تخت یا تختہ، یہ آوازیں ہر اُس شخص کے کانوں میں گونجتی
ہیں جو تخت کا خواہش مند ہوتا ہے اور ہر وقت کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے
لیے تیار رہتا ہے۔ آل سعود بھی آج کل اسی کشمکش میں الجھے نظر آتے ہیں۔
جب کرپشن کی تعریف ہی واضح نہ ہو تو یہ کیسے فیصلہ کیا جائے گا کہ آخر
کرپشن ہوتی کیا ہے۔ آلِ سعود نے کرپشن کا وہ کون سا پیمانہ مقرر کیا ہے جس
کی رُو سے یہ ثابت کیا جائے کہ شہزادوں کو کیا کرنا چاہیے، کیا نہیں یہ
کوئی جمہوریت تو ہے نہیں کے جمہور کا خیال رکھتے ہوئے مال کھانے سے خود کو
روکا جاتا۔ یہ تو خالصتاً ایک بادشاہ کا راج ہے اور شاہوں کی حکومت میں
کرپشن کیسی اور کیسی اینٹی کرپشن کمیٹی!
اس وقت سعودی عرب میں شہزادوں کی گرفتاریوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
کرپشن اور بدعنوانی کا نعرہ لگاتے ہوئے متعدد افراد اس وقت جیل کی سلاخوں
کے پیچھے ڈال دیے گئے ہیں۔ 4 نومبردوہزار سترہ سعودی عرب کی تاریخ میں ایک
اہم دن کے طور پر یاد کیا جائے گا اس روز شاہی فرمان پر ایک اینٹی کرپشن
کمیٹی شاہی خاندان کے گیارہ افراد کو حراست میں لیتی ہے۔ ساتھ ہی سعودی عرب
میں موجود اہم کاروباری شخصیات کو بھی گرفتار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
صورت حال اُس وقت ڈرامائی صورتحال اختیار کر جاتی ہے جب اندرونی حال سے
واقف لوگ اس بات سے پردہ ہٹاتے ہیں کہ کئی شہزادے تقریباً ایک سال کے عرصہ
سے نظربند تھے۔ عام لوگوں کے کے نزدیک یہ کارروائی سعودی عرب میں کرپشن کے
خلاف ایک بڑی کارروائی ہے، لیکن درحقیقت یہ کارروائیاں اقدار کی جنگ کا
پہلا وار ہیں۔
سعودی شاہی خاندان کی اندرونی ناچاقی شاہ سعود اور شاہ فیصل کے دور سے شروع
ہوئی۔ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے تخت نشین ہوتے ہی اس صورت حال نے ایک
نیا موڑ لے لیا۔ محمد بن سلمان کو اُن کے والد شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے
سال دو ہزار پندرہ میں انتیس سال کی عمر میں وزیردفاع بنایا۔ ساتھ ہی نائب
ولی عہد کے علاوہ نائب وزیراعظم، دربارِ شاہی کا انچارج اور سعودی تیل
کمپنی آرامکو کے بورڈ کا چیئرمین بھی بنایا گیا۔ کچھ عرصے بعد ہی شہزادہ
محمد بن نائف، جنھیں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد بنایا تھا، کو ہٹا
دیا گیا اور محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کیا گیا۔ سعودی عرب ایک ایسا
ملک ہے جس کے پاس تیل کے ذخائر تو موجود ہ ہیں لیکن ساتھ ہی وہ تعلیم کے
لحاظ سے انتہائی پس ماندہ ملک ہے۔ سعودی عرب میں اگر کوئی شخص اعلیٰ اور
معیاری تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اسے دوسرے ممالک میں تعلیم کا سلسلہ جاری
رکھنا پڑتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جب پوری دنیا میں تعلیم کا معیار بہتر
کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا جارہا ہے، وہاں عرب ممالک پہلے کی طرح باقی
دنیا سے پیچھے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں وہ افرادی قوت پیدا ہورہی ہے جو ملک
کی اپنی ضرورتوں کو پورا نہیں کرسکتی۔ لیکن پھر بھی تیل کے ذخائر کی
موجودگی نے سعودی عرب کی اس کم زوری پر پردہ ڈال دیا ہے۔ کتنے ہی عرب
شہزادے تعلیم حاصل کرنے کے لیے مغربی ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں
جاری کرپشن کے خلاف کاروائیاں اقتدار کی جنگ ہے یا قرار واقعہ کرپشن کا قلع
قمع کرنے کا عزم ،یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم اس ساری صورت حال میں تہران
پریشان نظر آتا ہے۔ آپس میں پھوٹ پڑنے کی ایران کی خوشی اپنی جگہ لیکن
ایران، سعودی عرب اور امریکا کے بیچ بڑھنے والی محبت کی پینگوں سے حد درجہ
دباؤ میں آگیا ہے۔ محمد بن سلمان ایران کے حوالے سے سخت گیر موقف رکھتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ شہزاد محمد بن سلمان یمن میں جاری جنگ میں سب سے
زیادہ فعال نظر آتے ہیں۔ یمن میں جاری خانہ جنگی ہو یا شام میں سعودی عرب
کا کردار شہزادہ سلمان دونوں محاذوں پر اپنا اٹل موقف رکھتے ہیں۔
ان گرفتایوں میں شہزادہ الولید بن طلال کی گرفتاری نہایت اہمیت رکھتی ہے۔
خیال کیا جارہا ہے کہ اس ساری صورت حال میں ٹرمپ کا اہم کردار ہے۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ دسمبر دو ہزار پندرہ میں کھرب پتی شہزادہ ولید، ٹرمپ کو
امریکی انتخابات سے دستبردار ہونے کا کہتا ہے۔ ساتھ ہی ٹرمپ کو امریکا اور
امریکی ری پبلک پارٹی کے لیے ذلت کی علامت بھی کہتا ہے، جس کے جواب میں
ڈونلڈ ٹرمپ شہزادہ ولید کو بیوقوف شہزادے کا لقب دیتا ہے۔ امریکا کے صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یقیناً ڈونلڈ ٹرمپ
سعودی عرب کو دوسری خلیجی ریاستوں کی طرح آزاد خیال بنانا چاہتے ہیں اور
سعودی عرب کے اسلامی تشخص کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ خواتین کو کار ڈرائیونگ
کی اجازت دینا یا اسٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کی اجازت سہی ہے یا غلط
یہ بحث ایک الگ موضوع ہے، لیکن سعودی عرب میں جہاں خواتین کے لیے سخت
قوانین بنائے گئے تھے اُن میں نرمی کرنا امریکی سرکار کی سعودی عرب کے
بادشاہ سے دوستی ہی کا نتیجہ اور ریاست کو مغربی تصور کے مطابق ماڈرن بنانے
کی طرف پیش قدمی ہے۔
دیکھنا یہ کہ سعودی عرب اس فتنے سے خود کو بچا پائے گا یا اُس کا حال بھی
لیبیا، عراق اور شام کی طرح ہوگا۔ سعودی عرب کے حالات کا براہ راست اثر
دوسری خلیجی ریاستوں کے علاوہ پاکستان پر بھی پڑے گا۔ یہ مسلم امہ کے
درمیان اتحاد کا وقت ہے، لیکن سعودی عرب میں جاری یہ اندرونی لڑائی یقیناً
سعودی ریاست کو کم زور کرے گی اور صلیبی طاقتوں کے عزائم کو جِلا بخشے گی۔ |