بھارتیہ جنتا پارٹی کا آج کل سردار پٹیل پر بہت پیار امنڈ
رہا ہے۔لگتاہے مرنے کے بعد ان کا دل بدل کرکے رہیں گے۔پیدائشی کانگریسی کو
مرنے کے بعد اپنے دَل میں شامل کر رہے ہیں یہ کام اُسی طرح کیا جا رہا ہے
جیسے آج کے زمانے میں مغل بادشاہوں کو ویلین بنانے کی کوشش میں بھکت لوگ
لگے رہتے ہیں۔اور کانگریسی نیتاؤں کو اپنا ہیروبنانے میں لگے ہوئے ہیں۔اس
طرح سردار پٹیل، بھگت سنگھ، ڈاکٹر امبیڈکر، لال بہادر شاستری،سبھاش چندر
بوس کے وارث ہونے کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔۱۹۸۰ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی جب
وجود میں آئی تو اسٹیج پر مہاتما گاندھی، جئے پرکاش نرائن، ڈاکٹر مکھرجی کے
فوٹو لگائے گئے تھے۔پارٹی ان کو مثالی شخصیتیں مانتی تھی لیکن ۱۹۸۵ء کے
سیمینار میں پہلے والے رہنماؤں کے فوٹوہٹا کرصرف مکھر جی اور دین دیال کے
فوٹو رکھے گئے۔
فی الحال سردار ولبھ بھائی پٹیل پر نظرِ کرم ہے اور ان کو اپنے آئیڈیل کے
طور پر پیش کرتے ہوئے پٹیل کی شبیہ کو ہندو وادی بنانے کی کوشش کی جا رہی
ہے۔ اور اسی لیے 182 میٹر یعنی 597فیٹ اونچی ان کی مورت2063کروڑ روپئے کی
لاگت سے چین میں بن رہی ہے جو ’نرمدا ڈیم‘ پرلگائی جائے گی۔یہ ایک الگ بحث
کا مدعہ ہے یہ مورت بھارت میں کیوں نہیں بنوائی گئی۔ویسے مودی جی دنیا بھر
کے ممالک کو بھارت میں سرمایہ کاری کے لیے نیوتا دے آئے تھے اور خود چین
میں سرمایہ کاری کرنے لگے۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی’ پروفیسرسچیتا
مہاجن‘نے کہا کہ’’سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کبھی بھی ہندو راشٹر کے نظریہ
کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی ناتھو رام گوڈسے اور ساورکر کی بھی کبھی حمایت
کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کپور کمیشن کی رپورٹ نے بھی ثابت کر دیا تھا کہ
ناتھو رام گوڈسے اور ساورکر کے نظریات جنگ آزادی میں شامل کوئی بھی عظیم
لیڈر اتفاق نہیں رکھتا تھا۔ ‘‘
ایک مراٹھی رسالہ ’اگرنی‘میں 1945میں ایک کارٹون شائع ہوا تھا جس میں
مہاتما گھاندھی جی کو راون کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔اس راون کے بھی دس سر
تھے نہرو، مولانا آزاد، نیتا جی سبھاش چند بوس،جناح وغیرہ کئی چہرے تھے جن
میں سب سے بائیں طرف سردار پٹیل کا چہرا تھا۔راون کے سامنے رام کے روپ میں
ساورکر ہاتھ میں تیر کمان لیے ہیں اور ساتھ میں لکشمن کی جگہ پرایک ہندو
مہاشئے بھی تیر کمان لیے راون کو ختم کرنے کے لیے کھڑے ہیں۔یہ کارٹون ناتھو
رام گوڈے کا بنایا ہوا تھا اور اس کے لیے ساورکر نے اُس زمانے میں دس ہزار
روپئے گوڈسے کو دیے تھے جس کا ذکر گوڈسے کے ایک خط میں کیا گیا ہے۔ یہ
کارٹون ظاہر کرتاہے کہ ان کی سوچ میں گاندھی اور انکے سنگی ساتھیوں کے لیے
کتنی نفرت تھی جس میں سردار ولبھ بھائی پٹیل بھی تھے۔
ٹائمس آف انڈیا ۲۷؍اکتوبر۲۰۰۹ء کے مطابق آر․ایس․ایس․ کے ہیڈکوارٹر پرسردار
پٹیل مخالف کتابیں فروخت ہوتی رہی ہیں۔آر․ایس․ایس․کے بہت ہی اہم مصنف
’سشادری‘ نے اپنی ایک کتاب میں بھارت کی تقسیم کا ذمہ دار سردار پٹیل کو
ٹھہرایا ہے۔اس کتاب کی کئی ہزار کاپیاں آر․ایس․ایس․کے ہیڈ کوارٹر پر ۲۰۰۹ء
تک فروخت ہوئی ہیں۔
اب تھوڑا وقت گزرتا ہے تو منظر بھی بدلنے لگتا ہے۔آر․ایس․ایس․کے پاس کوئی
قدآور نیتا تو رہا نہیں۔ لے دے کر ایک ساورکر ہی تھے اور دوسرے ناتھو رام
گوڈسے تھے جن کے رشتوں کی تفصیل’کولنس اور نیپئر‘ نے اپنی کتاب ’فریڈم ایٹ
مِڈ نائٹ‘میں تحریر کی ہے جس کا ذکر میں یہاں کرنا مناسب نہیں سمجھتا
ہوں۔بہر حال ان کے آپسی رشتے کیسے رہے ہوں گے اس پر مجھے کوئی بات نہیں
کرنی ہے ۔ اب چونکہ یہ لوگ (پتہ نہیں کیوں؟) شادی کرتے نہیں ہیں تو پریوار
بڑھانے کے لیے ہندو عورتوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ایک
