وادی نیلم کشمیر کی وادیوں میں سےایک خوبصورت وادی ھے۔
اسلام آباد سے تقریبا200 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود یہ حسین وادی سیاحوں
کے لئے جنت سے کم نہیں۔ ہم دوستوں نے پلان بنایا کہ اس دفع وادی نیلم گھوم
کے آتے ہیں۔ سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ اگست کے آخر میں صحیح وقت رہے
گااور موسم بھی اچھا ہو گا۔ہم پانچ دوست جانے کےلئے تیار تھے لیکن یہ فیصلہ
کرنا مشکل ھو رہا تھا کہ اپنی گاڑی میں جانا چائے یاپبلک ٹرانسپورٹ بہتر
ہے۔ تھوڑی سوچ بیچاراور کچھ معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ اپنی
گاڑی پے جانا بہتر رہے گا۔اور جہاں ضرورت پڑی جیب لے لیں گے۔
ہمارا سفر صبح سویرے شروع ہوا ۔ مری سے ہوتے ہوئے ہم دن تقریبا 1 بجے
مظفرآباد پہنچ گئے۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اگر آپ اپنی
گاڑی پر جا رہے ہیں تو گاڑی اور ڈرائیور دونوں کا فٹ ھونا ضروری ہے۔ ہمارا
گروپ اس معاملے میں خودکفیل تھا۔ نئی گاڑی اور ڈرائیوربھی پہاڑی علاقوں کا
کھلاڑی تھا۔ مظفر آباد پہنچنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ کھانا راستے میں کھائیں
گے تا کہ شام تک ہم اپنی پہلی منزل اتھمقام پر آسانی سے پہنچ جائیں۔ مظفر
آباد سےنیلم روڈکےاوپر تقریبا 30 منٹ کی مسافت پر مارکوپولو ریسٹورانٹ
واقع ہے جومقامی کھانوں کےلئے مشہور ہے۔ہم وہاں پہنچے تو دوپہر کے کھانے کا
وقت ہو چکا تھا۔ اس لئے تمام ٹیبل پہلے سے ہی بُک تھے اورہمیں انتظار کرنے
کا کہا گیا۔ پندرہ منٹ کے بعد ہمیں بیٹھنے کی جگہ مل گئی۔کھانے میں سبزی،
چکن قورمہ اور کڑھی منگوائی گئ جوکافی لذیذ تھے۔
اس دوران دوپہر کے تین بج چکے تھے اور ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے کےلئے کافی
وقت درکار تھا۔ ایک بات سے ہم لوگ مطمئن تھے اور وہ یہ کہ جنا ب خرم صاحب
جو کہ ایک بزنس مین ہیں اور ہم ان کی ہی گاڑی میں جا رہے تھے۔وہ پہلے بھی
وادی نیلم جا چکے تھے اور راستوں سے بھی خوب واقف تھے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی
تھی کہ انکا سسرال مظفرآباد میں ہے اور اسکا فائدہ یہ ہوا کہ ہم بےفکری
میں تھے کہ امید ہے ہم لوگ آسانی سے پہنچ جائیں گے۔باقی دوستوں کا تعارف
بھی ضروری ہے جن میں سب پہلے ساجد خان جو کہ ایک بینک میں مینیجر ہیں اور
ہماری سیاحتی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں تمام انتظامات ان ہی کے ذمہ ہوتے
ہیں۔حسن فیاض بھٹی واہ کینٹ کےایک مشہور ادارے میں لیکچرار ہیں اور اپنی
اکیڈمی بھی چلا رہےہیں اورسیاحت کےشوقین ہیں۔ یاسر عبداللہ میرے ساتھ ہی
سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ہم دوستوں کا گروپ بہت پرانا
ہے اور ایک خصوصیت کی وجہ سے اکھٹے ہیں اور وہ یہ کہ ہم ایک دوسرے سے
مقالمہ بازی،بحث مباحثہ اور آزادی رائے کے باوجود اخلاقیات کو ملحوظ خاطر
