پاکستان ستر سال کی عمر سے گزررہا ہے ،ان ستر سالوں میں
وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جمہوریت کی بقا اور عوامی فلاح و بہود کو جس
طریقے سے کچلا گیا وہ ایک انتہائی افسوس ناک ، دردناتاریکی تاریخ ہے، قائد
اعظم محمد علی جناح اور صاحبزادہ لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد سے بین
الاقوامی دشمنوں نے اپنے غلاموں کو جس طرح نظام ریاست میں داخل کیا وہ
پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، پاکستان کی ترقی ہو کامرانی ،تہذیب
ہو یاثقافت، صنعت ہو یا حرفت، تعلیم ہو یاہنر ، کھیل ہو یا سیاست، حکمرانی
ہو یا نوکری گویا کون سا شعبہ اور کون سا ادارہ ایسا ہے جہاں پر تباہی و بد
نظمی ،کرپشن و جرائم نے اپنے پنجوں سے تار تار نہ کیا ہو، سن انیس سو ستر
کی جنگ میں پاکستان کو سوچی سمجھی سازش کے تحت دو لخت کردیا، یہاں پر بسنی
والی قوموں کو سیاستدانوں، نوکر شاہی اور چند عسکری قوتوں نے گمراہ کیا اور
ہر دور میں عوام سے جھوٹ بول کر غلط راہ دکھائی، کبھی بھی ایسی سیاسی
جماعت، سیاسی لیڈر نے پاکستانی قوم کو یکجا کرنے کیلئے عملی جامع پیش نہیں
کیا بلکہ اپنے اقتدار کے حصول اور قائم رکھنے کیلئے پاکستانی قوم میں تعصب،
اقربہ پروری، لسانیت، مذہبی مسلکی تفریق جیسے گھناؤنے عمل کو ہوا دی، سندھ
میں صرف سندھی زبان بولنے والے ہندوؤں کو مسلم مہاجر قوم کیلئے ہر لحاظ سے
سلاخیں باندھ دی گئی، تعلیم کے دروازے بند کیئے گئے، روزگار پر بندشیں
لگادی گئیں اور اہلیت و قابلیت کو دفن کردیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی نے
ہمیشہ لسانی جماعت ہونے کا بھرپور طریقے سے عملی جامع پہنایا، پاکستان کا
واحد صوبہ سندھ تھا جس میں کوٹہ سسٹم رائج کیا جو آج تک جاری و ساری ہے
مزید دکھ کی بات تو یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم کے تحت بھی انصاف نہ برتا گیا
،فورسس میں بھی اردو بولنے والوں کے متعلق سخت ترین دشوار ترین مراحل رکھے
گئے گویا پاکستان بنانے والوں کی نسلوں کو آگے بڑھنے سے ہر راہ پر رکاوٹیں
کھڑی کی گئیں، سندھ ریجمنٹ میں کتنے سندھی اور اردو بولنے والے مہاجر منتخب
کیئے جاتے رہے ہیں، کبھی اس بابت انصاف برتا یہی نہیں بلکہ ہم جب سندھ پبلک
سروس کمیشن کی جانب نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں کوئی
اردو بولنے والا شخص ایسا نہیں جو کمیشن کا امتحان پاس کرسکے سوائے سندھیوں
کے؟ آخر قابلیت کیا طاقت ور اور اقتدار پر برجمان رکھنے والوں کے پاس
موجود ہے یا وہ ہی فیصلہ کرسکیں گے کہ کس کو منتخب کرنا ہے اور کس کو
خارج؟حق تلفی کے اس نظام سے پاکستان بلخصوص سندھ میں جس قدر بے چینی اور
احساس محرومی کو جنم دیا ہے وہ پاکستان کی ترقی اور بہتری کیلئے اچھا نہیں
؟ کیا اردو بولنے والے پاکستانی نہیں ؟ کیا مہاجر قوم میں اہلیت و قابلیت
کا فقدان پایا جاتا ہے؟پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب پاکستان معروض
وجود میں آیا تھا اُس وقت ہجرت کرنے والے مہاجر ہی تھے جنھوں نے سندھ سمیت
