میرے چند قارئین نے کہا ہے کہ کافی دن ہوئے آپ کی کوئی
تحریر پڑھنے کو نہیں ملی، انہیں کیا کہا جا سکتا ہے۔ دراصل وطن عزیز پر
نافذ شدہ حالات کا تسلسل ایسا ہے کہ ہر لمحے، ہر حرکت، ہر حکم، ہر آن ہر
سٹیک ہولڈر اور ہر سٹیک ہولڈر کے ہر حواری پرکالم کیا کتاب بھی لکھی جائے
تو کم ہے…… کسی نے صحیح کہا کہ جن کو پڑھنا چاہیے انہوں نے لکھناشروع کردیا
ہے ۔ واقعی ابھی ہمیں لکھنے نہیں بلکہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ تو پھر سوچا کہ
حالات حاضرہ پر کسے پڑھیں، جب عصر حاضر کے نامور دانشور نظروں سے گزرے تو
وہ سب کے سب بھی کسی نہ کسی حکمران طبقے کے جیالے ، متوالے ، جنونی اور
سپاہ ہی دکھائی دیئے جو خود بھی لکھتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ جھوٹ لکھ رہے
ہیں، انہیں کیا پڑھنا۔ آج وطن عزیز میں آکسیجن سے زیادہ جھوٹ، بہتان، بے
حسی، کم ظرفی، بدخواہی، منافقت اور خود غرضی دستیاب ہے۔ کیا لکھیں کہ نوا
زشریف کا فیصلہ میرٹ پر کیا گیا یا سزا کم دی گئی، وطن عزیز میں آج حکومت
کس کی ہے اور اپوزیشن کا کردار کس کا ہے؟ یہ رکن پارلیمنٹ سے زیادہ عام
شہری جانتا ہے…… تجزیوں کا جمعہ بازار ملاحظہ فرمائیں کہ جس شخص کو پاکستان
کا صدر منتخب ہونے پر ایک ’’نابغہ روزگار‘‘ نے اپنے درجنوں کالموں میں دہی
بھلے، ربڑی زندہ باد ، دہی بھلے ربڑی زندہ باد اور نہ جانے کیا کیا لکھ
ڈالا آج اس کو اﷲ لوک اور مرنجاں مرنج لکھ رہے ہیں۔ بابر اعوان جتنی دیر
پیپلزپارٹی میں رہا کوئی کریڈیبلٹی نہ تھی۔ زرداری کی طرح الزامات میں لتھ
پتھ تھا، پی ٹی آئی جائن کرتے ہی عاشق رسولؐ اور ہزاروں پر بھاری قرار دے
دیا گیا۔اس ’’سیانے‘‘ کو کیا پڑھنا۔ ابھی تک جن کی نظر میں بی بی شہید
سکیورٹی رسک تھیں آج اُن کی پارٹی فخریہ انداز میں اُن کی بیٹی مریم نواز
کو دوسری بینظیر قرار دے رہی ہے۔ اس موازنے پر تجزیہ کار سیخ پا ہوئے
سنبھالے نہیں جا رہے، (ن) لیگ کا اعلامیہ اور مشاہد اﷲ کا یہ بیانیہ ہے کہ
نوا زشریف اور بھٹو میں کوئی فرق نہیں مگر سننے والے اس دعوے اور موازنے پر
تمسخر اڑا رہے ہیں۔ ان حالات اور دعووں پر کیا لکھا جائے۔
ماتحت عدلیہ کی وکلاء سے حفاظت مقامی پولیس کرے، آئے دن معزز جج صاحبان کی
جو درگت بنتی ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں اور توہین عدالت کی باتیں ہوتی
ہیں۔ اُن لوگوں کے لیے جو فیصلہ آنے کے بعد اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں۔
کسی تھانہ کا مطلوب شخص کسی عدالت یا تھانہ میں پیش ہو کر کسی اور معاملہ
پرریلیف نہیں لے سکتا جبکہ ایک قومی سیاستدان عدالتوں ، اعلیٰ عدلیہ سے