رکھتے ہوئےکسی کی بھی عزت نفس کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ کھانے کے بعد ہم
لوگ راستے میں کہیں بھی نہیں رکے اور رات تقریبا آٹھ بجے اپنی پہلی منزل
اٹھمقام پہنچ گئے۔ آٹھمقام پاکستان کی ریاست آزاد کشمیر کا ایک قصبہ ہے جو
مظفرآباد سے 84 کلومیٹرکے فاصلہ پر ہے ۔ یہ ضلع نیلم کا صدر مقام بھی
ہے۔یہاں ضروریات زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں موجود ہیں۔اور سیاحوں کو
ٹھہرانے کےلئے بھی کافی مہمان خانے موجود ہیں۔ہماری پہلے سے ہی بکنگ موجود
تھی اس لئے سیدھا ہم اپنے ہوٹل پہنچے۔ ہوٹل مالک نے پرتباک استقبال
کیاکیونکہ وہ خرم صاحب کو پہلے سے جانتا تھا اور اُسے ہمارے آنے کی خبر
پہلے ہی مل چکی تھی۔چائے پینے کے بعداپنے روم میں پہنچے۔ ہمارا ہوٹل جو کہ
دریا کے کنارے واقع تھا اور ہمارےکمرے کا دروازہ دریا کی طرف کھلتا تھا۔
رات کی خاموشی میں دریا کی سنسناتی لہروں کا شور اورہوا میں ہلکی سی خنکی
نے سب کو تخیلاتی دنیا میں دھکیل دیا۔سب دوست خاموشی سے اس سحر طاری کر
دینے والی کیفیت کو اپنے خیالوں میں گم انجوائے کر رہے تھے کہ اچانک دروازے
پر دستک ہوئی اور جیسے کسی نے آپکو حسین خواب سےجھنجھوڑ کر جگا دیا
ہو۔دروازے پر ویٹر کھڑا تھا۔ وہ کھانے کا منیو پوچھنے آیا تھا کیونکہ
ہمارے آرڈر کے بعد ہی کھانا تیار ہونا تھا۔ اس وقت رات کے نو بج چکے تھے
اور ویٹر نے بتا یا کہ ہوٹل میں روٹیاں بنانے کا انتظام نہیں ہے اور باہر
کے تنوررات ۱۰ بجے بند ہو جائے گااس لئے آپ جلدی سے آرڈر دے دیں تا کہ
وقت پر روٹیاں مل جائیں۔
کوئی ۳۰منٹ کے بعد ہم لوگ ٹیرس پر پہنچے جہاں کھانا ٹیبل پر لگایا جا رہا
تھا۔ ہلکی ہلکی خنکی میں دریا کی ٹھاٹھیں مارتی موجوں کی سریلی آواز یں
کھانے کا لطف دوبالا کر رہی تھیں اور کھانا بھی بہت اچھا بنا ہوا تھا۔
کھانے کے بعدسبز چائے کا قہوا پینے کا بھی اپنا ہی مزا آتا ہے۔ سب دوست
سفر کی تھکاوٹ بھی محسوس کر رہے تھے اور صبح جلدی اُٹھنا بھی تھا تاکہ اپنی
اگلی منزل اڑنگ کیل کےلئے وقت پر روانہ ہو سکیں۔اس لئے سب جلد ہی نیند کی
گہری وادیوں میں گم ہو گئے۔
صبح سویرے تازہ دم ہو کر سب دوست دوبارہ ٹیرس پر اکٹھے ہوئے جہاںہم سب
ناشتے کے ساتھ ساتھ قدرت خداوندی کے حسین نظاروں سے بھی لطف اندوز ہو رہے
تھے۔ ایک طرف اپنی روانی میں بےنیازی سے بہتا دریا اور دوسری طرف دور تک
دکھائی دیتے سرسبز و شاداب اور لہلاتے چیڑ کےدرخت اور آسمان کو چھوتے پہاڑ
ایک دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔
ناشتے کے فورا بعد ہم اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں کرن،
شاردہ سے ہوتے ہوئے ہم لوگ دن ۳ بجے کیل پہنچ گئے۔ کرن اور شاردہ بھی
سیاحتی مقامات ہیں لیکن چونکہ ہماری منزل کیل تھی اس لئے ہم تھوڑی دیر رک
کراپنی اصل منزل کی طرف سفر جاری رکھا۔ راستے میں ایک جگہ دریا کے بیچ و
بیچ چارپائیاں لگی دیکھی تو چائے پینے کے لئے رک گئے۔پانی بہت ٹھنڈا تھا
