تحر یک انصاف کو بنے 21سال ہوگئے ہیں جس کی سربراہی عمران
خان کررہے ہیں ۔ 21سال پہلے عمران خان کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا
اور نہ ہی ان کو سیاست میں کوئی دلچسپی تھی بقول عمران خان کے کہ میں نے
کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں سیاست میں حصہ لوں گا اور سیاست دان بنوں گا
لیکن اﷲ تعالیٰ کو کوئی آور ہی منظور تھا کہ میں نے سیاست میں حصہ لینے کا
فیصلہ کیا ۔ عمران خان نے جب سے سیاست میں قدم رکھا جیسا کہ ظاہر ہے کہ
انہوں نے اپنی پارٹی کانام تحریک انصاف یعنی عوام کو انصاف دینے کی تحریک
شروع کی جس کا بنیادی مقصد ایک ہی تھا کہ ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو جائے
اور امیر اور غریب کیلئے ایک ہی قانون کا نفاذ ممکن ہوجائے جس کیلئے اداروں
کو آزادی اور خودمختار دینے کی ضرورت ہے۔
1996میں جب تحریک انصاف بنی جس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو نظریاتی
یعنی اس مشن کو آگے لے جانے والے تھے ، اس وقت الیکشن بالکل سر پر تھے ،پیپلز
پارٹی کو حکومت سے کرپشن پر ہٹا یا گیا تھا جب مسلم لیگ بھی اس پہلے کرپشن
پر فارغ ہوچکی تھی لیکن باوجوداس کے ان دونوں پارٹیوں میں ہی مقابلہ ہوا
کرتا تھا ۔ اس وقت میاں نواز شریف نے غالباً 20قومی اسمبلی کے سیٹ دینے کی
آفر عمران خان کو کی جبکہ قومی اسمبلی کی نشستیں آج کے مقابلے میں بہت کم
تھی اس میں بیس سیٹیں بہت زیادہ تھی لیکن عمران خان نے میاں نواز شریف کی
اس آفر کو ٹھکرا دی کہ میں سیاست میں آپ لوگوں کے خلاف آیا ہوں تاکہ آپ
لوگوں کی کرپشن اور نااہلی کو بے نقاب کر دوں ، یہ بھی نہیں تھاکہ آج کی
طرح پی ٹی آئی مقبول جماعت تھی بلکہ بالکل نئی اور الیکشن سے چند ماہ پہلے
بنائی گئی تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں پی ٹی آئی کوئی نشست
حاصل نہ کرسکی اور عمران خان بھی اپنی نشست ہار چکا تھا ۔ کیوں کہ آج کی
طرح اس وقت بھی الیکشن لڑنا انتہائی مشکل کام تھا۔عمران خان کے اس فیصلے
اور ہار کو دیکھ کر ناقدین یہ کہتے تھے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی میں
سیاسی ناقدین کی بات نہیں کرتا بلکہ میں ان پڑھے لکھے لوگوں کی بات
کررہاہوں جو سسٹم کے خلاف عمران خان کو سپورٹ کرتے تھے یا سپورٹ نہیں تو کم
از کم ہمدردی کی بنیاد پر یہ کہتے آرہے تھے جبکہ سیاسی ناقدین تو آج بھی
عمران خان کا مذاق اڑ رہے ہیں کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی جس میں حقیقت
بھی ہے کہ جس قسم کی سیاست پاکستان میں ان 70سال میں ہوئی ہے وہ سیاست
عمران خان کو شروع ہی سے نہیں آئی ہے اور نہ ہی اب آتی ہے۔ عمران خان اس
وقت الیکشن میں مکمل ناکامی کے بعد گھر جا کر بیٹھ جاتے اور جس طرح پہلے
عیش وعشرت سے زندگی گزرتے دوبارہ وہ شروع کرتے یا اپنی بیوی جمائمہ کی بات
مان کر لندن چلے جاتے وہاں پر سیاست کرتے اور جس طرح دوسرے پاکستانی کرتے
ہیں ،برطانیہ کا وزیراعظم بن جاتے لیکن عمران خان ان ناکامیوں کومایوسی میں
تبدیل نہیں کیا اور نہ ہی وہ کسی مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے
بلکہ جب اس وقت عمران خان سے کسی صحافی نے سوال کیا تو عمران خان کا جواب
یہ تھا کہ میر ا ووٹر ابھی چھوٹا ہے ان کی عمر اب کم ہے ،میں انشاء اﷲ ان
کرپٹ مافیا کا مقابلہ کروں گا اور پاکستان کوعلامہ اقبال اور قائد اعظم کا
پاکستان بنوؤں گا جہاں پر قانون کی حکمرانی ہوگی ، امیر وغریب کے لئے یکساں