پاکستان کے ہر صوبے میں تعلیم کے زیور کو پھیلایا، فن و ہنر کی روشنی
پھیلائی، تعمیر پاکستان میں بہت بڑا کردار ادا کیا؟ آخر وہ کون سے عناصر
تھے جنھوں نے مہاجروں کو دیوار سے لگادیا؟تعلیم اور قابلیت کسی کی میراث
نہیں ہوتی جو اسے احسن طریقے سے حاصل کرتا ہے وہ کامیابی و کامرانی کی
زندگی پاتا ہے ، مہاجر قوم کی نسل کو سوچی سمجھی اسکیم کے تحت انہیں ان کے
آباؤ اجداد کے نقش قدم سے دور کیا گیا ان میں احساس محرومی از خود جان
بوجھ کر پیدا کی گئی تاکہ نئی نسل بہتر تعلیم اور بہتر ہنر کے بجائے گندی
سیاست میں آکر اپنی زندگیاں برباد کردیں ، بہت کچھ کوشش کے با وجود اس قوم
کے ہونہار قابل نسل کو روک نہ سکے کیونکہ کسی بھی قوم کے حوقو کی حق تلفی
کرنے سے رب العزت اس قوم میں مزید آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار کردیتا ہے یہی
اس قوم کیساتھ بھی ہوا ہے جہاں ایم کیو ایم کے ذریعے اس قوم کو پیچھے
دھکیلا گیا ،نوجوانوں کو ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، لوٹ مار اور قتل و غارت
مین ملوث کیا گیا وہیں انہیں وقتوں میں مہاجر قوم میں ایک ایسی نسل بھی
آگے بڑھتی گئی جس نے اپنا فوکس تعلیم اور ہنر پر مرکوز رکھا مانا کہ
سرکاری نوکریوں کے دروازے بند کردیئے گئے مگر نجی اداروں میں ان قابل ،اہل
اور ذہین مہاجر نسل نے اپنے قدم جمائے، وہ کہتے ہیں نا کہ جسے اللہ رکھے
اسے کون چکھے۔۔۔!!ایم کیو ایم نے مہاجر قوم کے اکثر ان لوگوں کو پروان
چڑھایا جو اونجڑے کونجڑے تھے، خاندانی شخصیات سے ڈرتے تھے کیونکہ خاندانی
لوگ کل بھی اپنی تمام تر توجہ تعلیم و ہنر پر صرف رکھتے تھے اور آج بھی
رکھتے ہیں، ان خاندانی لوگوں کی ترقی اور قابلیت نہ ایم کیو ایم کو ہضم
ہورہی تھی اور نہ ہی دیگر پاکستان مخالف تنظیموں کو کیونکہ اس قوم کے غیور
اور مخلص لوگ آج بھی پاکستان پر اپنی جان قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار
رہتے ہیں ،اس قوم کی خاندانی نسل تہذیب و ادب سے آشنا ہے اسی لیئے اس قوم
کے سیلقے و کرینے نے پاکستان کی معاشرتی زندگیوں میں مثبت اور بہتر تبدیلی
پیدا کی، مہاجر قوم اپنی بہن بیٹیوں کو عزت و احترام اور مقام سے نوازتی
ہے، اس قوم مین عورت کوعزت و احترام کا مقام سمجھا جاتا ہے ، اس قوم میں
پاک نگاہیں اور جذبہ ہمدردی پنہا ہیں اسی لیئے پاکستان مین سب سے پہلے اور
سب سے زیادہ مہاجر خواتین ہی تھیں جنھوں نے پاکستان کے بیوروکریٹس، سیاست،
فن و ہنر اور سرکاری عہدوں پر کام کیئے، اس کی سب سے بڑی وجہ ہجرت کرنے
والے مہاجرین میں اکثیرت پڑھے لکھے خواتین و مرد کی تھیں، پاکستان کی اوائل
دور کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہر شعبے میں مہاجر مرد و
خواتین تعینات تھیں یہ تعیناتی ان کی اہلیت کے سبب حاصل ہوئی تھیں،مذہب ہو
یا مسلک اس مین جب تک مہاجر علما و مشائخ کا راج تھا کبھی بھی نہ کوئی کسی
کو کافر فتویٰ سے نوازا جاتا تھا اور نہ ہی مسلکی جنگ و جدل پیدا ہوتا تھا
ہر مسلک اپنے اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے تبلیغ و درس کا عمل جاری کیئے ہوئے