اشتہاری ہوتے ہوئے بھی سپریم کورٹ میں تاریخی مقدمہ میں نہ صرف پٹیشنر تھا
بلکہ بار بار پیش ہوتارہا اور اس کی درخواست پر وزیراعظم نااہل ہوا مگر
اشتہاری متعلقہ عدالت میں پیش نہ ہوا۔ کیا لکھیں کہ معاملات آئین قانون ،
مسلمہ روایات کے مطابق چل رہے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے کا تجربہ کار کامیاب
وزیراعلیٰ اگر کہے کہ نیب کرپٹ ترین ادارہ ہے، احتجاجی راہنما نیب کو جگتیں
مارے اور سپریم کورٹ آئے دن تحفظات کا اظہار کرے تو پھر احتساب والوں کا
احتساب کون کرے گا۔
ججوں ، جرنیلوں اور بیورو کریٹس کے احتساب کا مطالبہ آتا رہتا ہے مگر میڈیا
پرسنز کے احتساب کا مطالبہ کرنے کی کسی میں جرأت نہیں ہے۔ دانشور ، تجزیہ
کار، قلم کار، لکھاری جب سیاسی ، مذہبی سیاسی، لسانی و دیگر جماعتوں کے
کارکن بن جائیں، جب حقائق کی بجائے خواہش لکھیں تو کیا کسی بہتری کی امید
ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی وطن عزیز کے میڈیا پر زرداری، عمران، نواز اور مخصوص
اداروں کے علاوہ رکھا ہی کیا ہے۔ کیا یہ عوام کے خلاف شعوری سازش نہیں ہے
کہ ان کے مسائل پس پشت ڈال کر ان چند کرداروں کو قومی ایشو بنا کر پیش کیا
جائے۔ ملاوٹ، منافقت، رشوت، ذخیرہ اندوزی، دھونس، ظلم، جبر، ڈھٹائی، فتویٰ
فروشی، رائے فروشی ، ضمیر فروشی جب جائز کاروبار قرار پائے جس جبر مسلسل کا
پاک وطن کے باسی مسلسل سامنا کر رہے ہیں بچے بھی لمحوں میں بوڑھے ہو جائیں،
تو کیا لکھیں۔ کیا نیلسن منڈیلااور زرداری کی جیل، نوازشریف کی جلاوطنی اور
عمران کے دھرنے عام پاکستانی کی نام نہاد آزادی سے بہتر نہیں وطن عزیز میں
ہمارا لکھاری، ہمارا محتسب کسی نہ کسی ایک کو ٹارگٹ رکھتا ہے پھر اس کی
تذلیل، اس کی شامت اور اس پر جھوٹ سچ بولنا ایک فیشن بن جاتا ہے۔ اس فیشن
کو زرداری نے بہت بھگتا، پیپلزپارٹی نے بہت بھگتا، اب نواز شریف ہے اور
حالت یہ ہے کہ جو اپنے گھر کے ملازم کے سامنے اونچا نہیں بول سکتے۔ میاں
نواز شریف پر ہاتھ اور زبان صاف کر رہے ہیں۔ میرے دوست جانتے ہیں کہ میں
میاں صاحب کا سیاسی طور پر کبھی بھی حامی نہیں رہا مگر سادگی کی بھی کوئی
حد ہوتی ہے، جو میاں نوازشریف پیسے کے زور پر پنجاب کا وزیر خزانہ بنا،
وزیراعلیٰ بنا سازش دھاندلی سے 88 ء میں پی پی کے سامنے اسٹیبلشمنٹ نے
دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب کی صورت کھڑا کیااور بعد میں وزیراعظم بنا۔ جس کو
حمید گل نے کہا کہ نواز شریف ایجنسیوں کا فخر ہے اور ضیاء الحق نے کہا کہ
نواز شریف نے پنجاب میں کلہ گاڑا ہوا ہے اور فرط محبت میں اپنی عمر بھی
نواز شریف کو لگنے کی دعا کی۔ اور وہ نواز شریف جس نے ضیاء کے مشن کو آگے