لیکن ہمت کر کے چارپاہیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔وہاں کی چائے اور
تصویریں ابھی تک وہ منظر بھولنے نہیں دیتیں۔
کیل وادی نیلم کے خوبصورت گاؤں میں سے ایک ہے۔یہ مظفرآبادسے تقریبا ۶۸۷۹
فٹ کی بلندی اور ۱۵۵ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔اچھے موسم میں
مظفرآباداور کیل کے درمیان مسافر بسیں روزانہ چلتی ہیں۔ چند نجی ہوٹل اور
آزاد کشمیرکا محکمہ سیاحت اور آثار قدیمہ کا ایک ریسٹ ہاؤس سیاحوں کے لیے
وہاں موجودہے۔ایک بینک ،کالج اور ہسپتال بھی ہے۔
کیل سرحد کے بلکل قریب واقع ہےاور شاردہ سے آگے سڑک کچی ہے ۔موسم سرما میں
اکثر لینڈ سلائیڈنگ اور برف کے تودے گرتے ہیں ۔سردیوں میں شدید برف باری کی
وجہ سے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں اور یہاں تک رسائی ناممکن ہو جاتی ہے۔یہ
تمام عوامل مل کر اس تک پہنچنے کے لئے سب سے زیادہ مشکل مقامات میں سے ایک
بنادیتی ہے۔
کھانا کھانےکے بعد ہم اڑنگ کیل کی طرف روانہ ہوئے۔یہاں ہمیں اپنی گاڑی پارک
کرنا تھی کیونکہ کیل سے آگے آپ اپنی گاڑی نہیں لے جا سکتے۔ گاڑی پارکنگ
کے لئے مقامی لوگوں نے کچھ مخصوص جگہیں بنائی ہوئی تھیں چونکہ مقامی لوگوں
کا زریعہ معاش محدود ہے اور ہمیں اپنی گاڑی کی حفاظت بھی درکار تھی۔ لہذا
ہم نے ایک مقامی آدمی کے پاس ۲۰۰روپے کے عوض اپنی گاڑی پارک کردی۔
یہاں پر حکومت کی طرف سے کیبل کار کی سہولت موجود تھی اور اس میں تقریبا ۸
سے ۱۰ لوگ آسانی سے سوار ہو سکتے تھے۔یہ ایک ہی کیبل کار تھی جو اس طرف سے
پہاڑ کی چوٹی تک جاتی تھی اور وہاں موجود مسافرں کو اس طرف لے کر آتی تھی۔
یہ فاصلہ تقریبا ۱۰ منٹ میں طےہو جاتا تھا۔اس لئے مسافروں کو زیادہ انتظار
نہیں کرنا پڑتا۔ہم نے بھی ٹکٹ لئے اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے۔ اتنے
میں میری نظر ایک گروپ پر پڑی جو کسی میڈیکل کے طلبا و طلبات لگ رہےتھے۔ ان
کا ارادہ پہاڑ کی چھوٹی کو پیدل سر کرنے کا تھا لیکن کچھ خواتین تھوڑی
زیادہ صحت مند ہونے کی وجہ سے پیدل جانے سے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آ رہی
تھیں لیکن انکا گروپ لیڈر انھیں پیدل جانے کے لئےان کی حوصلہ افزائی کر رہا
تھا۔ اور ہم دل ہی دل میں ان کی ہمت اور جرات کو داد دے رہے تھے کہ اتنی
دیر میں ہمارا انتظار ختم ہوا اور ہم سب دوست کیبل کار میں سوار ہو گئے۔کچھ
ہی دیر میں کیبل کار انتہائی تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔شدید
ٹھنڈی ہوا اور بہت ہی زیادہ گہرائی میں بہتے دریا کہ دیکھ کر حیرت اور خوف
سے تھوڑی دیر کے لئے روح کپکپکا جاتی ہے۔ تقریبا۱۰منٹ کے بعد ہم دوسری جانب
اُتی چکے تھےلیکن ادھر پہنچ کر انکشاف ہواکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی
ہیں یعنی ابھی منزل تک پہنچنا باقی تھا اور ہمیں تقریبا ۳۰منٹ کی کوہ
