ایک زمانہ تھا جب ہماری قومی ایئرلائین (پی آئی اے)
ہمارا فخر وغرور تھا۔ اِس ایئرلائین کا نعرہ ’’با کمال لوگ ،لاجواب سروس‘‘
ہوا کرتا تھا اور یہ دنیا کی بہترین ایئرلائینز میں شمار ہوتی تھی۔ یہ وہی
ایئرلائین ہے جس کے ماہرین کی تربیت کے زیرِاثر ایمرٹس ایئرلائین نے ترقی
کی منازل طے کیں۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی ہمیشہ اپنی قومی
ایئرلائین ہی کا انتخاب کیا کرتے تھے لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا یہ
فخر ،یہ غرور تباہی کے دہانے پر ہے اور مسافروں کی پہلی چھوڑ دوسری تیسری
ترجیح بھی پی آئی اے نہیں۔
پاکستان سے بین الاقوامی روٹس پرایمرٹس کی روزانہ پندرہ پروازیں جاتی ہیں
جو اربوں ڈالرز کما رہی ہیں جبکہ ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ براستہ مانچسٹر
نیویارک جانے والی پی آئی اے کو سالانہ 2 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا تھا جس
کی بنا پر نیویارک کے لیے یہ پروازیں بند کر دی گئیں۔ مشیر برائے شہری
ہوابازی سردار مہتاب عباسی نے کہا کہ اِس ادارے کی بہتری حکومت کی پہلی
ترجیح کبھی نہیں رہی۔ اب سردار صاحب طیاروں کی اَپ گریڈیشن اور تزئین
وآرائش کی نوید سنا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ محض کاغذی کارروائی تک
ہی محدود رہے گا۔ وجہ اُس کی یہ کہ ہم پی آئی اے کے سربراہان سے ہمیشہ ایسے
ہی وعدے اور دعوے سنتے آ رہے ہیں جن پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ
’’ہر کہ آمد ،عمارتِ نَو ساخت‘‘ کے مصداق جو بھی آیا ،وہی زبانی کلامی
وعدوں پہ ٹرخا کے چلتا بنا۔ جس ایئرلائین کو اب تک 400 ارب روپے سے زائد
خسارہ ہو چکا ہو اورصرف 2016ء کا خسارہ 40 ارب سے زائد ہو جائے ، بد
انتظامی کا یہ حال ہو کہ اُس کا اے تھری ٹین طیارہ پی آئی اے کا سابق جرمن
نژاد سی ای او فروخت کرکے چلتا بنا ہو ،اُس کی بہتری کے لیے انقلابی قدم
اٹھانے کی ضرورت ہے جو حکمرانوں کے بس کا روگ نہیں کیونکہ پاکستان میں
عشروں سے ’’کُرسی‘‘ کی جنگ جاری ہے اور سیاستدانوں کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ
وہ ایسے اداروں پر توجہ دے سکیں۔ ہمارا آزاد اور بے باک میڈیا بھی ’’گوڈے
گوڈے‘‘ سیاست کے گدلے تالاب میں اتر چکا ہے ۔ ہر روز ٹاک شوز میں
’’ارسطوانِ دہر‘‘ نِت نئی سیاسی موشگافیاں کرتے اور چائے کی پیالی میں
طوفان اٹھاتے نظر آتے ہیں لیکن اداروں کی تباہی پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔
پچھلے دنوں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سیکرٹری ایوی ایشن نے یہ مزاحیہ بیان
دیا کہ طیارے کا صرف ڈھانچہ فروخت کیا گیا ہے ،انجن نہیں۔ گویا طیارے کا
ڈھانچہ جرمنی تک پہنچانے کے لیے اُس کا انجن بھی ساتھ بھیج دیا گیا ۔ سوال
یہ ہے کہ اگر وہی انجن طیارے کو اُڑا کر جرمنی تک لے گیا تو پھر اُسے فروخت
کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اگر وہ طیارہ بین الاقوامی پروازوں کے قابل
نہیں تھا تو اُسے اندرونِ ملک پروازوں کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا تھا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سیّد خورشید شاہ نے سیکرٹری ایوی ایشن سے
سوال کیا کہ وہ انجن کیسے واپس آئئے گا تو اُن کے پاس اِس کا کوئی جواب
نہیں تھا، حالانکہ جواب تو سیدھا سادا تھا کہ طیارہ ڈھانچے سمیت ہی واپس
آئے گا، ظاہر ہے کہ اکیلا انجن تو پرواز نہیں کر سکتا۔ سیکرٹری ایوی ایشن
یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ طیارہ کتنے میں بیچا ، کِس کو بیچا اورکیوں
بیچا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اُس طیارے کی قیمت اتنی ہی ظاہر کی جا رہی
ہے جتنی ایک سیکنڈہینڈ لگژری کار کی ہوتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ طیارہ ،جس
