مسلم لیگ ن کے رابطے اور پی پی کا آخری آسرا

ملکی نظام چلانا جس قدر پیجیدہ عمل ہے۔اسے چلانے والے اتنے ہی لا پروہ واقع ہوئے ہیں۔وہ اتنی قابلیت نہیں دکھا پارئے جتنی درکارتھی۔وہ اتنے اہل نہ نکلے جتنے ہونے چاہییں تھے۔غالبا اسی وجہ سے نظام چل نہیں پارہا۔معاملات سمٹنے کی بجائے بگاڑ کی طرف مائل ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کی روایتی لڑائی بھی اس قسم کی نااہلی اور نالائقی کا ایک نمونہ ہے۔مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر مبنی یہ لڑائی نان ایشو سے بڑھ کرکچھ نہیں۔اپنی توانائیاں ایشوز پر صرف کرنے کی بجائے اس طرح کے نان ایشوزپر ضائع کی جاتی ہیں۔سیاسی جماعتیں بار بار حکومت اور اپوزیشن میں تو آتی جاتی ہیں۔مگر ان کی سوچ او رسمت میں کچھ فرق نہیں آتا۔آج ایک پارٹی اپنی اپوزیشن سے تنگ ہے۔ اسے بے جا مخالفت پر اتری ہوئی قرار دیتی ہے۔مگر بد قسمتی سے یہی حکومتی پارٹی جب اگلی بار اپوزیشن میں آتی ہے تو اس کا رویہ بالکل اسی اپوزیشن جیسا ہوجاتاہے۔جس سے وہ نالاں تھی۔

ملکی نظام چلانا جس قدر پیجیدہ عمل ہے۔اسے چلانے والے اتنے ہی لا پروہ واقع ہوئے ہیں۔وہ اتنی قابلیت نہیں دکھا پارئے جتنی درکارتھی۔وہ اتنے اہل نہ نکلے جتنے ہونے چاہییں تھے۔غالبا اسی وجہ سے نظام چل نہیں پارہا۔معاملات سمٹنے کی بجائے بگاڑ کی طرف مائل ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کی روایتی لڑائی بھی اس قسم کی نااہلی اور نالائقی کا ایک نمونہ ہے۔مخالفت برائے مخالفت کے اصول پر مبنی یہ لڑائی نان ایشو سے بڑھ کرکچھ نہیں۔اپنی توانائیاں ایشوز پر صرف کرنے کی بجائے اس طرح کے نان ایشوزپر ضائع کی جاتی ہیں۔پی پی کی طرف سے ان دنوں لیگی قیادت کی طر ف سے منت سماجت کرنے کا پراپیگنڈہ کیا جارہاہے۔یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ نوازشریف اور ان کے ساتھی بار بار رابطے کررہے ہیں۔یہ ررابطے نوازحکومت کو درپیش مشکلات کے سبب کیے جارہے ہیں۔پی پی کی طرف سے ہر قسم کے رابطے ختم کردینے کا اعلان کردیا گیاہے۔جناب زرداری اور ان کے برخوردارنے رابطوں پر کافی طنز آمیز ریماکس دیے ہیں۔کہا گیاکہ اب ملاقات تو درکنار فون بھی نہیں سنا جائے گا۔وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اعتراف کیاہے کہ وہ نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان رابطہ کروانے میں ناکام رہے۔انہوں نے پانچ سات دن متواتر آصف زرداری کو ٹیلی فون کیا مگر جواب نہیں ملا۔ایک نجی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے ان کا مذید کہنا تھاکہ آصف زرداری نے ان کے خالہ زاد بھائی اور برادر نسبتی فاروق ایچ نائیک کو اقامہ کیس میں وکالت سے بھی منع کردیا۔

