ رہا تھا۔ پھر شام گئے وہ مذاق کرتے ساحلی ریت سے بھرے ہوئے ننگے پاؤں لیئے سامنے بازارکی طرف نکل گئے اور راستے میں بھی موجود لوگوں سے شراتیں کرتے نظر آتے رہے ۔ بس وہاں ہر انداز میں ایک مزہ تھا۔

ابھی بانینا رائڈ اور پیرا شوٹ کے ذریعے پیرا سیلنگ بند تھی کیونکہ چند ہفتے پہلے ایک سیاح پیرا شوٹ کی بیلٹ ٹوٹنے کی وجہ سے گِر کر ہلاک ہو گیا تھا۔

فوکٹ کے چند اہم مقامات کی سیر:کا بھی اس دوران ایک دِن پروگرام رکھا۔ جس کے لیئے ویگن بُک کروائی۔پہلے فوکٹ کے علاقے" کیپ پانوا" میں سمندر کے کنارے پر فوکٹ ایکویریم(مچھلی گھر) گئے۔ پھر شالوم ٹیمپل گئے جہاں گوتم بُدھ کے سنہرے مجسمے پڑے ہوئے ہیں۔ پھر مری طرز کے پہاڑی راستے سے ہوتے ہوئے ایک اونچے مقام پر پہنچے جہاں بِگ بُدھا کے نام سے آسمان سے باتیں کرتا ہوا بہت ہی بڑا سفید رنگ کا مہاتما گوتم بُدھ کا مجسمہ زیرِ تعمیر تھا ۔اُسکو اِن زاویوں سے تعمیر کیا جارہا ہے کہ شہر کے مختلف اطراف سے بھی دیکھا جا سکے اور ویسے مجسمہ دیکھنے کیلئے وہاں پہنچ کر مزید اُوپر بہت سے سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا ہے اور غیر ملکی سیاح ایسا کرتے بھی ہیں۔

اس جدید دور میں کہیں بھی سفر پر جانے سے پہلے ایک فائدہ یہ تو ہو گیا ہے کہ سیاح انٹر نیٹ پر اُس ملک، شہر و مقام کے بارے میں جتنی چاہے معلومات حاصل کر سکتا ہے ۔ لیکن یہ بھی دِلچسپ ہے کہ وہاں پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ پر معلومات کے ساتھ وہاں کے ہوٹلوں، مقامات اور مختلف دیکھنے اور سیر کرنے والے زیادہ تر مناظر اشتہارات تک ہی پُر کشش ہوتے ہیں اور بعدازاں اُن پر خرچ کی جانے والی رقم پیسوں کا ضیاع ہی ہو تا ہے۔

بِگ بُدھا سے واپسی پر راستے میں " ایلی فنٹ (ہاتھی)رائڈ" کا تجربہ بھی اُن میں سے ایک رہا۔جب چند ساتھیوں نے ضد کے ساتھ چھ سو باتھ فی فرد یعنی1920روپے ادا کر کے آدھے گھنٹے تک ہاتھی پر بیٹھ کر جنگل کی سیر کی اور واپس آکر نقاہت سے مُنہ چڑھایا۔ایک کے تاثرات تھے یہ رائڈ صرف اُنکے لیئے ہے۔۔۔پھر وہ بھی خاموش ہو گیا۔

اس کے بعد وہاں کی سرکس جس کی ٹکٹ فی سترہ سو باتھ تھی دیکھنے کا پروگرام منسوخ کر دیا۔ گو کہ وہاں کے ٹور آپریٹرز کے مطابق وہ دیکھنے کے قابل ہے اور یقیناً ہو گی بھی ۔ باکسنگ کا وہاں بڑ اچرچا رہتا اور مقابلے والے دِن گاڑی پر سارا دِن اعلان کیا جاتا ہے۔ رات کو اُنکے مقامی چینل پر لائیو دیکھی جا سکتی ہے۔ویسے بھی ہوٹل کے ہر کمرے میں ایل سی ڈیز لگی ہوئی تھیں۔لیکن پروگرام تھائی زبان میں نشر ہوتے ہیں سوائے چند انگریزی چینلز کے۔