بڑھانے کا عزم کیا آج اس سے پوچھا جا رہا ہے کہ تمہارے پاس پیسہ کہاں سے
آیا اور آج اس کو ملک دشمن کی آنکھ سے دیکھا جانے لگا۔ دراصل یہ میاں صاحب
کے ساتھ مکافات عمل ہے۔ بی بی شہید پر جو مقدموں کی بھرمار تھی، تاریخ پہ
تاریخ، تاریخ پہ تاریخ ڈالی جاتی رہی، آج وہ ان کی بیٹی اور داماد کے ساتھ
ہو رہا ہے اور ان کے ساتھ بیٹے بھی شامل کر دیئے گئے۔ کبھی بینظیر کے
خاندان میں پھوٹ کے مزے لیے جاتے تھے آج حمزہ اور مریم کی ملاقات ایسے ہے
جیسے سورن سنگھ اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا معانقہ ہو، جیسے
اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی ملاقات ہو ۔ یہ سب قدرت کے رنگ ہیں۔
رنگوں کے اس کاروبار میں ہماری کیا بساط ہے کہ ہم کچھ لکھیں۔ ایک نابغۂ
روزگارفرط ستائش میں (ق) لیگ کا دور تھا تو مونس الٰہی کی تعریفوں کے پل
باندھنے لگا حتیٰ کہ یہ بھی تحریر کر دیا کہ اتنا خوبصورت ہے انڈین فلموں
میں کام کرے یہ الیکشن کے دھندے میں کدھر سرگرداں ہے اور جب ایم کیو ایم کو
پنجاب میں لانچ کرنا تھا تو لکھ دیا کہ ہم میں سے حیدر عباس رضوی، فاروق
ستار، بابر غوری وغیرہ کیوں نہیں ہیں۔ جب آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ شکر ہے
یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں۔ اب بتائیے! انہیں کیا پڑھیں اور حالات پر کیا
لکھیں؟ جب قائدعوام فخر ایشیا کا نواسہ دختر مشرق شہید بی بی کا بیٹا بلاول
شرجیل میمن جیسے غیرت سے عاری شخص کا دفاع کرے یا پکڑے جانے کی مذمت کرنے
پر مجبور ہو تو سیاسی غلامی اور مجبوری کی درجہ بندی پر کیا لکھیں۔
کیوں لکھیں جب لکھا ہوا آئین کسی طاقتور کے حکم کے سامنے بے معانی ہو جاتا
ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر جعلی تجزیے، موازنے اور تاریخی حوالے چلتے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کے وقت حکمران جنرل یحییٰ اور فوجی کمانڈر جنرل نیازی (عمران
خان کے پھوپھا ) کے پاس تھی لیکن بنگالیوں کے ساتھ رہنے کی خواہش کا عالم
یہ ہے کہ آج پھانسیاں چل رہی ہیں۔ نئی نسل پوچھتی ہے ایٹمی پروگرام کے
معمار، اسلامی کانفرنس کے چیئرمین، 5 ہزار مربع میل علاقہ ڈرٹی انڈیا سے
واپس لینے ، نوے ہزار جنگی قیدی فوجی آزاد کرانے، متفقہ آئین دینے والے،
ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والوں کو کافر قرار دینے والے۔ امریکہ کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے کو بھارت نے پھانسی دی تھی؟ دہائیوں بعد
کردار کا تعین کرنے والی معاشرت میں چلتے لمحے میں کیا لکھا جائے۔ اس غدر
میں تو کچھ سوجھائی نہیں دے رہا ہے کہ کیا لکھیں۔ |