عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان بڑھتی خلیج

جانے کہاں کچھ گڑبڑہے کہ ریاست کے ستون ایک دوسرے کوسپورٹ کرنے میں ناکام ہو۔ رہے ہیں۔ریاستی ادارے عوامی سوچ اور رائے سے متصادم پالیسی اپناتے ہیں جانے ان کی کارکردگی سے عوام کی توقعات پوری کیوں پوری نہیں ہوپارہی۔عدلیہ۔آرمی۔میڈیا سمیت تمام ادارے جانے کیوں عوامی حمایت سے عاری کیوں ہیں۔جس طرح سے اداروں کے بارے میں منفی رائے عامہ بڑھ رہی ہے۔وہ تشویش ناک ہے۔بار بار دھکے شاہی سے مارشل لاؤں کے نفاذنے قوم کو مضطرب کیاہے۔ فوج سے متعلق تقدس بالکل ڈانواں ڈول ہے۔عدلیہ کی طرف سے آنے والے کئی فیصلوں کو آج تک ہضم کرنا مشکل ہورہاہے۔ان فیصلوں کے ذریعے یا تو عوام کے لیے باعث نفرت لوگوں کو پارساقرار دیا گیا۔یا پھر اس کے محبوب ہیروز کو اقتدار بد ر کیے جانے کی توثیق کی گئی۔میڈیا کی جانب سے بھی جو تصویر قوم کو پیش کی جاتی رہی وہ بھی کسی جعلسازی سے کم نہیں۔یہ ایک ایسا ٹیڑھا آئینہ بنا ہوا ہے۔جس سے کسی چہرے کا کوئی بھی رخ نمایاں یا غیر نمایاں کرنے کی فنکاری کی جارہی ہے۔اس ٹیڑھے آئینے سے سراپا جرم لوگوں کو مسیحا بنا کرپیش کرنے کو پسند نہیں کیا جارہا۔نہ ہی کم برے لوگوں کو مجرم اعظم ثابت کرنے کا طریقہ قبول کیا جارہا ہے۔

سابق وزیر اعظم نوازشریف کا کڑا احتسا ب سنجیدہ حلقوں کی طرف سے انگلیاں اٹھنے کاسبب بن رہا ہے۔رائے قائم ہوہی ہے کہ جیسے ایک شخص کو سیاست سے آؤٹ کرنے کی کوشش ہے۔اس لیے کہ وہ روایتی نظام کو نقب لگارہا ہے۔اس نظام میں کچھ ایسے منہ مومن کرتوت کافر بیٹھے ہیں۔جو دھوکے او ردھونس سے اپنی دوکان چمکائے بیٹھے ہیں۔آج تک ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں کی گئی۔نوازشریف کے خلاف جس طرح ریاستی ادارے کھل کر کردار ادار کررہے ہیں۔اس سے سنجیدہ طبقے غیر مطمئن ہیں۔شاید اسی لیے کچھ دوسرے سیاسی قائدین کے خلاف احتسا ب کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ق لیگ کے صدرچوہدری شجاعت حسین اور سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی نیب کے لاہور آفس میں ایک گھنٹہ پیشی کے دوران مطلوبہ دستاویز پیش کی گئیں۔اس دوران تفتیشی افسر نے دونوں سو 75 سوالات کیے۔ذرائع کے مظابق انہیں دوبارہ بھی طلب کیا جاسکتاہے۔چوہدری برادران نے اپنے خلاف الزامات کو بے بنیادقرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ گوشوارے پہلے ہی الیکشن کمیشن میں جمع ہیں۔اس موقع پرسابق وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کا کہنا تھاکہ ہمار ا دامن صاف ہے۔اداروں کا احترام کرتے ہیں۔ہم پر ہر دور میں مقدمات بنے۔شریف برادران کو 10سالوں میں بھی کچھ نہیں ملا۔