نظام ہوگا۔
عمران خان پر آج تنقید ہوتی ہے کہ ان کو سیاست نہیں آتی حالانکہ وہ پاکستان
کا واحد سیاسی لیڈر ہے جنہوں نے سیاست پڑھی ہے اور اٹھارہ سال مغرب کا
سیاسی نظام دیکھا ہے ۔ ہماری ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں پر سیاسی
پارٹیاں اور جمہوریت برائے نام ہے ۔ عمران خان نے نہ صرف اس نظام کو تبدیل
کرنے کا بیڑا اٹھایا بلکہ ان تمام برائے نام جمہوری اور سیاسی پارٹیوں کے
خلاف مسلسل جدوجہد اور آواز بلند کی جس کا نام بے وضولینا بھی گناہ سمجھا
جاتا تھا ۔ عمران خان نے ان سب کو بے نقاب کیا ، پاکستان کی سیاسی اور
جمہوری نظام جو برائے نام تھا اس کو حقیقی معنوں میں رائج کرنے کی کوشش آج
بھی کررہا ہے ۔ عمران خان نے نے صرف سیاسی سٹیٹس کو کو للکار بلکہ بڑے بڑے
اداروں میں بیٹھے سٹیس کو کی سپاہیوں کو بھی نہیں چھوڑا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان نے ان سٹیٹس کو سیاستدانوں کی سیاست ہی ختم
کردی جبکہ میڈیا میں اور ان دانشوروں کو قوت اور طاقت دی جو سچ بول اور لکھ
سکھیں جو پہلے ناممکن تھا ۔ انہوں نے الطاف حسین کے خلاف اس وقت آواز بلند
کی جب کوئی میڈیا پرسن یا سیاست دان ان کا نام اچھے معنوں میں بھی پوچھ کر
لیا کرتے تھے جبکہ اسی طرح میاں برادارن اور آصف زرداری کے بارے میں حقائق
بیان کرنا اپنی موت کو دعوت دینا دی۔ ہمارے مذہبی رہنما مولانا فضل الرحمن
کے کرسی والی سیاست کے بارے میں کسی کو جرات نہ تھی کہ وہ بات کرسکیں ۔ان
کے ورکر وں کے پاس اتنے فتوے موجود ہوتے تھے کہ شاید اتنے فتوے کتابوں میں
بھی نہ ہو۔
بحیثیت صحافی اور سیاسی طالب علم کے مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ہمارے سیاست
دان جو سیاست دان اور جمہوری ورکر سے زیادہ لوٹ مار اور جوڑتوڑ کو سیاست
سمجھتے ہیں عمران خان کو سیاسی نابالغ اور معلوم نہیں کہ کن کن القابات سے
نوازاتے ہیں ۔ آج ہر جگہ عمران خان ہی ڈسکس ہورہے ہیں ۔انہوں نے پاکستان
میں تبدیلی کی اینٹ رکھ دی ہے اگر ہمارے ان سیاست دانوں نے اپنی سیاست کو
تبدیل نہ کیا تو مجھے ڈر ہے کہ ان سیاست دانوں کانام ہی ختم ہوجائے گا ۔
کرپشن اور لوٹ مار کانظام تو اب ملک میں نہیں چل سکتا لیکن ایسی سیاست بھی
نہیں چل سکتی جو آج تک ہمارے سیای جماعتیں عوام کو بے وقوف بنانے اور لوٹ
مار میں کررہے تھے ، جہاں پر میرٹ اور قانون کی بالادستی ان کے خاندان کے
ارد گرد ہی گھومتی رہی ہے۔
عمران خان کو واقعی ملک میں موجودسیاست نہیں آتی جہاں سیاست کامطلب ایک ہی
ہے کہ اپنے بچوں اور خاندان کو آگے لائیں اور پیسہ بنائے ۔ جو بھی کرپشن
اور لوٹ مار کرتا ہے ان کا احتساب نہیں بلکہ حصہ مانگا کرحساب برابر کرنا
سیاست ہے جہاں پر چور اور ڈاکو کو چور اور ڈاکو نہیں بلکہ ایک اچھا مدبر
اور سیاست دان کہا جاتا ہے، جہاں جمہوریت کامطلب اقتدار ہو وہاں عمران خان
کو یہ سیاست واقعی نہیں آتی ۔ عمران خان نے مغرب میں سیاست دیکھی ہے جہاں
آج امریکا کا سابق صدر اوباما صدرات سے فارغ ہونے کے بعد نوکر کرتا ہے جہاں
میاں برداران کی طرح چار سال میں صرف اپنی سکیورٹی پر ملک کے سات ارب روپے
خرچ نہیں کیے جاتے ۔ جہاں سیاست کانام کرسی اور اقتدار نہیں بلکہ اصولوں
کانا م ہے وہی سیاست عمران خان کررہا ہے جو پاکستان میں کرنا بدنامی اور
جرم بن دیا گیا ہے۔ عمران خان کا مقابلہ ہمارے سیاستدان حقیقی جمہوری
پالیسیوں کو آپنا کر ہی کرسکتے ہیں جو مشکل نظر آتا ہے کہ سٹیٹس کو کہ یہ
جماعتیں اس کیلئے تیار نہیں ہوں گی۔
|