ایک بادشاہ نے ایک عجمی قیدی کو قتل کرنے کا حکم دیا وہ
مایوسی اورموت کے ڈر کی وجہ سے بادشاہ کو اپنی زبان میں گالیاں دینے لگا ،بادشاہ
نے وزیر سے پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے عالم پناہ یہ شخص کہہ رہا ہے حضور ان
رحم دل لوگوں میں سے ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور مخلوق خدا کی خطاؤں سے
درگزر کرتے ہیں بادشاہ یہ سن کر خوش ہوا اوراس نے قیدی کی جان بخش دی پاس
موجود دوسرے بدطینت وزیر نے کہا عالم پناہ یہ ٹھیک نہیں کہہ رہا بلکہ جھوٹ
بول رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس شخص نے بادشاہ سلامت کو برابھلاکہا اورگالیاں
دیں بادشاہ یہ سن کر غصہ میں آگیا اورکہا پہلے وزیر نے جوکہا اس کا مقصد
بھلائی تھا اورجوتونے کہا اس کی بنیاد بدی اورانتشار پرہے داناؤں نے خوب
کہا ہے دروغ مصلحت اْ میز چھوٹ فتنہ خیز سچ سے بہتر ہے ،بہتر مخلص وزراء
کسی بھی پارٹی کے سب سے اہم سرمایہ ہوتے ہیں اگر یہ ہی وزراء آستین کا سانپ
بن جائیں تو پارٹی کا نظام درہم برہم ہوجاتاہے میاں محمد نوازشریف صاحب کو
بھی کچھ ایسے ہی وزراء کا سامنا رہا ہے جن کی طرف چھوٹے بھائی اورسابق
وفاقی وزیر چوہدری نثار احمد نے وفاقی کابینہ کے اجلاس اورپریس کانفرنسز
میں اشارہ کیا ہے قائدحزب اختلاف جناب خورشید شاہ صاحب نے بھی کہا تھا میاں
صاحب کو ان کے آستین کے سانپ ڈس رہے ہیں،یہ بات تمام جہاں دیدہ افراد کہہ
رہے ہیں مگر میاں صاحب اداروں سے ٹکراؤ کی سیاست سے پیچھے ہٹنے کو تیار
نہیں ہیں ،میاں صاحب کے خلاف فیصلہ اس وقت آیا جب ملک کا نظام وانصرام وہ
خود چلارہے تھے اس صورتحال میں اس فیصلے کو سازش سے تعبیر کرنا اندھیرے میں
تیر چلانے کے مترادف ہے عمومی طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہیں کوئی خرابی
ضرورہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے ،مسلم لیگ نواز چارسال سے اقتدار کے
مزے لے رہی ہے ہر بڑے اجتماع میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ ببانگ دھل کیا
گیا مگر اس دعویٰ پر سموگ نے قلعی پھیر دی ہے وزارء جو لوڈشیڈنگ کے خاتمے
کی رٹ لگائے رکھتے تھے ان کے دعوئے کھوکھلے ثابت ہونے لگے ہیں غیراعلانیہ
لوڈشیڈنگ سے عام وخاص بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں ،وزیرقانون راناثناء اﷲ نے
صاف پانی کے منصوبوں میں کرپشن ہونے کا الزا م تسلیم کر لیا ہے اس پرکمیٹی
پہلے ہی بنائی جاچکی تھی کاروائی کاعمل جاری کردیا گیا ہے کیا اصل کردار کو
سامنے لایا جاسکے گا یا اس پربھی کوئی کمیشن بناکر ہوا میں اڑادیا جائے
گاجس طرح عقیدہ ختم نبوت میں ترمیم کے معاملے میں ہوا ،گوڈگورننس بغیرا
حتساب کے ممکن نہیں ہے ریاست کی باگ دوڑ کوئی عام معاملہ نہیں ہے یہ بائیس
