کراچی میں سرد موسم نے کچھ کچھ ہاتھ پیر مارنا شروع ہی
کیے تھے ، خُنُک ہواؤں نے ابھی پوری طرح کراچی شہر کو اپنی لپیٹ میں بھی نہ
لیا تھا ، اس معمولی سے ٹھنڈک نے سیاست میں کھلبلی اور ہیجانی کیفیت پیدا
کردی ۔ میڈیا نواز شریف کی پر عائد فرد جرم ، عدالت میں پیشی اور نواز شریف
کی زہر آلود گفتگو کو بھول بھال کراچی میں ہونے والے ملاپ کے گیت گانے
لگا۔ہونے والے ملاپ کواچھوتا بھی نہیں کہہ سکتے ، اسے غیر متوقعہ بھی نہیں
کہا جاسکتا، یہ ان ہونی بھی نہیں، معجزہ بھی نہیں ، لیکن کچھ ہوگیا ہے
مختلف، جس کی توقع کچھ کچھ کی جارہی تھی لیکن اس قدر جلد، بلکہ یہ کہا جائے
کہ آنن فانن میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے والے ، چن چن کر کیڑے نکالنے
والے اس قدر جلد بغل گیر ہوجائیں گے کسی بھی تجزیہ نگار کو یہ اندازہ نہیں
تھا۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ حلیم کی دیگ کئی دن سے خفیہ جگہ پک رہی تھی
لیکن اس قدر پوشیدہ کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور عین اس وقت جب
کھانے کی میزیں سج گئیں، کھانے کی آواز یں لگیں ، گرما گرم مرغن کھانے سے
پردہ اٹھا تو صحافی، میڈیا ہی نہیں بلکہ سیاسی اور غیر سیاسی لوگ ہیران و
پریشان ہوگئے۔ ماضی کے دوست، ایک تھالی میں کھانے والے، ایک سیاسی رہنما کے
اسیر اور حال کے دشمنوں نے باہمی طور پر مل کر اس دعوت کا اہتمام کراچی
پریس کلب میں کیا تھا۔
کراچی کے سیاسی موسم نے جوں ہی کروٹ لی کئی پاکستان کے میڈیا ہاؤسیز میں
گویا بھوچال آگیا، کئی ٹی وی چینلوں کی دیواریں لرزنے لگیں،صحافی و میڈیا
پرسنز ہیران و پریشان ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کب اور کیسے
ہوگیا، کئی اینکر پرسنز جنہوں نے شب شروع ہوتے ہی کراچی کی اہم سیاسی
جماعتوں کے کئی رہنماؤں کو ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتارنے کا پروگرام
ترتیب دیا ہوا تھا ۔ انہیں فکر دامن گیر ہوئی کہ اب وہ اپنا سیاسی شو کس
طرح ترتیب دیں گے۔ بعض سیاسی جماعتیں اور ان سیاسی جماعتوں کے دوسرے اور
تیسرے درجے کے لیڈر کراچی سے اپنی امیدواری کی امیدیں لگا بیٹھے تھے۔ بعض
سیاسی جماعتیں تو کراچی کو فتح کرنے کی منصوبہ بندی خیالوں میں کرچکی تھیں
ان پر اوس گرگئی۔ وہ تجزیہ نگار جو دونوں جماعتوں کی لڑائی کو کراچی کا
نقصان، کراچی کے باسیوں کا نقصان قرار دے رہے تھے ۔ وہ تاویلیں دیا کرتے
تھے کہ وہ جماعت جو کبھی مضبوط جماعت تھی، سب ایک ہی تھے اب آپس میں لڑ رہے
ہیں نقصان ان کا ہورہا ہے جو انہیں ووٹ دے کر ایوانوں میں بھیجا کرتے تھے۔
ان تجزیہ کاروں نے اب پیترا بدلا ، اب سوال پر سوال کہ کل تک آپ ایک دوسرے
کے آمنے سامنے تھے ، کلب چلائے جارہے تھے، انہیں ایک دوسرے کے خلاف کہے
ہوئے جملے یاد دلائے جارہے تھے۔ وہ باتیں یاد دلائی جارہی تھیں جو دونوں
جماعتوں کے لیڈروں نے ایک دوسرے کے بارے میں کہی تھیں۔ جو پہلے کہہ رہے تھے
کہ انہیں مل کر کراچی کے لیے کام کرنا چاہیے اب اگر انہوں نے یہ فیصلہ کر
لیا چاہیے اپنی مرضی سے کیا ہو یا کسی کے ڈر یا خوف سے، دباؤ میں آکر کیا
