اورنگی ٹاؤن کی عارفہ اور اسکی دردناک کہانی فلم اور کچھ
زندہ حقائق کی شکل میں آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں۔مرکزی کردار کو
کیموفلاج کرکے اپنے حریف پر دھاک بٹھانے کے لیے عارفہ فلم کی تمام تر فنڈنگ
ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی نے کی تھی۔22اگست کو ایم کیو ایم
پاکستان کی ایم کیو ایم لند ن سے لاتعلقی کے باوجود علی رضا عابدی کا
28اگست کو فاروق ستار کے پہلو میں بیٹھ کر الطاف حسین کو قائد تحریک لکھنا
اور ان کے لیے ہمدردانہ رویہ اپنانا یہ واضح کرتا ہے کہ ایم کیو ایم لند ن
اور ایم کیو ایم پاکستان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ چند ماہ قبل جب الطاف
حسین نے پاکستان، فوج اور ایجنسیوں کے مخالف نعرے لگائے تو اس وقت کراچی
پرست الطاف حسین پرگھیرا تنگ کر دیا گیا۔ اورکراچی آپریشن کی بدولت ریاست
کے تقریباََ سبھی ا سٹیک ہولڈرز نے الطاف حسین کو غدار وطن ہونے کا
سرٹیفیکٹ دے دیا اور اس سے تعلق رکھنے والے ہر شخص، رہنما ، انچارج اور
مافیا کی پکڑ دھکڑ شروع کردئی گئی جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ تھم گئی۔اس پر
کچھ معصومانہ سوالات ہیں ؛کیا کراچی میں امن کو دیر پا بنیادوں قائم کیا
گیا یا کسی خاص پالیسی کے تحت کراچی کی روشنیوں کو کچھ خاص وقت کے لیے بحال
کیا گیا ؟کیا الطاف حسین کے پاکستانی رہنماؤں سے رابطے منقطع ہو گئے ہیں؟
کیا کراچی کے تمام زعماء ، رہنما اور اور سیکٹر انچارجز الطافی تعویز لینے
سے تائب ہو گئے ہیں؟کیا کراچی کے عوام کے دلوں سے الطاف حسین کادونمبر
مسیحائی روپ اوراس کے لیے محبت نکالی جاسکی ہے؟ کیا چائنہ کٹنگ ، سانحات
12مئی اور بلدیہ فیکٹری کے نامزد ملزمان کو قرار واقعی سزا ملی ہے؟ ۔ اگر
تمام تر سوالات کے جوابات اثبات میں ہیں تو پوری قوم ، حکومت اور قانون
نافذ کرنے والے ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر
یہ افسوسناک حقیقت حال ہے کہ مائنس الطاف فارمولا چلا کر باقی تمام مافیا
کو پاکستانی ہونے اور اخلاقی درجے کے اعلی مراتب پر فائز ہونے کا عارضی و
جزوقتی سرٹیفیکیٹ دے دیا گیا۔خبر ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے ایم کیوایم
لندن کے سربراہ الطاف حسین کو ندیم نصر ت کے ذریعے لند ن پارٹی چلانے کے
لئے 50لاکھ پاؤنڈز بھیجیں ہیں۔ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم اب بھی
متحدہ قومی موومنٹ کا نام ہے چاہے پاکستان ہو، لند ن ہو ، حقیقی ہو، پی ایس
پی ہو یا کوئی دوسری شاخ سب کے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور وقت آنے
پر سب ایک تھالی میں کھائیں گے کیوں کہ ان سب کا ماضی، مشن اور کام کرنے کا
انداز ایک ہے ۔خبردار کہ اب ایم کیو ایم پاکستان خفیہ مدد لیکر پھر سے
لسانی بنیادوں پر مہاجر اور پختون کی دیوارکھڑی کرنا چاہتی ہے جس کا
پاکستان اور بالخصوص سی پیک اور کراچی آپریشن متحمل نہیں ہوسکتا۔سول و
ملٹری لیڈر شپ کو مستقل کراچی آپریشن پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے اسے اندرون
سندھ اورپھر باقی صوبوں تک بھی بڑھانے پر بلاشرکت غیرے اتفاق کرنا ہوگا
وگرنہ صرف کراچی کا احتساب ایسی سوچی سمجھی زیادتی ہے جسے کراچی کے عوام
بھی سمجھتے ہیں۔
بے یقینی اوردھند کی کیفیت ہر سوپھیلی ہے اور بات چل نکلی ہے لند ن گیم
پلان کے مضمرات کی ۔مسلم لیگ کا میڈیا سیل کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کے بعد
سینئر لیڈر شہباز شریف ہوں گے اور وہی جنرل الیکشن میں عمران خان کا مقابلہ
کرینگے ۔کچھ صحافتی ذرائع سے اس بات کی وضاحت ہوئی ہے کہ اس بار نواز شہباز
اور شاہد خاقان عباسی کی لندن بیٹھک نواز شریف پر نیب کیسز، پیشیوں اور
آمدہ وزیراعظم کے امیدوار کے لے شہباز شریف کا نام فائل کرنے کے حوالے سے
ہوئی۔شنید ہے کہ ایک عجیب سا این آر او ہونے جارہا ہے جس میں نواز اینڈ
فیملی کو سیف ایگزٹ دے کر شہباز شریف کو مرد میدان بنایا جائے گا۔ اگر
حالات نواز اینڈ فیملی سے وفا نہیں کرتے اور جلد منظرنامہ شہباز شریف کے
لیے کلیئر ہو جاتا ہے تو پھر شہباز شریف پوری قوت اور تندہی کے ساتھ عمران
خان کا مقابلہ کرپائیں گے۔ جنرل الیکشن کے لیے شہبازو عمران کا پانامہ کی
دھول مٹی سے نکلنا ضروری ہوگا کیونکہ حالات کے بے رحم تھپیڑے انہیں
باالترتیب لند ن فلیٹ ،شوکت خانم فنڈنگ کیس اور حدیبیہ پیپرزاور ماڈل ٹاؤن
کے پل صراط سے گزارنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ خیر الیکشن 2018میں تکڑا
مقابلہ متوقع ہے کیوں کہ عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہیں اور شہباز شریف کے
مقابلے میں زیادہ فیمس ہیں تاہم شہباز شریف الیکشن مکینزم اور الیکشن لڑنے
کے طریقہ واردات سے خوب آشنا ہیں۔
صورتحال اس وقت بھی بڑی دلچسپ ہوسکتی ہے کہ اگر عدالت شہباز وعمران دونوں
کو نااہل قرار دے اور پھر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو وزیر اعظم کے
امیدوار کے لیے نئے چیلنج کاسامنا ہوگا۔مک مکا کی سرگوشیوں میں نیب کو ختم
کر کے احتساب کمیشن کا قیام خوش آئیندلیکن اس احتساب کمیشن سے ججز اور
جرنیلوں کو مبراقرار دینا حماقت ہوگی۔ بہرحال سیاسی مطلع ابرآلودرہے گا ،دھند
چھٹے گی یا خدانخواستہ سیاہ بادلوں کا راج ہو گا ،کچھ بھی کہنا قبل از وقت
ہے۔
|