تھا، ایک دوسرے مسلک کا احترام کیا جاتا تھا یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی
تقاریب میں شریک بھی ہوا کرتے تھے، ہجرت یافتہ تحریک پاکستان کے کارکنان
دنیا فانی سے جاتے رہے دشمنان پاکستان نے دیگر قوموں میں نفرت و عصبیت کو
ہوا دیتے رہے بالآخر سابق صدر و ریٹائرڈ جنرل ضیا الحق نے سب سے زیادہ
ریاست پاکستان کو نا تلافی نقصان سے دوچار کیا ایک تو ایم کیو ایم بنائی
دوسرا پی ایم ایل این یہ دونوں سیاسی جماعتوں نے جس قدر منفی سیاست کی ہیں
وہ اب ڈھکی چھپی نہیں رہی ، پاکستان پیپلز پارٹی نے تو ان دونوں سے بھی
زیادہ بڑھ کر نہ صرف کرپشن، جرائم، لوٹ مار، اغوا کاری، قتل و غارت، نجی
جیل کے پہاڑ کھڑے کردیئے اور سندھ کی عوام کو نقل کے زہر کا عادی بناکر اس
کی قابلیت و اہلیت کو مکمل ختم کردیایہی وجہ ہے کہ رشوت اور شفارش ہی اب ان
کی بقا کا حصہ بن کر رہ گئی ہے، سندھ سیکریٹریٹ سمیت دیگر اداروں میں ماما
چاچا کے بھتیجے تقرریاں حاصل کرتے ہیں یا پھر بھاری رشوت کے سبب نوکریاں
بیچی جاتی ہیں،سندھ کے تعلیمی اداروں سے لیکر صحت اور تمام دیگر ادارے نا
پید ہوکر رہ گئے ہیں ، کیونکہ تغلق ہاؤس میں واقع سیکریٹریٹ اور نیو
سیکریٹریٹ میں چیف سیکریٹری اپنے کرپٹ وزرا کی اطاعت کو پائے تکمیل پہنانے
کیلئے تمام قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قطعی نہ شرم محسوس کرتے
ہیں نہ ان میں حیا باقی رہ گئی ہے، سندھ بھر کے اعلیٰ ترین عہدوں پر
چاپلوسی، سازش اور کرپشن ہی امتیاز سمجھی جاتی ہے جو جتنا بڑا کرپٹ وہ اتنا
ہی بڑے عہدے کا اہل؟مہاجر قوم نہ ختم ہوسکتی ہے نہ نکالی جاسکتی ہے کیونکہ
یہی مالک اور حقدار ہیں ،ہندوستان میںتحریک پاکستان اگر قائد اعظم کی
سربراہی میں نہ ہوتی اور مہاجر قوم ان کے ساتھ شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوتی تو
ہر گز ہرگز آزاد پاکستان وجود میں نہ آتا اور یہاں کی بسنے والی قومیں
غلام در غلام بن کر ہی رہ جاتیں ،یہ احسان ہجرت کرنے والوں کا ہے اس سرزمین
پر اپنے محسنوں کیساھت نہ انصافی سے باز آجاؤ نہ اکڑو نہ تکبر کرو کیونکہ
اللہ اس قوم کے ساتھ ہے یہ قوم عرصہ دراز سے اپنے حقوق سے محروم ہے ،رہی
بات ایم کیو ایم یا اس کی دیگر ذیلی سیاسی جماعتیں تو سن لیں یہ سب ڈھنڈورہ
ہیں، فریب ہیں، دھوکہ ہیں انھوں نے چالیس سالوں میں مہاجروں کو سوائے ذلت و
رسوائی کچھ نہیں دیا اب کیا دیں گے بہتر یہی ہے کہ مہاجر قوم ان کے بہکاوے
میں نہ آئیں اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صرف اور صرف اپنا
مرکز اچھی تعلیم و ہنر کی طرف مرکوز رکھیں اور وطن عزیز کی ترقی و کامرانی
کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں انشا اللہ ان کے مثبت قدم ہی ان کو ان کا
بہتر حق دلا سکے گا ، اللہ پاکستان میں تمام قوموں میں یکجہتی، اتحاد، محبت
اور یگانگی کا جذبہ ہمیشہ کیلئے بیدار کردے آمین ثما آمین ۔۔۔ پاکستان
زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! |