ہو یا یہ سوچ کر کہ ہمارا بہتر مستقبل اسی میں ہے کہ ہم باہم مل جائیں تو
یہ کام تو اچھا ہوا اسے اچھا ہی کہنا چاہیے نہ کہ اب ہم اس کے پیچھے لگ
جائیں کہ کل تو آپ ایک دوسرے کے دشمن تھے آج پھر دوست ہوگئے ، اگر ایسا ہوا
بھی تو اچھا ہی ہوا اس میں برائی کیا ہے۔ سیاست تو نام ہی آج کے دوست کل کے
دشمن اور کل کے دوست آج کے دشمن کا ہے۔
یہ ہے سیاست، یہ ہے ہمارے ملک کی سیاسی حکمت عملی، یہ ہے ہمارے سیاست دانوں
کی سیاسی قلابازیاں۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ نا ممکن‘
ممکن ہوسکتا ہے اور ممکن‘ نا ممکن ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں حکومتیں ایسے بدلتی
ہیں جیسے کوئی کوئی کہے کھل جا سم سم تو وہ کچھ ہوجائے جو کہنے والا چاہتا
ہو۔ رات کو سوئے تو حکومت بھٹو صاحب کی ، صبح ہوئی تو جنرل صاحب ہی جنرل
صاحب تھے۔ نواز شریف صاحب جیل سے رات کی تاریکی میں آزاد ہی نہیں ہوئے بلکہ
سعودی عرب کے محلات میں پہنچ جاتے ہیں۔ وزارت اعظمیٰ سے ایسے غائب ہوتے ہیں
کہ جیسے کبھی وزیر اعظم تھے ہی نہیں۔آجکل نواز شریف کا بل بلانا، چلانا،
رونا پیٹنا، مجھے کیوں نکالا، بتاؤ تو سہی مجھے کیوں نکالا۔ ہائے رے تیری
معصومیت، کس قدر بھولے بادشاہ ہیں آپ نا اہل وزیر اعظم صاحب ۔ اب تو آپ پر
تین مقدمات میں فرد جرم بھی عائد ہوچکی ہے۔ اب تو مان جاؤ ، اگر یہی کام
امپائر کی انگلی کے اٹھنے سے ہوا ہوتا تو آپ کی مجال تھی کہ یہ آپ جس قدر
غیر اخلاقی باتیں اداروں کے خلاف کررہے ہیں وہ کرتے۔ اداروں کا تقدس ،
احترام لازم ہے۔ جو کام دوسروں کے ساتھ ہو وہ جائز جو اپنے ساتھ ہو وہ
ناجائز۔ یہی کچھ یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا تھا تو میاں صاحب حلق پھاڑ
پھاڑ کر جلسے میں کہا کرتے تھے کہ پہلے گھر جاؤ ، کرسی چھوڑو، پھر عدالت سے
رحم کی اپیل کرنا، اب کیا ہوا ، اب آپ کے ساتھ یہی کچھ ہوا تو آپ اور آپ کے
درباری مان کر نہیں دے رہے۔ بس کسی طرح بحالی ہوجائے ، اقتدار ہاتھ سے نہ
جائے۔ وہ مل جائے چاہے اس کے لیے زرداری کے سامنے اپنے درباریوں کو کتنا ہی
ذلیل کیوں نہ کرانا پڑ جائے۔ بیک ڈور ڈپلومیسی کی کوششیں جاری ہیں۔ ڈرانے
دھمکانے کا عمل بھی ہورہا ہے ، الغرض ہر ہربہ استعمال ہورہا ہے۔پر بات بن
نہیں رہی ۔
بات کراچی کی سیاسی جماعتوں کے مل جانے کی شروع کی تھی بیچ میں میاں صاحب
آگئے۔ دونوں کیسے گلے ملے، کس نے یہ کام کیا، کس کی بات دونوں نے مانی، وہ
شخص ، شخصیات یا طاقت کونسی ہے جس نے ایک ہی سیاسی کھلاڑی کے ہاتھوں داؤں
پیچ سیکھنے والوں کو ، وہ داؤں پیچ اُسی پر آزمانے کی راہ دکھائی ، اسے ہی
نکال باہر کیا، ویسے اس نے جو کچھ کیاتھا ، جو کچھ کہا وہ اسی لائق تھا۔
ملک اور وطن کے لیے جو الفاظ استعمال کیے اس کے بعد تو گنجائش ہی نہیں رہ
جاتی ۔ اب دونوں چھوٹا اور بڑا ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے ، دونوں کو ایک
دوسرے کی کمزوریوں سے، راز و نیاز سے خوب واقف تھے ۔ سیاسی دشمنی میں تمام
حدود پار کر دی گئی تھیں۔ بھلا ہو آپریشن ضرب عضب اور آپریشنرردَا لفساد کا
