عرب ممالک کے کشیدہ حالات پہلے ہی عالم اسلام کے لیے
کیا کم تشویش کا باعث تھے کہ اب یہ کشیدگی عالم اسلام کے مرکز سعودی عرب کی
داخلی سطح پر بھی ظاہر ہو چکی ہے ۔سعودی عرب کے نئے ولی عہد محمد بن سلیمان
کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کے حکم پر 11سعودی شہزادوں سمیت ، کئی سابق
و موجودہ وزراء، نیشنل گارڈز سمیت کئی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں اور
کاروباری شخصیات کوپہلے گرفتارکیا گیا اور ظاہر یہ کیا گیا کہ یہ گرفتاریاں
کرپشن میں ملوث ہونے کی بناء پر کی گئی ہیں لیکن بعدازاں شہزادہ ولید بن
طلال جن کا شمار دنیا کے امیر ترین اور بااثر افراد میں ہوتا ہے سمیت 7
اعلیٰ عہدیداروں کو جن میں سابق وزیر متعب بن عبداﷲ ، سابق گورنر ترکی بن
عبداﷲ ، شہزادہ ترکی بن ناصر اور شہزادہ فہد بن عبداﷲ شامل ہیں یہ کہہ کر
رہا کر دیا گیا کہ ان کے خلاف کرپشن کے ثبوت نہیں مل سکے ۔گویا بغیر کسی
ثبوت کے اتنی بڑی تعداد میں بااثر اور اعلیٰ عہدیداروں کو گرفتار کرنا جہاں
بذات خود مضحکہ خیز لگتا ہے وہاں اس عجلت پسندی نے اپنے پیچھے کئی سوالات
بھی چھوڑے ہیں ۔ انتہائی قابل غور بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اچانک اس وقت عمل
میں آیا ہے جب چند دن قبل امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے یہودی داماد جو کہ ٹرمپ
کے مشیر بھی ہیں سعودی عرب کا خفیہ دورہ کرکے واپس لوٹے ہیں۔اس سے قبل جب
ڈونلڈ ٹرمپ خود سعودی عرب کے دورے سے واپس لوٹے تھے تو اس کے فوراً بعد
سعودی عرب کی قطر سے کشیدگی کا معاملہ سامنے آیا تھا ۔اس لحاظ سے دنیا بھر
کے تجزیہ نگار یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ سعودی حکومت کا ہر
فیصلہ امریکہ کی مرضی میں ڈھل کر سامنے آتا ہے اور بالآخراسرائیل کے مفاد
میں جاتا ہے ۔اس لیے کہ سعودی حکمران جتنی بھی امریکہ سے دوستی کی پینگیں
بڑھا لیں امریکہ خطے میں صرف اسرائیل کے مفادات کا محافظ ہے اور اسرائیل
اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے چاہتا ہے کہ کوئی بھی عرب ملک
استحکام کا حامل نہ رہ سکے ۔ لہٰذا کہیں عرب اسپرنگ کے ذریعے حکمرانوں کے
تختے اُلٹ کر ان عرب ممالک کو عدم استحکام کا شکار بنایا گیا تو کہیں داعش
اور القاعدہ سے کام لیا گیا ۔کہیں کسی عرب ملک کو تاراج کرنے کے لیے
کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لیا گیا تو کہیں دہشت گردی
اور بنیاد پرستی کا ہوا کھڑا کیا گیا ۔عراق، شام ، لیبیا ، مصر ، یمن اس
اسرائیل گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ قطر کے لیے الجزیرہ کا بہانہ تراش لیا گیا
اور وہ بھی عرب کشیدگی کی زد میں آگیا ۔ سعودی حکومت چونکہ اس لحاظ سے ایک
مضبوط حکومت ثابت ہوئی تھی کہ اس نے اب تک عرب اسپرنگ ، القاعدہ ، داعش