چوہدری برادران پر کرپشن کے سنگین الزاما ت لگائے جاتے رہے ہیں۔مگر ان کے خلاف چلنے والے معاملا ت صر ف اس لیے سمٹتے چلے گئے کہ انہوں نے کبھی بھی مقتدر حلقوں سے الجھنے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے لگاتارپچھلی تین حکومتوں سے وفاداری برتی ہے۔جب مشر ف کی سربراہی میں فوج نے بغاوت کی تو تب چوہدری برادران نواز شریف کے دست وبازو تھے۔دونوں بھائی اعلی حکومتی عہدوں پر براجمان تھے۔انہوں نے چڑھتے سورج کو تسلیم کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیا۔صرف چند مہینوں کے اندر ہی وہ کسی وعدہ معاف گواہ کی طرح اپنی پرانی پناہ گاہ پر چڑھائی پر آمادہ ہوگئے۔انہوں نے نوازشریف کو سیاست کے میدان سے آؤٹ کرنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی۔ان کے لیے اس کے بعد نئے رفقاء سب کچھ بن گئے۔یہ رفاقت اس قدر گاڑھی ہوگئی کہ نہ انہیں قانون اور آٓئین یاردرہے نہ عوام کو دیا حلف۔وہ اپنے نئے صاحب کودس بار باوردی ملک کی صدارت دلوانے کی خدمت میں جت گئے۔بالکل اسی طرح جس طرح وہ نواز شریف کے لیے دن رات ایک کرکے ان کی وزارت عظمی کے لیے بھاگ دوڑ کیا کرتے تھے۔مشرف کی رخصتی کے بعد بھی چوہدری برادران اپنی روایت نہ چھوڑ پائے پی پی حکومت کا حصہ جا بنے۔اس طرزکی سیاست اپنانے والوں کے خلا ف مقدمات کی پیروی کرنے دلچسپی بھلا کون کرے گا۔نوازشریف یقینا ان کو تگنی کاناچ نچاسکتے تھے۔مگر وہ چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ نہ ڈالنے کی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر صر ف اور صر ف مشر ف کو کیفرکردار تک پہنچانے میں لگے رہے۔

عوام کو ریاستی اداروں کے کردار پر عدم اطمینان ہے۔ادارے وہ کچھ نہیں کررہے جس کی عوام کوتوقع تھی۔بالکل متضاد کارکردگی دے رہے ہیں۔اس بد ترین کارکردگی کے پیچھے ایک بے ایمان ٹولہ ہے۔جو اداروں کو کھوکھلا کرنے میں دلچسپی رکھتاہے۔ قصد ا کچھ اس طرح کا ماحول بنایا جارہاہے۔جہاں جنگل کا قانون ہو۔جہاں کوئی پرسش نہ ہو۔اس اندھیرنگری میں وہ خود کو محفوظ پاتے ہیں۔ان کے لیے یہی بے یقینی اور انتشار کا ماحول سودمندہے۔اداروں کی اس قسم کی پرفارمنس کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔یہ وہ ٹولہ ہے۔جو مختلف طبقہ ہائے میں سے آئے بد کردار لوگ ہیں۔جو اپنی عیاشی او ربد کاری کو کسی بھی طرح ممکن بنانا چاہتے ہیں۔سیاست۔عدلیہ۔فوج۔میدیا سمیت سبھی اداروں اور شعبوں کے کچھ گندے انڈے اکٹھے ہوکر اس مذموم عمل میں مشغول ہیں کسی نظر نہ آنے والی ڈور سے منسلک یہ گروہ مکروہ ڈرامہ رچارہا ہے۔اس ڈرامے کا اصل مقصد صرف اور صرف عوام کے حقوق غصب کرنا ہے۔اسے محکوم بنانا ہے۔عوام ریاست کا سب سے اہم جز ہے۔اس کے بغیر ریاست کے وجود کی کوئی حیثیت نہیں۔دوسرے تمام اجزاء صر ف اور صرف عوام کو مطمئن اور شاد کرنے ترتیب دیے جاتے ہیں۔اس سے بڑھ کربد قسمتی کیا ہوگی کہ ان اجزاء کی کارکردگی سے عوام بالکل مطمئن نہیں نہ ہی شاد ہے۔عوام اور ریاستی ادروں کے درمیان بڑھتی یہ خلیج ریاست کے وجود کو کھوکھلا کرہی ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.