کروڑ لوگوں کا معاملہ ہے نظام کی اصلاح کے ساتھ نالائق لوگوں کا بھی علاج
بہت ضروری ہے کیونکہ خود غرض اور خواہش پرست لوگ جمہوری نظام اورریاست
دونوں کے لیے خطرہ ہیں کہا جاتا ہے کہیں ایک نالائق شخص وزیر تعمیرات بن
گیاوہ اتنا نالائق تھا کہ اسے رشوت وصول کرنے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ اس کے
پاس ایک ٹھیکیدار آیا اور ایک فائل پر منظوری کے عوض بیس لاکھ روپے دینے کا
وعدہ کیاوزیر نے آو دیکھا نہ تاوجھٹ سے فائل منگوائی اور اس پر Approvedلکھ
دیا۔ اب فائل منظور ہو گئی مگر ٹھیکیدار کہیں نظر ہی نہ آیا دو چار دن
انتظار کرنے کے بعد وزیر بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کرے؟
اسی اثنا میں اس کے چپڑاسی نے اپنے وزیر کا اُترا ہوا چہرہ اور طبیعت کی بے
کلی دیکھ کر اندازہ لگایا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ وہ وزیر کے پاس آیا اور رازداری
سے کہنے لگاحضور!ہوں تو میں چپڑاسی مگر کافی عرصہ سے یہ وزارت میں ہی چلا
رہا ہوں۔ آپ مجھے اپنی پریشانی کی وجہ بتائیں میں کوئی حل نکال دوں گا۔
وزیر نے بتایا کہ اس طرح میں نے فائل اپروو کر دی ہے مگر اب ٹھیکیدار ہاتھ
نہیں آرہا چپڑاسی نے کہا فائل واپس منگوا لیں وزیر نے کہا اب اس پر کٹنگ کس
طرح کروں؟ چپڑاسی نے کہا جناب پریشان نہ ہوں کوئی کٹنگ نہیں ہو گی فائل
واپس آئی چپڑاسی نے کہا آپ اس Approvedسے پہلے Not لکھ دیں۔ مقصد پورا ہو
جائے گا اور کوئی کٹنگ وغیرہ بھی نہیں ہو گی۔ وزیر نے ایسا ہی کیا۔ اب
ٹھیکیدار کو پتہ چلا تو بھاگا بھاگا آیا اور بیس لاکھ روپے کا بریف کیس
ہاتھ میں تھمادیا۔ اب وزیر پھر پریشان ہوگیا اور پھر چپڑاسی کو بلایا کہ اب
کیا کروں؟ چپڑاسی بولا جناب عرصہ ہوا یہ وزارت میں ہی چلا رہا ہوں۔ آپ نے
فائل پر جہاں Not لکھا ہے وہاں ٹی کے بعد ای لگا دیں۔ یعنی Not کو Note بنا
دیں۔ اب یہ ہو گیا Note Approved۔ وزیر نے ایسا ہی کیا اور من کی مراد پائی۔
شنید ہے کہ بہت سے محکمے وزراء نہیں چپڑاسی چلا رہے ہوں کہ ان کا تجربہ اور
آئی کیو بہت سے وزراء سے بہتر اور زیادہ ہے بڑے قومی ایشوز پر رائے دے کر
واپس لینے کا رواج عام ہے بعض نے تو اپنی ناتجربہ کاری کابرملااظہار تک
کردیا ہے سوال یہ پیدا ہوتاہے ایسے ناتجربہ کاروں کو وزارت دینے کی
کیاضرورت تھی کیا ارضِ پاک میں پڑھے لکھے تجربہ کار وزیرنہیں ہیں یا
جمہوریت میں اہل اقتدار کے لیے قابلیت شرط نہیں ہے کتنی عجیب بات ہے جو لوگ
ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے کریں، ان کا کوئی معیار کوئی پیمانہ نہ ہو، یہ
ایک غیر عقلی بات ہے، لیکن دنیا نے اس کو عقل کے نام پر قبول کرلیا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ جمہوریت کا کمال ہے۔ |