پیمائی کرنی تھی۔سفر شروع ہوا اور کچھ دور جانے کے بعد جونہی نظر پیچھے کو
گھومی تو دیکھا حسن اور خرم صاحب کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا اور بظاہر
وہ لوگ بہت مشکل سے ہمت جمع کرنے اور سفر کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہےتھے۔
ٹیڑھے راستے ،کھڑی چڑھائی اور باقی دوستوں کی بانسبت تھوڑی زیادہ صحت مندی
اور توانا جسم ان کے سفر میں حائل ہوتا نظر ا ٓرہا تھا۔
خرم صاحب بولے میری خیر ہے حسن صاحب کا کچھ کریں۔ایک بات یہاں قابل ذکر ہے
کہ مقامی لوگ اپنے گھوڑو کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور ہر وقت اپنی سروسز
اپنی مرضی اور منہ مانگی قیمت پر دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔لہذا ہم نے ایک
گھڑسوار سے مدد مانگی۔ وہ تیار ہو گیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ حسن صاحب کو
گھوڑے پر سوار کر تے ہیں اور باقی دوست پیدل چلیں گے۔ لیکن قسمت کو کچھ اور
ہی منظور تھا۔ ہم سب دوستوں کی اچھی نیت کے باوجود گھوڑے نے ہمارے دوست کا
وزن بھرداشت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔اور گھڑ سوار بھی اپنے گھوڑے کی حالت
دیکھ کر انکاری ہو گیا۔ اب ہمارے پاس کوئی اور آپشن موجود نہیں تھا سوائے
اس کے ہم ایک پورٹر کی خدمات حاصل کریں اور دونوں دوستوں کا سامان اُس کے
حوالے کردیں تاکہ وہ کچھ تو آسانی ہو اور ہم نے ایسا ہی کیالیکن ایک بات
ضرور ہے اور اُمید ہے کہ ہمیں ہماری اچھی نیت کا ثواب ضرور ملا ہوگا۔راستے
میں وآپس آنے والے تمام دوستوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہماری
حوصلہ شکنی کی کہ اُوپر پہنچنا بہت ہی مشکل ہے اور ابھی بہت راستہ باقی
ہے۔یہاں مجھے بند ر کی وہ مثال یاد آگئی جس نےایک بہت ہی مشکل درخت کی
چھوٹی پر پہنچنے کا سوچا باقی سب بندرشور مچا رہے تھے اور آخر کار وہ بندر
درخت کی چھوٹی تک پہنچنے میں کامیا ب ہو گیا۔بعد میں انکشاف ہو ا کہ وہ بند
ر بہرہ تھا اور دوسرے بندروں کے شور کو یہ سمجھتا رہا کہ وہ اس کی ہمت بھڑا
رہے ہیں حالانکہ سب کہہ رہے تھے کہ تم اس درخت کی چھوٹی تک نہیں پہنچ
سکتے۔ہم نے بھی دوستوں کو سمجھایا کہ لوگوں کی باتوں کو خاطر میں نہ لائیں
اور ہمت اور کوشش جاری رکھیں اور آخر کارہم سب اپنی منزل تک پہنچنےمیں
کامیاب ہو گئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد احساس ہوا کہ ہماری محنت رائیگاں نہیں
گئی۔
شام کے تقریبا ۵بج چکے تھےاور ابھی تک اچھی خاصی روشنی تھی۔ تا حد نگاہ
سرسبز و شاداب ہرے بھرے درخت،میدان اور انتہائی سلیقے سے بنے مقامی لوگوں
کے گھر اور بیچ و بیچ بل کھاتے راستے ایک حسین اور روح پرور منظر پیش کر
رہے تھے۔ساری تھکاوٹ اور راستے کی سختیا ں بھول کر ہم یہ منظر انجوائے کرنے
لگے۔شام ڈھلنے کے ساتھ ساتھ سردی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔اس لئے فیصلہ