وغیرہ جیسے ہتھکنڈوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا تھا اورسعودی عوام کو سعودی
حکومت کے خلاف کھڑا کرنے سمیت ان میں سے کوئی بھی صیہونی حربہ سعودی عرب
میں گارگر نہیں ہو سکا تھا لہٰذا ہمارے خیال میں اب یہ سیاسی اُکھاڑ بچھاڑ
سعودی حکومت کے اندر پھوٹ ڈالنے کی یہ ایک کوشش ہو سکتی ہے ۔ اس کی ایک
واضح مثال یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اسی دوران جب سعودی عرب میں یکلخت یہ
سیاسی طوفان موجزن ہوا یمن کی سرحد کے قریب سعودی عرب کے سابق ولی عہدکے
بیٹے منصور بن مقرن جو کہ صوبہ عسیر کے ڈپٹی گورنر تھے ایک ہیلی کاپٹر
حادثے میں جاں بحق ہو گئے ۔یاد رہے کہ شہزادہ مقرن کو اپریل 2015ء میں ان
کے سوتیلے بھائی شاہ سلیمان نے ولی عہدی سے ہٹا دیا تھا اور ان کی جگہ محمد
بن نائف کو ولی عہد بنایا گیا تھا لیکن21 جون2017ء کو اُنہیں بھی برطرف کر
کے شاہ سلیمان نے اپنے بیٹے محمد کو ولی عہد مقرر کر دیا۔منصور بن مقرن کے
ساتھ پیش آنے والے اس حادثے کو عوامی سطح پر پہلے ہی شکوک کی نگاہ سے دیکھا
جا رہا تھا اور عوام میں یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ شہزادہ منصور بن
مقرن کو بھی سعودی حکومت نے سازش کے تحت راستے سے ہٹا دیا ہے ۔ اس پر جلتی
پر تیل کا کام اسرائیل کے اس دعوے نے کر دیا کہ شہزادہ منصور کے ہیلی کاپٹر
کو خود سعودی لڑاکا طیاروں نے گرایا ہے کیونکہ وہ ملک سے فرار کی کوشش میں
تھے ۔ حادثے کی حقیقت چاہے کچھ بھی ہو لیکن ہمارے خیال میں سعودی حکومت
اسرائیل اور امریکہ کے سامنے چاہے جتنی بھی بچھتی چلی جائے ان کا ہدف
بہرحال سعودی عرب کو نہ صرف داخلی سطح پر عدم استحکام کا شکار کرنا ہے بلکہ
خارجی سطح پربھی اس کے خلاف کئی محاذ گرم کیے جا رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں
ہی یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پر داغا
جانے والا میزائل جو اگر چہ ناکام بنادیا گیا لیکن اس کے حوالے سے نہ صرف
امریکی فضائیہ نے باقاعدہ اعلان کیا کہ یہ میزائل ایرانی ساختہ تھا بلکہ
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر بھارتی نژاد نکی ہیلی نے بھی ایران کے خلاف
اقوام متحدہ کی دو قراردادوں کی خلاف ورزی پرکارروائی کا مطالبہ کیا ۔گویا
یمن اور ایران کا محاذ سعودی عرب کے خلاف پہلے ہی گرم تھا اب اس خطرے کو
مزید بڑھا کر قطر کے بعد اب لبنان کا محاذ بھی سعودی عرب کے خلاف کھولا جا
رہا ہے ۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں رونما ہونے والے ان پے در پے واقعات
میں ایک واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری نے ریاض
میں بیٹھ کر استعفیٰ دے دیا اوراس کی وجہ اس نے لبنان میں ایران کی بڑھتی
ہوئی مداخلت ظاہر کی اور کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اﷲ
اُس کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ یہ استعفیٰ
