برصغیر (پاک وہند) میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا
بیج بونے اور محبت کے ذریعہ اسلام کو روشناس کرانے میں علمائے دین اور
بزرگان دین نے اہم کردار اداکیا۔ ان بزرگان دین نے محبت سے لوگوں کو اپنا
گرویدہ بنایا اور انہیں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے راستے سے روشناس کروایا۔ ان
کے قلوب عشق الہٰی سے زندہ تھے۔ اس فانی دنیا سے پردہ کرجانے کے بعد بھی وہ
لوگوں کے دلوں میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ راج کرتے ہیں۔ ان بزرگان دین میں
ایک بڑا نام داتا گنج بخش علی ہجویری جلابی ثم لاہوری علیہ الرحمہ کا ہے۔
داتا گنج بخش علی ہجویری کا اسم مبارک ’’علی‘‘ کنیت ’’ابوالحسن‘‘ اور لقب
’’داتا گنج بخش ‘‘ ہے۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں ۔401ھ یا 402ھ میں اپنے
ننھیالی گاؤں غزنی میں پیدا ہوئے۔آپ کا شجرہ نسب ’’سید ابوالحسن علی ہجویری
بن عثمان بن علی بن عبدالرحمن بن عبداﷲ بن ابوالحسن علی بن سید حسن اصغر بن
زید بن امام حسن مجتبیٰ بن امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ
الکریم ورحمہم اﷲ تعالیٰ اجمعین ‘‘ہے۔
آپ کے والد ماجد سید عثمان جلابی رحمہ اﷲ تعالیٰ بہت بڑے عابد وزاہد ہونے
کے ساتھ ایک جید عالم دین اور عظیم فقیہہ تھے۔ آپ کی والدہ بھی ایک پارسا
خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں اپنے زہدوتقوی اور علم فضل کی وجہ سے ’’تاج
العلماء‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔
علی بن عثمان ہجویریؒ نے چار سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار سے قرآن پاک
کی تعلیم حاصل کی۔ آپ غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے تھوڑے عرصہ میں قرآن
مجید پڑھنے کی سعادت حاصل کرلی تھی۔ والدین سے تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے
بعد آپ نے غزنی شہر کے علاوہ تاشقند، ترکستان، خراسان، توس، نیشاپور،
سمرقند، بخارا، فرغانہ، ماوراء النہر، طبرستان، آذربائیجان، خورستان، سوس،
کرمان، فارس شام، عراق اور بیت المقدس کے سفر کئے اور وہاں کے جید اور
معتبر علماء سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ وہاں آپ نے عربی، فارسی اور دیگر علوم
کو حاصل کیا۔ آپ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
میں نے خراسان میں تین سو علماء سے ملاقاتیں کیں۔ آپ نے اپنے کثیر اساتذہ
کرام میں سے خصوصی طور پر شیخ ابوالعباس احمد اشقانی رحمہ اﷲ تعالیٰ اور
شیخ ابوالقاسم علی گورگانی رحمہ اﷲ تعالیٰ کا بڑے ادب وعقیدت کے ساتھ تذکرہ
کیا ہے۔
سید علی بن عثمان ہجویری سلسلہ جنیدیہ میں حضرت شیخ ابوالفضل محمد بن حسن
جنیدی رحمہ اﷲ تعالیٰ کے دستِ شفقت پر بیعت فرمائی۔ حضرت ابوالفضل ختلیؒ
اپنے زمانے کے جلیل القدر، قرآن وحدیث کے لیے اعلیٰ پائے کے عالم، زہد
وتقوی، متقی وپرہیزگار اور کشف وکرامات میں اپنی مثال آپ تھے۔ داتا گنج بخش
علی ہجویریؒ مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابوحنیفہ کے مقلد تھے آپ نے اپنی
کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ میں امام اعظمؒ کا شمار اجل صوفیاء میں کیا اور امام
الائمہ، شرف فقہاء اور دیگر عظیم الشان القاب سے ملقب کیا ہے۔ یہاں ایک بات
بڑی قابل غور ہے کہ داتا گنج بخش علی ہجویری کے شیخ کامل شیخ ابوالفضل رحمہ
اﷲ حنبلی المذہب تھے جبکہ آپ خود حنفی المذہب تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ
اکابر اولیاٗ امت کے قلوب فقہی اختلافات کے باوجود تعصبات سے پاک تھے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری غزنی میں لوگوں کی تعلیم وتربیت اور عبادت
وریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیرومرشد حضرت شیخ ختلی نے فرمایا ’’اے
فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے اٹھو اور لاہور جاؤ۔ داتا
صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میرے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی
قطبیت لاہور پر مامور ہیں ان کی موجودگی میں اس عاجز کی کیا ضرورت ہے۔ آپ
کے مرشد کامل نے فرمایا کہ ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلا توقف لاہور
روانہ ہوجاؤ۔ چنانچہ1030ء تا 1040ء میں سلطان ناصر الدین کے دور حکومت میں
آپ لاہور تشریف لے آئے۔ جب آپ ایک لمبا سفر کرکے لاہور پہنچے تو اسی صبح
حضرت حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا گیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ
جنازہ شیخ حسین زنجانیؒ کا جنازہ ہے تو بے اختیار آپ کی زبان سے نکلا کہ
’’اﷲ شیخ کو جزائے خیر دے، وہ واقعی روشن ضمیر تھے۔‘‘
لاہور میں سلطان ناصر الدین کی حکومت تھی لیکن یہاں ہندؤ مذہب اور ہندؤ
تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے اپنے کردار اور اعلیٰ
اخلاق سے لوگوں کو اپناگرویدہ بنا لیا۔ آپ نے اپنے حسن اخلاق ، مزاج
کریمانہ اور نگاہ فیض نے لوگوں کو کفر وشرک کی دلدل سے نکال کر ’’راہ حق‘‘
کی طرف گامزن کیا۔ لوگ آپ کے دست حق پرست پر جوق در جوق مشرف بہ اسلام
ہوئے۔
داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ تصنیف پر بھی خصوصی
توجہ دی۔ آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں لیکن اس وقت کشف المحجوب کے سوا
کوئی کتاب نہیں ملتی آپ کی کتابوں میں سے چند ایک کا نام درج ذیل ہے ’’کشف
المحجوب، کشف الاسرار، منہاج الدین، کتاب الفناد، الرعایتہ الحقوق اﷲ، سحر
القلوب، کتاب البیان لاہل العیان وغیرہ ۔
داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے علم ومعرفت کے ہزاروں دیئے جلائے اور آخری دم
تک لوگوں کو کفر وشرک سے نکالنے میں مصروف کار رہے۔ آخر کار 19 صفر 465ھ
بالمطابق 1087ء کو دنیائے فانی کو خیر باد کہہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ
دیا۔ لاہور میں بیرون بھاٹی گیٹ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین
الدولہ نے آپ کا مزار تعمیر کروایا۔ آپ کا مزار اقدس مرکز تجلیات وپناہ گاہ
خلق خدا ہے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزار پرانوار سے عام وخاص فیض پاتے ہیں۔
آپ کے مزار سے بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اﷲ نے فیض پایا اور حضرت بو
علی سینا قلندر پانی پتی بھی یہاں معتکف رہے۔ خاص طور پر سلسلہ چشتیہ کے
مورث اعلیٰ خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی
اجمیری نے کسب فیض کے لیے چلہ کاٹا اور چلہ مکمل ہونے پر فرمایا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما
مصور پاکستان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے داتا گنج بخش علی ہجویری کے
بارے میں فرماتے ہیں
سید ہجویر مخدوم امم
مرقد اوپیر سنجر را حرم
آپ کے مزار اقدس پر انوار وتجلیات کی ایک ایسی بارش برس رہی ہے جس سے تمام
بلاد ہند مستفیض ہورہے ہیں۔ آپ کے مزار پر صوفیاء اور بزرگان دین کے علاوہ
بادشاہوں، حکمرانوں اور تمام شعبہ زندگی کے عوام وخواص کی بہت بڑی تعداد شب
وروز حاضری دیتی ہے اور کسب فیض کرتی ہیں مزار پر روحانی فیوض وبرکات کے
ساتھ ساتھ لنگر کا بھی وسیع اہتمام کیا جاتا ہے اور عرس مبارک کے موقع پر
تین دن دودھ کی سبیل سے زائرین کی تواضع کی جاتی ہے۔
|