خواجہ آصف کے اعتراف کے بعد دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کا صاف پتہ چل رہاہے۔جتنی زیادہ دوریاں آج پائی جارہی ہیں۔ماضی قریب میں نہ تھیں۔یوں لگتاہے جیسے ایک بار پھر دونوں جماعتیں نوے کی دہائی کی سیاست کی طرف لوٹ آئیں۔ ایک لمبی محازآرائی کے بعد لڑائی لڑائی معاف کرو سوچ پیدا ہوئی تھی۔اعلی قیاد ت نے جب یہ محسوس کیا کہ ان کی لڑائی کا کچھ دوسرے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں۔تو سوچاگیا کہ اب ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی راہ اپنائی جائے۔محسوس یہ کیا گیاکہ یہ لڑائی بھی بالکل بے تکی ہے۔سیاسی قیادت دوسروں کو خوش کرنے کی یہ لڑائی خواہ مخواہ لڑرہی ہے۔دونوں جماعتوں نے دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت سائن کیا۔جس کا لب لباب یہ تھاکہ جمہوریت کے استحکام کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچی جائیں گی۔اپنے معاملات میں دسروں کو ثالث بنانے کی کمزوری دور کی جائے گی۔نان ایشو پرمشتمل باہمی مخالفتوں کو دور کیا جائے گا۔عوامی مینڈیٹ کو دونوں جماعتیں قبول کریں گی۔میثاق جمہوریت پر دونوں بڑی جماعتیں متفق تو تھی۔مگر باہمی اعتمادسازی میں ابھی کئی منزلیں طے ہونا تھیں۔ایک لمبے عرصے تک دونوں طرف سے جو بد اعتمادیاں کی گئیں۔ان کے اثرات جلدی ختم ہونے والے نہ تھے۔میثاق جمہوریت کی منزل بہت دور تھی۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کے سائن کرنے کے بعد اس میثاق کی خلاف ورزی کی ابتدا کی۔انہوں نے جمہوری قیادت پر اعتماد نہ کرتے ہوئے فوجی حکمران سے این آراو کیا۔ان کی ناگہانی موت کے بعد این آراو عملا ختم ہوچکا تھا۔مگر غیرجمہوری قوتوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت این آراو کو ختم نہیں ہونے دیا۔اگر این آر اوختم ہوجاتاتو شاید سیاسی قیادت میثاق جمہوریت کی طرف دوبارہ رجوع کرلیتی۔قصد ااین آر او رکو جاری رکھ کر غیر جمہوری قوتوں نے میثاق جمہوریت کو مذید کمزور کرنے کی سازش کی۔

دونوں جماعتوں کے درمیان ایک بار پھر رابطوں کی اطلاعات ہیں۔مگرپی پی کی طرف سے بے رغبتی نظر آتی ہے۔اس جماعت کی قیادت ایک بارپھر شارٹ کٹ کی طرف مائل نظر آرہی ہے۔اپنی ماضی قریب کی کچھ سالہ بد ترین کارکردگی کے باعث پی پی قیادت کی ہمت نہیں پڑ رہی کہ وہ کوئی جارحانہ انداز اپناسکے۔زرداری دورمیں اس قدر خراب پرفارمنس کا مظاہرہ کیا گیاتھاکہ عام الیکشن میں اسے بد ترین شکست کا سامنا کرناپڑا۔زرداری صاحب نے بجائے پارٹی اصلاح کے لاپرواہی پر مبنی رویہ جاری رکھا۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ اگلے الیکشن سر پر ہیں مگر زرداری صاحب ایک بار پھر خالی ہاتھ میدان میں اتر رہے ہیں۔ان کے پاس عوام کو لبھانے کے لیے کوئی ایشوز نہیں۔اب کوئی معجزہ انہیں اگلا الیکشن جتاسکتاہے۔یا کوئی خفیہ ہاتھ۔پی پی شاید اسی لیے شارٹ کٹ پر ساری توجہ لگائے ہوئے ہے۔پی پی اگر مسلم لیگ ن کی طرف سے کیے گئے روابط کو مسترد کررہی ہے۔تو اس کے پیچھے اس کی اپنی کمزور پوزیشن ہے جو اسے تن کر کھڑے ہونے سے روک رہی ہے۔مسلم لیگ ن نے جس طرح غیر جمہوری قوتو ں کے خلاف میدان سجایا ہواہے۔پی پی کے لیے اس کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونا مشکل ہے۔زرداری صاحب سمیت پارٹی کی قریبا تمام ٹاپ لیڈر شپ کسی نہ کسی معاملے پر احتساب سے گزررہی ہے۔کرپشن۔اور کمیشن کے الزامات ہیں۔کچھ لوگ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔کچھ کے خلاف کیسز شروع کیے جانے کی خبریں ہیں۔ایسے میں بھلا پی پی کی طرف سے سسٹم کے خلاف بغاوت کیوں کر ممکن ہوسکتی ہے۔ پی پی کے پاس آخری سہارہ کوئی غیبی امدادہے۔اگرآج پی پی شارٹ کا یہ رستہ ترک کرتی ہے تو وہ اگلے الیکشن میں بھی خالی ہاتھ رہ جائے گی۔ نوازشریف کے کندھے سے کندھا ملاکر بھلا زرداری صاھب اپنا یہ آخری آسر ا کیوں گنوانے لگے۔ق
Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.