امریکی صدر اور محمد بن سلیمان کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کا مقصد خطے
میں کشیدگی کو بڑھانا ہے اور حزب اﷲ تو واضح طورپر اس کو لبنان کے خلاف
سعودی عرب کا اعلان جنگ قرار دے رہی ہے ۔لبنانی صدر عون نے بھی سعودی عرب
پر یہ دہرا الزام عائد کیا کہ اس نے لبنان کے منتخب وزیر اعظم کو استعفیٰ
پر مجبور کرنے کے بعد اُسے نظر بند کر رکھا ہے ۔ جواب میں سعدالحریری نے
کہا کہ وہ سعودیہ میں بالکل آزاد ہیں اور یہ استعفیٰ انہوں نے حزب اﷲ اور
ایران کی جارحانہ مداخلت کی وجہ سے دیا ہے ۔یہ حالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ
قطر کے بعد اب جہاں لبنان سے بھی سعودی عرب کی کشیدگی کی بنیاد رکھ دی گئی
ہے وہاں لبنان کو داخلی سطح پربھی عدم استحکام کا شکار کرنے کا بیج بو دیا
گیا ہے ۔ کیونکہ حزب اﷲ کے لیڈرحسن نصراﷲ نے یہ بھی کہا ہے کہ لبنان میں
ایک مضبوط اور بااختیار صدر کی ضرورت ہے ۔ حزب اﷲ کے لیڈر کے اس بیان سے
مستعفی لبنانی وزیر اعظم کے موقف کی باقاعدہ تصدیق ہوتی ہے ۔ جس کا مطلب یہ
ہے کہ لبنان میں داخلی سطح پر سیاسی انتشار پہلے سے موجود تھا جس میں سعودی
حکومت کو ملوث کر کے لبنان کے سیاسی انتشار کو ایک بین الاقوامی تنازعے کی
شکل میں کھڑا کیا جارہاہے اور اس کو ہو بہو سعودیہ یمن کے تنازعہ کی شکل دی
جارہی ہے۔ جس طرح یمن میں حوثی سعودی عرب کے مخالف ہیں اسی طرح لبنان میں
حزب اﷲ بھی سعودی عرب کی شدیدمخالف ہے ۔ لہٰذا قرائن بتا رہے ہیں کہ دیگر
عر ب ممالک کی طرح اب لبنان کو بھی عدم استحکام کا شکار کرنے کا منصوبہ بنا
لیا گیا ہے اور اس کے لیے حزب اﷲ کا بہانہ پہلے سے موجود تھا ۔ اس کا اشارہ
اس بات سے بھی ملتا ہے کہ سعودی عرب سمیت بحرین ،منامہ ، کویت ، متحدہ
امارات نے اپنے شہریوں کو لبنان چھوڑ دینے کا حکم دے دیا ہے ۔ محسوس ہوتا
ہے کہ متحدہ عرب آرمی کے مقاصد اب کھل کر سامنے آئیں گے۔ منصوبہ ساز قوتوں
کا مقصد واضح ہے کہ ایک طرف عرب ممالک کو آپس میں بھڑا کر ان کو کمزور کیا
جائے اور اسی دوران ان سے اسلحہ کے معاہدے کر کے ان کو معاشی ضربیں بھی
لگائی جائیں اور دوسری طرف داخلی سطح پر بھی انتشار پیدا کرکے پورے عالم
عرب کو حالت جنگ میں دھکیل دیا جائے ۔
یہ سب حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں شاید عرب اب اُسی ہولناک تباہی کی طرف بڑھ
رہے ہیں جس سے اس اُمت کا درد رکھنے والے پیارے نبی ﷺ نے آج سے تقریباً
ساڑھے چودہ سو سال پہلے آگاہ کر دیا تھا ۔حدیث رسول ﷺ ملاحظہ ہو ۔
’’اُم المومنین حضرت زینبk فرماتی ہیں کہ ایک دن اﷲ کے نبیﷺ گھبرائے ہوئے
داخل ہوئے اور آپؐ نے کہا: لا الٰہ الا اﷲ! بربادی ہے عرب کے لیے اس شر سے
جو قریب آگیا۔ آج کے دن یا جوج ماجوج کی دیوار میں سے اتنا کھول دیا گیا۔
آپؐ نے اپنے ہاتھ سے دائرہ بنایا۔ حضرت زینبk فرماتی ہیں کہ اے اﷲ کے رسولؐ!
کیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں!
جب ناپاک لوگ زیادہ ہوں گے۔ ‘‘(بخاری)
عالمی قوتیں چاہے جتنی بھی طاقتور اور منصوبہ ساز کیوں نہ ہو ں لیکن اس
بدبختی اور بے چارگی کے ذمہ دار موجودہ عرب خود ہیں ۔قرآن ان کی زبان میں
نازل ہوا تھا لہٰذا ساری دنیا سے زیادہ وہ قرآن کو سمجھ سکتے تھے ۔ چاہیے
تو یہ تھا کہ وہ قرآن کے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچا تے ، قرآن کی تعلیمات
کی روشنی میں نہ صرف اسلامی نظام کی برتری انسانوں کے بنائے ہوئے باطل اور
فرسودہ نظاموں پر ثابت کرتے بلکہ عرب و عجم کے سارے امتیازات اور نسلی ،
لسانی ، علاقائی تفرقات کومٹا کر اسلامی نظام کی مضبوطی اور استحکام کا
باعث بنتے اور ساری دنیا کے سامنے اسلامی نظام کا ایک نمونہ پیش کرتے ۔مگر
بجائے اس کے انہوں نے اسلامی نظام ( خلافت عثمانیہ ) کے خلاف بغاوت کے
نتیجے میں عالمی استعماری قوتوں سے بھیک میں محض زمین کے جو ٹکڑے حاصل کیے
وہاں بھی اپنی من مرضی کی بادشاہتیں قائم کر لیں اور دین کی سربلندی کی
بجائے بلند و بالا عمارتیں اور عالی شان محل اُن کے مطمعٔ نظر ٹھہرے ۔ جس
سرزمین کو اﷲ کے دین کی تبلیغ و تعلیم کے لیے چنا گیا تھا وہاں انہوں نے
عیاشی، فحاشی اور بے حیائی کے اڈے قائم کر لیے۔ اﷲ کے نبی ﷺ نے جس سرزمین
کو شرک سے پاک کیا تھا اسی سرزمین پر انہوں نے ہندوؤں کو مندر بنانے کے لیے
جگہیں دے دیں ۔غر ض دین سے بے وفائی اور غداری کا کون سا پہلو تھا جس کے
موجودہ عرب حکمران مرتکب نہیں ہوئے ۔نتیجہ میں وہ ہولناک تباہی متوقع تھی
جس سے نبی اکرم ﷺ نے خبردار کیا تھا ۔
اس میں ہمارے لیے بھی ایک بڑا سبق ہے کہ یہ ملک اﷲ نے ہمیں اس وعدے پر دیا
تھا کہ ہم یہاں اسلام نافذ کریں گے ۔ لیکن 70برس گزر گئے ، بجائے اسلام کی
طرف بڑھنے کے ہم آئین سے بھی بچا کھچا اسلام نکالنے کے درپے ہیں ۔ حتیٰ کہ
تحفظ ناموس رسالت اور ختم نبوت کے قوانین بھی ہمیں برداشت نہیں ہو رہے اور
محض اسلام دشمن قوتوں کی خوشنودی کے لیے انہیں بھی آئین سے نکال دینا چاہتے
ہیں ۔ گویا ہم بھی عربوں کی طرح اپنی ہولناک تباہی کو دعوت دے رہے ہیں ۔کا
ش ! کہ ہم سمجھ جاتے کہ نہتے طالبانِ افغان پوری دنیا کی سپر طاقتوں کو
بچھاڑ سکتے ہیں تو عرب و عجم کے ہم مسلمان مال ودولت کی کثرت ،حتیٰ کہ
ایٹمی قوت کے حامل ہوتے ہوئے بھی دشمنوں کے چرکے کیوں سہہ رہے ہیں؟ کاش! کہ
ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف لوٹ آئیں ! |