طرف جگہ جگہ شاخائیں لگا کر شادی نہ کرنے والوں یا جنہوں نے شادی کر لی ہے
وہ بیویوں کو چھوڑ کر ان کے دل میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔جو لوگ دعوت
قبول کرتے ہیں ان کے لیے ترقی کی راہیں کھلی ہوئی ہیں۔
سردار پٹیل شادی شدہ تھے اور صاحب اولاد بھی تھے۔ان کی ایک لڑکی مڑیں بین
پٹیل اور بیٹا دیا بھائی پٹیل تھے۔ ان کی بیٹی مڑیں بین پٹیل کانگریس سے دو
بارلوک سبھا کی ممبر رہیں اور ایک بار راجیہ سبھا کی ممبررہیں۔۱۹۷۷ء میں
جنتا پارٹی سے لوک سبھا پہنچی۔ ایک انتخاب میں ہارنے پرکانگریس نے ان کو
راجیہ سبھا بھیجا جہاں انھوں نے معیاد پوری کی۔ یہ الزام لگایا جا رہا ہے
کہ مڑیں بین کا آخری وقت بہت ہی خراب گزرا تھا۔ وہ مدد کے لیے جواہر لعل
نہرو کے پاس گئیں تھیں لیکن انھوں نے کوئی مدد نہیں کی۔ان کے بھائی بھی
کانگریس کے ٹکٹ سے۱۹۵۸ سے آخری دنوں تک راجیہ سبھا کے ممبررہے۔
سردار پٹیل نے اپنے بیٹے دیا بھائی پٹیل سے کہا تھا کہ’’اپنے فایدے کے لیے
میرے نام کا استعمال مت کرنا‘‘ اوروہ اس پر قائم رہے۔ادھر ایک باپ بیٹے امت
شاہ اور جے شاہ ہیں۔اب جہاں اس طرح کے باپ بیٹے ہوں اُس دل دل میں فولادی
آدمی پٹیل کو انکے مرنے کے بعد بھکت لوگ لانا چاہتے ہیں اور اپنا ہیرو
بنانا چاہتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی مشہور شخصیت سمبت پاترا نے سردار پٹیل کی یوم پیدائش
کے موقعہ پرٹوئٹر پر ایک نوٹ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو
سردار پٹیل سے نفرت کرتے تھے اور یہ نفرت اُس وقت سامنے آئی جب ممبئی میں
ان کا انتقال ہوا۔سردار پٹیل کی موت کی خبر ملتے ہی انھوں نے منسٹری آف
اسٹیٹس کو دو نوٹ بھیجے جو اُس وقت کے سیکریٹری وی․پی․مینن کو مخاطب
تھے۔ایک میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’’سردار پٹیل جو کار استعمال کرتے تھے وہ
انہیں واپس بھیجوا دی جائے۔دوسرا نوٹ کا فی حیران کر دینے والا تھا۔اس میں
نہرو چا ہ رہے تھے کہ حکومت کے جتنے بھی سیکریٹری سردار پٹیل کی آخری
رسومات میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ سب اپنے خرچے پر وہاں جائیں‘‘۔
بے سر پیر کی باتیں پہلے سے کی جاتی رہی ہیں ان میں پاترا جی کی باتوں کو
بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ جب گاندھی جی کا قتل ہوا(۳۰؍جنوری ۱۹۴۸ء)ا تو
سردار پٹیل نے ۴؍فروری ۱۹۴۸ ءکو آر․ایس․ایس․پر پابندی عائد کر دی تھی
۔لیکن جب عدالت میں ساورکر نے گوڈسے کو پہچاننے سے انکار کر دیا محض یہ
ظاہر کرنے کے لیے کہ گوڈسے کا تعلق آر․ایس․ایس․ سے نہیں ہے اسی بات
پر۱۹۴۹ء میں پابندی ہٹا لی گئی تھی۔
بھکت لوگ ہر اُس چیز کو اُکھاڑ پھینکنا چاہتے ہے جس کا کسی نہ کسی طرح کا
تعلق مسلمان سے جڑا ہو۔لہذا ریلوے اسٹیشنوں کے نام، شہروں کے نام، سڑکوں کے
نام بدلے جا رہے ہیں۔بابیری مسجد میں رام کی پیدائش کا دعویٰ،تاج محل کا
شیو مندر پر بنائے جانے کا دعویٰ۔جین لوگ بیف کاکاروبار کریں مسلمان اور
دوسرے بیف کھانے والے برادرانِ وطن کھانے کوترسیں۔وہیں پر ایک بڑی دلچسپ
بات معلوم ہوئی۔سردار پٹیل اور محمد علی جناح میں بھلے ہی نظریاتی اختلاف
رہا ہو لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب پٹیل نے جناح کی مدد لی تھی۔ہوا
یہ تھا کہ احمد آباد میونیسپلٹی میں ان پر اورمع ۱۸؍دیگر کاؤنسلروں پر بد
عنوانی کا الزام لگا تھا اور ایک لاکھ اڑسٹھ ہزارروپئے کا گھپلہ تھا۔احمد
آباد ضلع عدالت میں یہ مقدمہ چل رہا تھا جہاں سے ممبی ہائی کورٹ میں منتقل
ہوا(۱۹۲۳) جہاں وکلاء کے پینل کی سربراہی جناح نے کی اور مقدمہ کو جیتا۔اب
دیکھنا یہ ہے کہ یہاں جناح کا نام تبدیل کیا جاتا ہے یا اس سچائی سے انحراف
کیا جاتا ہے۔بہر حال کوشش یہی جاری ہے کہ کسی طرح سے سردار ولبھ بھائی پٹیل
کااغوا کرکے ان کا بھگوا کرن کرلیا جائے تاکہ پارٹی کو’ اُورجا‘ مل سکے۔
|