کراچی کی کچرا سیاست

کراچی کے موجودہ حالات پر لکھا گیا ہے

کراچی کی سیاست ہمیشہ سےہی مختلف رنگوں میں رنگا ہوا ملا ہے کراچی شہر جس کو بار بار ملک کا معاشی حب قرار دیا جاتارہاہے طویل دہشت کی رات ڈھلنے کے بعد رونقیں معمول پر آئیں تو ہر ایک اس کی روشنیاں واپس لانے کا کریڈٹ اپنے سر لینے کیلئے کوشاں رہا، اس کی ایک مثال حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران بھی دیکھنے کو ملی کہ مسلم لیگ ن یہاں سے کچھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں امن کی بحالی ن لیگ کے دور حکومت میں عمل میں آئیں اور شاید دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بھی اسی نعرے کو لیکر پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنے جھنڈے لہراتے پھریں گے کہ ہماری وجہ سے یہ ہوا ہماری وجہ سے وہ ہوا۔کراچی میں خیر امن کی بحالی کے بعد جوبھی ہواہویہاں روز کی بڑھتی آبادی اب بھی کئی مسائل میں گری ہوئی نظر آتی ہے سب سے بڑا مسئلہ شہر کی صفائی اور سڑکوں کا حال ہے جو سب کے سامنے ہے ان دونوں معاملات پر شہر کی دو بڑی جماعتوں نے گزشتہ دو سالوں میں جو سیاست کی ہے اگر اس سیاسی جنگ میں سے کچھ حصہ اس شہر کی جانب توجہ مبذول کرکے کچھ کام کراتے تو شاید مسائل میں کسی حد تک قابو پایا جاسکتا تھا اب تو اس شہر کا یہ حال ہے کہ اگر کہیں ایک اسٹریٹ لائٹ کا بلب بھی لگتا ہے تو اس کھمبے پر اگلے دن اس علاقے میں متحرک پارٹی ورکر اپنے پارٹی کے پرچم کے ساتھ ایک پینا فلیکس آویزاں کرکے اپنے علاقائی نمائندے کیلئے مبارکباد کے پیغامات چھوڑ جاتے ہیں۔

کراچی میں ایک دہائی سے جاری کشت و خون کے بعد رینجرز آپریشن نے شہریوں کو جینے کا جیسے ایک اور موقع دیا ہو ،کراچی جو ایک عرصہ تک اپنے ہی بچوں کیلئے قبرستان کا درجہ رکھنے لگا تھا اب حالات قدرے مختلف اور بہتر ہیں ۔اب پہلے جیسے حالات نہیں رہے نہ ہی کسی پارٹی کارکن یا رہنما کی ہلاکت کے بعد منٹوں میں شہر بند ہوجاتا ہو ،اب شہر بندہونا تو کوئی کتابی سی بات لگتی مگر یہاں کی لوٹی رونقیں اور روشنیوں کے باعث اکثر و بیشتر سڑکیں جام ضرور ہوجاتی ہیں اس کی ایک وجہ شہر کی خوشیاں ہیں اور دوسری کھنڈرات سے بدتر سڑکیں۔

کراچی میں سیاست کسی زمانے بڑی اہمیت رکھتا تھا جس طرح آج کے دور میں کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو مرکز میں حکومت بنانی ہے تو پہلے پنجاب پر اپنے پنجے گاڑھنے ہونگے اسی طرح کراچی کی سیاسی تاریخ بھی کالجز اور جامعات میں اسٹوڈنٹس سیاست سے لیکر ضیا دور کے کوڑوں اور مشرف دور کے بارہ مئی جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