کہ کراچی میں امن قائم ہوا۔ کراچی اور کراچی کے عوام کا مفاد امن میں ہے،
سیاسی جماعتوں کے درمیان رسہ کشی، لڑائی جھگڑے، فساد، نقصان کراچی کے عوام
کا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان جس قدر اچھے تعلقات ہوں گے ۔ امن قائم
رہے گا، لوگ اپنے اپنے معمولات میں مصروف رہیں گے۔ خوش حالی اور خوشی کا
ماحول میسر آئے گا۔ یہ جو دو ماضی کے دوست غلط راستوں سے ہوتے ہوئے ، غلط
ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آگ اور خون کی
ہولی کھیلتے ہوئے نئی منزل پر پہنچے لیکن دونوں ایک دوسرے کے خلاف صف
آراتھے۔ لیڈری کی جنگ تھی، اقتدار کی حوص، مینڈیٹ کو قائم رکھنے کی خواہش
وجہ جو بھی تھی نقصان اہل کراچی کا ہورہا تھا۔ یہاں یہ خوف لگا رہتا تھا کہ
کہیں پھر سے ماضی کے حالات نہ لوٹ آئیں۔ بھتہ خوری، دہشت گردی، موبائل اور
پرس چھیننے کی وارداتیں پھر سے شروع نہ ہوجائیں۔ کراچی کے بے قصور نوجوانوں
کوئی غیبی طاقت غائب نہ کردے۔ انہیں سڑک کنارے پھینک نہ دیں۔
آئیے زرا یہ دیکھیں کہ چھوٹے اور بڑے نے کراچی پریس کلب میں ساتھ ساتھ بیٹھ
کر کیا کہا، کیا وجوہات، مجبوریاں، اچھائیاں، تعویلیں پیش کیں آپس میں ملنے
کی ، ایک ہونے کی، ایک سیاسی انتخابی اتحاد تشکیل دینے، آئندہ الیکشن ایک
ہوکر نئے نام سے لڑنے، نئے نشان، نئے منشور کے ساتھ الیکشن لڑنے کی۔ بڑے
لیڈر نے فرمایا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان ، صوبہ سندھ اور
بالخصوص کراچی اور سندھ اور کراچی کے ووٹ بنک کی تقسیم کو روکنے کی کوشش کر
رہے ہیں ۔ ٹیپ کا بند یہ ہے کہ اصل انہیں اپنا ووٹ بنک بکھرتا نظر آیا،
دونوں دھڑوں کو احساس ہوا کہ تنہا اور موجودہ ایک دوسرے پر گولے برسانے
والی صورت حال میں کراچی دونوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ دیگر سیاسی جماعتیں
تاک میں بیٹھیں ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور نون لیگ۔ نون
لیگ تو شاید آئندہ الیکشن تک اس پوزیشن میں ہی نہ رہے کہ وہ کراچی کی جانب
دیکھنے کی زحمت بھی کرے۔ کراچی میں اس کی چھوٹے موٹے لیڈر ا س امید پر
پارٹی میں فعل رہتے ہیں کہ انہیں سینیٹر بنا دیا جائے، مخصوص نشست پر رکن
اسمبلی بنا دیا جائے ۔ البتہ اس اتحاد سے سب سے زیادہ جھٹکا تحریک انصاف کو
پہنچا جس کے مقامی لیڈروں نے کراچی کے مختلف حلقوں کا انتخاب بھی کر لیا
تھا کہ وہ اپنی پارٹی سے فلاں حلقے سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کریں گے
اور فلاں حلقے سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ انہیں مل جائے گا۔ ساری امیدیں سارے
خواب چکنا چور ہوگئے۔ کل کی پریس کانفرنس سے۔
کالم نگار محمد اعظم عظیم اعظم نے سوشل میڈیا پر اس تبدیلی کے حوالے سے جو
تجزیہ پیش کیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔کہتے ہیں ’’آفاق احمد کو علیحدہ رکھ کر
کوئی کراچی کی خدمت نہیں کرسکتا ہے اگر دو مل بھی جائیں مگر تیسرا نہیں ملے
گا تو پھر بھی کراچی کی بہتری سے متعلق سقم قائم رہے گا اِس حقیقت سے انکار