مساج سینٹرز اور رات کی رونقیں:دِن کی روشنی میں گھوم پھرنے کے بعد وہاں ہر کوئی شام کے وقت واپس ہوٹل آنے کو ترجیع دیتا ہے ۔کیونکہ کچھ آرام کیا جائے یا ہوٹل کے سوئمنگ پول میں تیراکی کا مزہ بھی لیا جائے یا وہاں پر مساج سینٹرز سے بھی استفادہ حاصل کرکے دِن بھر کی تھکان اُتاری جائے۔

بعدازاں پیٹونگ کی رات کے خوبصورت جلوے دیکھنے کا پروگرام بنایا جائے۔لہذا یہ ترتیب ہر رات کو رہی پہلے کوئی آرام کرتا اور کوئی سوئمنگ اور پھر تیار ہو کر بنگلہ سٹریٹ میں رات کی رنگینی ،میکڈونلڈو اسٹار بکس اور مختلف سنیک بارز میں سیاحوں کا رَش،موسیقی کے مست کر دینے والے سُروں پر جھومتے ہوئے نوجوان لڑکے لڑکیاں سب دیکھنے کے لائق ہو تا ۔کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے وہاں یہ روز کی ترتیب یا معمول ہے۔

پیٹونگ کے ہوٹل میں آخری رات:ایک کمرے میں اکٹھے ہو کر فوکٹ میں گزارے ہو ئے لمحات کی فوٹوز،سیلفیز دیکھنے بیٹھ گئے اور یادوں پر کچھ ایسے تاثرات بھی دیئے۔ مثلاً:
ایک نے کہا غور کیا جائے تو فیملی کی شکل میں زیادہ سیاح فوکٹ آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ لہذا شاید اِس رحجان کی وجہ سے اس دفعہ فوکٹ میں ماحول بہت بہتر نظر آیا ہے۔اصل میں وہاں کے مقامی جان گئے ہیں کہ فیملیوں کے آنے سے بازاروں کی رونق بڑھتی ہے اور کاروبار میں اضافہ بھی ۔

ٹوراِزم کے فروغ کیلئے تھائی حکومت غیر ملکی سیاحوں کیلئے مزید بہتر اور جدید سہولتوں میں اضافے کو ترجیع دے رہی ہے۔ساتھ میں بازاروں اور سمندر سے ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا انتظام بھی بہتر کر دیا گیا ہے اور لوکل ٹرانسپورٹ کیلئے کرائے کی ایک حد مقرر کر کے ٹریفک کو ون وے کے اصول پر رواں رکھا ہوا ہے۔اسی لیئے وہاں کرائے پر جو موٹر سائیکلیں ملتی ہیں اُن پر مقامی کے علاوہ غیر ملکی بھی ٹریفک کی خلاف ورزی کرے تو تھائی ٹریفک پولیس اُس کا چالان کردیتی ہے۔ بس موٹر سائیکل یا کوئی بھی وہیکل چاہے پانی کا ہو کرائے پر لیتے وقت یہ خیال رہے کہ وہ انشورڈ ہو ۔ورنہ ذرا سا بھی نقصان ہو جائے تو مالک کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔یا پھر پولیس کیس کا سامنا۔

تھائی لینڈ اور خصوصی طور پر فوکٹ کے لوگ بہت اچھے خلوص سے ملنے والے منکسر المزاج ہیں۔ ہاں 2004ء کے سونامی کا ذکر بہت کیا جاتا ہے۔ چاہے دوکاندار ہوں یا ہوٹل والے یا ڈرائیور ،ٹور آپریٹرز۔آنکھوں دیکھا حال سُناتے ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کا ذکر بہت دردِدِل کے ساتھ کرتے ہیں۔ کرسمس سے اگلے دِن آیا تھا یعنی ٹرو والے دِن جسکو کرسچن " باکسنگ ڈے" کہتے ہیں۔چلو اب سوتے ہیں نیند بھی باکسنگ کر رہی ہے۔
 
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341807 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More