حالیہ حالات میں کراچی کی سیاست میں مرکزی کردار پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم اور کسی حد تک جماعت اسلامی کا ہوسکتا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز کی جہد میں پنجاب میں دلچسپی کے باعث کراچی میں ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے گزشتہ ہفتے کراچی کی سیاست میں جو بھونچال آیا اس کے آفٹر شاکس اب بھی جاری ہیں ۔بائیس اگست دوہزار سولہ کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ جو ہوایا جو کچھ کروایا گیا سب کے سامنے ہے اب تک اس واقعے کے آثار متحدہ کو اپنی اصل شکل ظاہر کرنے سے قاصر ہیںکہ متحدہ وہ تھی جو بائیس اگست سے پہلے تھی یا متحدہ وہ تھی جو بائیس اگست کو بنی یا متحدہ ہو ہے جو اب ہے کچھ واضح نہیں،متحدہ قومی موومنٹ کی حالت پر غالب کایہ شعر بلکہ پوری غزل یاد آتی ہے
کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

متحد ہ قومی موومنٹ جس کے بارے میں پہلے سب یہ جانتے تھے کہ اس پارٹی سے کوئی کسی دوسری جماعت میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا اب مشکلات میں ایسی جھکڑ گئی ہے کہ ان سے باہر نہیں آپارہی اور پھر سونے پہ سہاگہ پاک سرزمین پارٹی کی صورت ایک اورمشکل آن پڑی اور پے درپے لوگ چھوڑ چھاڑ کے اس میں شامل ہورہے ہیں۔ان مشکلات میں کچھ کمی اس وقت ہوتی ہوئی نظر آئی جب فاروق ستار ایک پریس کانفرنس کے دوران کسی کا انتظار کرتے ہوئے پائے گئے وہ شخص کوئی اور نہیں سابق متحدہ کے سینیٹر ،سابق ناظم کراچی اورموجودہ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال تھے پھر کیا تھا جو اعلانات ہوئے جو گلے شکوے دور ہوئے ایک پارٹی ،ایک پرچم ایک نشان کے بلند و بانگ دعوؤں نے کراچی کی سیاست میں جیسے کوئی سونامی آگئی ہو لیکن اگلے دن متحدہ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کی پریس کانفرنس نے سونامی کے نشانات تو چھوڑے مگر سونامی کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ فاروق ستار کی جانب سےجو کھل کر مہاجر کارڈ کھیلا گیا اس سے یہ لگتا ہے کہ شاید مصطفیٰ کمال کو سیاست کے آغاز کے پہلے راؤنڈ پر ہی چت کردیا گیا ۔ا ب مصطفیٰ کمال کی جانب سے الزامات کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ایک مرتبہ پھر نہ نظر آنے والی اسٹیبلشمنٹ کے کردارپر یہ کیا وہ کیا کہ لاگ الاپے جارہے ہیں۔

کراچی کی رہی سہی سیاست میں آگے دیکھتے ہیںکیا ہوتا ہےویسے 9 نومبر کو بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر صفحہ اول کے بائیں جانب دو اسٹوریز اوپر نیچے لگی نظر آئیں جس میں سے ایک کاعنوان تھا کہ ’’شاید مہاجر سیاست کاایک نیا دور آئے‘‘جبکہ دوسری اسٹوری ’’بہادر شاہ ظفر دلوں پرآج بھی حکمران‘‘ان دونوں آرٹیکلز میں تحریروں میں تو’’ زمیں آسمان‘‘ کا فرق تھا لیکن ان میں مجھے نہ جانے کیوں ایک بات مشترک لگ رہی تھی وہ یہ کہ مہاجر والے عنوان کی تصویر میں فاروق ستار مصطفیٰ کمال سے مصافحہ کرتے ہوئے جبکہ دوسری اسٹوری میں بہادر شاہ ظفر تاج پہنے نظر آرہے ہیں ان دونوں تصویروں میں فاروق ستار کی شکل بوڑھے بہادر شاہ ظفر کی تصویر سے ہو بہو ملتی ہوئی نظر آرہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے بہادر شاہ ظفر ماضی کے مئیر کراچی سے مصافحہ کررہے ہوں یا آخری مغل شہنشاہ فاروق ستار تاج پہنے ہوئے ہوں۔

Amjad Buledi Baloch
About the Author: Amjad Buledi Baloch Read More Articles by Amjad Buledi Baloch: 13 Articles with 12471 views i am journalist.. View More