کیا کہ جلدی سے رات گزرانے کے لئے کہیں ٹھہرنے کا بندوبست کرنا چائیے۔ہم دو
دوست مناسب ہوٹل کی تلاش میں نکلے اور باقی دوستوں کو وہی انتظارکرنے کو
کہا۔ کافی تلاش کے بعد ایک مناسب کمرہ مل گیالیکن کسی بھی ہوٹل میں ایک رات
کاکرایہ ۲۰۰۰روپے سے کم نہیں تھا۔
اڑنگ کیل پہاڑ کی چھوٹی پر واقع وادی نیلم کا ایک خوبصورت گاوں ہے۔سطح سمند
ر سے تقریبا۸۳۷۹فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔کیل
سے یہاں پہنچنے کے لئے تقریبا ۲کلومیٹر کا پیدل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔
یہاں کے مقامی لوگوں کی آمدنی کا زیادہ تر انحصارکھیتی باڑی، مال مویشی
پالنا اورسیاحت سے حاصل ہونے والی کمائی پر ہے۔مشکل اور دشوار گزار راستوں
کی وجہ سے یہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آنے سے محروم رہ جاتی ہے۔
کمرے میں پہنچ کر سب نے تھوڑی دیر آرام کیا اور گھومنے کے لئے باہر نکل
گئے ۔سیاحت ایک کیفیت ہے اور اسے صرف وہ لوگ ہی محسوس کر سکتے ہیں جو
سیروتفریح کے شوقین ہیں ۔اس قدرتی حُسن کو آپ اکیلے بیٹھ کر گھنٹوں دیکھ
سکتے ہیں اور محظوظ ہو سکتے ہیں ۔رات کے تقریبا ۹ بج چکے تھے اور بھوک بھی
محسوس ہونا شروع ہو گئی تھی۔اس لئے ہم لوگ وآپس ہوٹل پہنچے اور کچن کا رخ
کیا۔کھلے میدان میں لوگ ٹولیوں میں بیٹھے قریب جلتی لکڑیوں کی تپش سے اپنے
جسموں اور روح کو گرما رہے تھے۔ ہم لوگ اپنے ساتھ باربی کیو کا تمام سامان
لائے ہوئے اور خود سے ہی باربی کیو کا پروگرام بھی تھا۔لیکن آگ جلانا
تھوڑا مشکل کام تھا اس لئے ہوٹل سے ایک لڑکے کی خدمات لیں جس نے آگ جلانے
اور کوئلے تیار کرنے میں ہماری مدد کی۔کوئی آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد ہم
لو گ گرما گرم چکن تکہ سے اپنی بھوک مٹانے میں مصروف تھے۔ شدید سردموسم میں
باربی کیو اور تپتے کوئلوں کی تپش نے ماحول کو گرما دیا تھا اور یہ لمحات
بس یادوں میں قید ہو رہے تھے۔
صبح سویرے بیدار ہوئے تو سردی اتنی زیادہ تھی کہ کسی کی بھی ہمت نہیں ہو
رہی تھی کہ یخ ٹھنڈے پانی سے منہ بھی دھوئے۔خیر سب فریش ہو کر ناشتے کے لئے
پہنچے۔سردی ہو اور گرما گرم پراٹھے، آملیٹ اور چائے ہو تو ناشتے کا اپنا
ہی مزہ آتا ہے۔ سورج بادلوں کے بیچ وبیچ جانکھنے کی کوشش کر رہا تھااور
بادلوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے حسین اور دلکش منظر پیش کر رہےتھے۔
وآپسی کاسفر ہمیشہ مشکل اور بوجھل قدوموں کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ آپ کا
دل وآپس جانے کو نہیں کر رہا ہوتا لیکن یہی زندگی ہے اور آپ کو چلتے ہی
رہنا ہے۔وآپس آتے ہوئے اتھمقام اُسی ہوٹل میں قیام کیا اور اگلی صبح
مظفرآباد سے ہوتے ہوئے رات اسلام آباد پہنچ گئے۔یہاں پہنچ کر محسوس رہا
تھا شائد بہت ہی کوئی قیمتی چیز پیچھے چھوڑ آئے ہیں لیکن ایک بات جو دل کو
تسلی دے رہی تھی کہ ہم بہت سی اچھی اور خوبصورت یادیں ہمیشہ کے لئے اپنے
ساتھ لے آئے ہیں۔ |