نہیں ہے کہ آج کراچی میں سب دھڑوں کو ملانے والا صرف عمران خان ہے ۔۔۔
کیونکہ آج اگر یہ سب ایک نہیں ہوتے تو اگلے 2018کے الیکشن میں پورا کراچی
عمران خان کے دامن میں جاگرتا۔۔۔ بہت اچھا ہوا کہ یہ سب ایک ہورئے ہیں۔ کاش
ایک دوسرے کو برداشت کر نے اور اپنے ووٹرز پر بندوقیں تانے بغیر شہر کراچی
میں اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ مثبت اور تعمیری سیاست کی
حقیقی معنوں میں شروعات بھی ہوجائے‘‘۔عظیم اعظم تیز تر کالم نگار ہیں ان کی
نظر سیاست خاص طور پر کراچی کی ساست پر بہت گہری ہے۔ انہوں نے جو تجزیہ کیا
ہے اس میں حقیقت پوشیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ نو مولود اتحاد بلے، تیراور شیر
کے خوف سے بھی عمل میں آیا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ کوئی شیر ببر ان تینوں سے
طاقت ور در پردہ موجود ہو جس نے انہیں ملنے پر مجبور کیا۔ آج نہیں تو کل اس
راز سے پردہ تو اٹھنا ہی ہے۔
دو پارٹی اتحاد ادھورا ہے، تیسرے دھڑے کی شمولیت کے روشن امکانات ہیں۔ اس
کا شامل ہونا اہل کراچی کے حق میں بہتر ہوگا۔ لندن دھڑے کا کیا بنے گا، وہ
کہاں کھڑا ہے، ایک بات جو سیاسی مخالفین مسلسل کہہ رہے تھے کہ ’یہ اندر سے
ملے ہوئے ہیں‘ اس اتحاد سے اس جملے کے سچ ہونے کی نوید ملتی ہے ۔ اس دھڑے
کا پاکستان کی سیاست میں اب کوئی کردار نظر نہیں آتا، اس کا سربراہ جو کبھی
سب کا سرغنا تھا اسی طرح سَر اَفگندہ، خِجل و پریشانی ، متردد و متفکر ،
منتشر و پراگندہ کیفیت میں ہی رہے گا۔ ا لتبہ کراچی کی سیاست اور اس نو
مولود سیاسی اتحاد میں ایک اور جماعت اور سیاسی رہنما کا اہم سیاسی کردار
خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ جس شخصیت نے آج ہی بیان داغا ہے کہ
’مہاجر برادری ایک نئی سوچ کا آغاز خود سے شروع کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا
کہ ان کی سوچ قومیت کی بنیاد نہیں بلکہ پاکستان کی بنیا د پر ہے‘۔ اسی
پارٹی کے سیکریٹری جنرل کا یہ بیان بھی اہمیت رکھتا ہے اور کراچی کی سیاست
میں اور زیادہ ہلچل ، کھلبلی ، بیقراری اور گھبراھٹ برپا کرنے کا باعث ہے
جس میں کہا گیا ہے کہ ’ سابق صدر پرویز مشرف کی قیادت میں 20سیاسی جماعتوں
پر مشتمل اتحاد تشکیل پاچکا ہے جس کا اجلاس 10 نومبر کو اسلام آباد میں
ہورہاہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایم کیوایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی
ہمارے اتحاد کا حصہ بنے تو پرویز مشرف قیادت کر سکتے ہیں۔ آل پاکستان مسلم
لیگ اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ 2018کے انتخابات میں حصہ لے گی‘۔ پرویز
مشرف کے حوالے سے کراچی میں اہم کردار ادا کرنے کی خبریں بہت عرصہ سے میڈیا
کا حصہ چلی آرہی ہیں اور جنرل صاحب نے اپنے انٹر ویوز میں اس کی تردید بھی
کی لیکن کوئی مانے یا نہ مانے کراچی میں قائم ہونے والا دو دھڑوں کا اتحاد
ملکی سطح پر بڑے سیاسی اتحاد ، سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور
کوئی بعید نہیں کہ اس اتحاد کی کمان سابق کمانڈر کے ہاتھ میں ہی ہو۔ |