کی قیمت کا اتاپتا ہے نہ خریدار کا، وہ یقیناََ اغوا کرکے لے جایا گیا ہے ۔
شاید اِسی لیے سیّد خورشید شاہ نے اُس وقت کے چیئرمین پی آئی اے کا نام ای
سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی ہے۔ حکومت کو اِس امر کی بھرپور تفتیش کرنی
چاہیے کیونکہ یہ ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
معزز قارئین ! جب کوئی خاندان نانِ جویں کا محتاج ہو جاتا ہے تو وہ آتشِ
شکم کی سیری کے لیے گھریلو سامان بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ
حال قومی ایئر لائین کو بھی درپیش ہے۔ پہلے بین الاقوامی روٹس پر 28
پروازیں ہواؤں کا سینہ چیرتی تھیں اور اِن میں سے اکثر روٹس براہِ راست ہوا
کرتے تھے لیکن پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ پہلے براہِ راست کی بجائے ایک سٹاپ
کا اضافہ کیا گیا اور اُس کے بعد اِن روٹس کو بند کرنے ہی کی نوبت آگئی ۔
قرضے ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ پہلے قرضے اترنے کی کوئی سبیل نظر
نہیں آتی لیکن نئے قرضے دھڑادھڑ لیے جا رہے ہیں۔ اب تک قومی ایئرلائین تین
اعشاریہ سولہ ارب ڈالر کی مقروض ہو چکی ہے۔ شاید یہی دگرگوں صورتِ حال
دیکھتے ہوئے حکومت نے اِس کی نجکاری کا فیصلہ کیا لیکن جنوری 2017ء میں
ملازمین کے شدید احتجاج پر یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ عرض ہے کہ نجکاری
کوئی حل نہیں، یہ تو بھوکوں مرتے گھریلو سامان بیچنے کے ہی مترادف ہوا۔ اِس
کا یقیناََ کوئی قابلِ عمل حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ریلوے کی
حالت پی آئی اے سے بھی بری تھی اور اُس کی نجکاری کا بھی غلغلہ تھا ۔جب
میاں نوازشریف نے ریلوے کی وزارت خواجہ سعدرفیق کے سپرد کرنی چاہی تو خواجہ
صاحب نے یہ شرط رکھی کہ اُن کے دَور میں ریلوے کی نجکاری نہیں کی جائے گی۔
آج ،چار سالوں بعد صورتِ حال یہ ہے کہ ریلوے منافع میں تو نہیں جا سکی لیکن
خواجہ سعد رفیق کی کوششوں اور کاوشوں سے اُس کے خسارے میں قابلِ ذکر حد تک
کمی ہو چکی ہے۔ ہمارا موجودہ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی سے سوال ہے کہ اگر
اُن کی ملکیتی ایئرلائین ’’ایئربلیو‘‘ اربوں کما رہی ہے تو قومی ایئرلائین
کیوں نہیں؟۔ اب تو وہ ہمہ مقتدر ہیں تو کیا ایئر بلیو جیسا انتظام وانصرام
پی آئی اے میں نہیں ہو سکتا؟۔
حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے ریلوے اور سٹیل مِل جیسے اداروں کی بربادیوں کی
داستانیں خود سیاسی رہنماؤں نے رقم کی ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہیں
سیاستدانوں نے سیاسی بھرتیوں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ آج صورتِ حال یہ ہے
کہ جہاں دنیا میں ایک جہاز پر 60سے 70 ملازمین بھرتی کیے جاتے ہیں ،پی آئی
اے کا ایک جہاز 570 ملازمین کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ اِس وقت پی آئی اے
کے ملازمین کی تعداد 18 ہزار اور طیارے صرف 32 جن میں سے کئی لیز پر ہیں۔
اِن اٹھارہ ہزار ملازمین کی روزی چھیننا نہ تو کسی صورت میں مستحسن ہے اور
نہ ہی کوئی بھی حکومت پی آئی اے کی نجکاری کا قدم اُٹھانے کی جسارت کر سکتی
ہے۔ اِس کا بہترین حل یہی ہے کہ پی آئی اے کی باگ ڈور ایسے مخلص ،ایماندار
اور محبِ وطن لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو انتظامی صلاحیوں سے مالامال ہوں اور
اُن میں کچھ کر گزرنے کی اُمنگ جواں ہو۔ اِس کے علاوہ طیاروں کی تزئین
وآرائش اورگراؤنڈ کیے گئے طیاروں کی اوورہالنگ پر بھی توجہ دی جائے لیکن
اشد ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ پی آئی اے کے فلیٹ میں طیاروں کا اضافہ کیا
جائے خواہ وہ لیز پر ہی کیوں نہ لیے جائیں۔ یہ تو طے ہے کہ خواہ انتظام
وانصرام بہترین ہی کیوں نہ ہو ،ایک طیارہ کسی بھی صورت میں 570 ملازمین کا
بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ |