پاکستانی سیاست مذہبی جماعتوں کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے
پاکستانی معاشرے میں علماء اپنا گہرا اثرورسوخ رکھتے ہیں اور زندگی کے ہر
شعبے میں ان کے حامی اور وفادار کارکن موجود ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود
بہت اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں مذہبی سیاست پسپا
کیوں ہورہی ہے اور دینی جماعتوں کو کیوں اپنی پچ چھوڑنی پڑ رہی ہے اور وہ
کیوں مسلسل پسپائی کے راستے پر گامزن ہیں یہ سنجیدہ مسئلہ ہے جس پر مذہبی
جماعتوں کو ضرور غور کرنا چاہیے یہ دیکھنا چاہیے کہ مسئلہ کہاں ہے ؟ناکامی
کی وجہ اورسبب کیا ہے؟ کیوں مذہبی جماعتوں پر سیاسی جماعتوں کو برتری حاصل
ہے ؟ کیوں کسی بھی جماعت کاعالم دین اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن
نہیں جیت سکتا ؟کیوں سرمایہ دار کو عوام میں مقبولیت حاصل ہے ؟ کیوں اک
عالم ِ دین کو عوام ووٹ نہیں ڈالتے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کاحل ضروری ہے
اگر مذہبی جماعتیں صحیح معنوں میں سیاست کرنا چاہتی ہیں ،نہیں تو امامت سے
انہیں کوئی نااہل نہیں کرسکتا ،مذہبی جماعتوں کا المیہ یہ ہے انہوں نے کبھی
پاکستان کے سیاسی ماحول میں مثبت کردار ادا نہیں کیا منفی کردار ضرور ادا
کیا ہے پاکستان عوامی تحریک دھرنا ون میں اس کی اک مثال ہے ان کی سیاست کا
مرکز فتویٰ بازی ،الزام تراشی اور غیرمقبول فیصلے ہیں انہیں سیاسی جماعتیں
استعمال کر لیتی ہیں یہ بھی اک دو عہدے یا وزارتیں لے کر خوش ہوجاتے ہیں
اوران کو وہ عہدے دیے جاتے ہیں جن کا انہیں تجربہ ہی نہیں ہوتا یا کم از کم
ان کواختیار ات ہی نہیں دیے جاتے ،دوسری وجہ قومی ایشوز پر بڑی مثبت رائے
عامہ پیدا نہیں کرپاتے اس کی وجہ ان کے درمیان باہمی مسلکی رنجش رہی ہے ارض
پاک میں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں تمام مسائل کو نظرانداز کرکے ہماری
مذہبی جماعتیں مسلکی فکر کی ترجمان نظر آتی ہیں غریب آدمی بوسیدہ لباس
،غیرمتوازن خوراک ،گندہ پانی پینے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس میں مبتلاہورہے ہیں
بے روزگاری اورعلاج معالجہ کی عدم سہولیات کی وجہ سے غریب آدمی اپنے گردے
بیچنے پر مجبور ہے اور مولوی کو ایک خطاب کے لیے 20,000روپے مع دیسی گھی کا
ساگ ،خالص کھوئے والی کھیر ،بکرے کا گوشت گدو ڈال کر مطلوب ہے ،مذہبی
جماعتوں کے ایسے کارکنان اگر ووٹ مانگنے آئیں تو عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے
بلکہ دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ کھلاکر رفو چکر کردیتے ہیں اورووٹ کا
ٹھپاشیر ،بَلا،تیر،یا پتنگ پر لگادیتے ہیں،یہ وہ حقیقت ہے جسے مذہبی
جماعتوں کوسمجھنا چاہیے دوسری بنیادی وجہ عام انسانی مسائل کے حل کی بجائے
مسلک کے فروغ اورتحفظ نے انہیں ایک دوسرے کے سامنا لاکھڑا کیا ہے ،یہ قوتیں
ایک متحدہ طاقت کی بجائے متصادم گروہوں میں منقسم ہوگئیں ہیں اورسیاسی
جماعتیں ان کی شیرازا بندی سے فائدہ اٹھارہی ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ موجودہ
حکومت نے عقیدہ ختم نبوت پر باریک مگر گہری واردات کی مذہبی جماعتیں اس پر
خاموش تماشائی بنی رہی سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم نے اس سازش کو بے نقاب
کیا اس بل کو پرانی حیثیت میں بحال کردیا گیا ،اگر تمام مذہبی جماعتیں اپنے
ذاتی ومسلکی مفادات کو اک طرف رکھ کر قومی فلاح وبہبود پر مبنی سیاست کریں
تویقینا یہ بڑی جماعت کے طور پر ابھر سکتی ہیں اگر یہ ایساکرنے میں کامیاب
ہوجاتی ہیں تو پھر کوئی بھی جماعت یا فر د اسلامی تہذیب وتمدن اوراسلامی
منہج پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا ،تیسری بنیادی وجہ مذہبی جماعتوں کے زیر سایہ
چلنے والے مدارس کا تعلیمی ڈھانچہ ہے جو جدید عصری تقاضوں پر پورا نہیں
اترتا ،آج بھی یہ طبقہ تعلیم کو دو درجوں میں تقسیم کرتا ہے دینی تعلیم
اوردنیاوی تعلیم ،آج تک انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ قرآن کریم کا 35فیصد
حصہ سائنسی علوم پر مبنی ہے قرآن ہمیں سائنس دان ،انجینئر ،ڈاکٹر،قانون دان
،پروفیسربننے کی دعوت ہے قرآن ہمیں خدمتِ انسانیت کا درس دیتا ہے ،قرآن
ہمیں انسانی حقوق کے پاسداری کے ساتھ جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس
دیتا ہے ،قرآن ہمیں دشمن کے مقابلے میں طاقتور بننے کی تعلیم دیتا ہے مگر
افسوس ہمارا مولوی یہ سب کچھ ماننے کو تیا ر نہیں ہے کبھی سوچا ہے مدارس سے
بچے فارغ ہوتے ہیں صرف ان کے پاس ایک فن ہوتا ہے خطابت !یہ بھی سب کے پاس
نہیں ہوتا ہزاروں بچے 8سال کی اسناد لے کر گھر لوٹتے ہیں مگر روزگار کے
مواقع نہیں ہوتے یہ اک تلخ حقیقت ہے جس پر تفصیلی لکھوں گا کیا اچھا نہیں
تھا جب ہمارا بچہ تعلیم سے فارغ ہوتا تو اس کے پاس دینی علوم کی اگاہی کے
ساتھ انجینئر ،ڈاکٹر ،پروفیسرکی سند ہوتی ؟مذہبی جماعتیں اگر مثبت
اورتعمیری سوچ لے کر اپنے ذاتی مفادات پس پشت ڈال کر اگے بڑھتی تو کوئی ان
کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا ان کے چاہنے والے کرروڑوں میں ہوتے مگر ذاتی
مفادات نے مذہبی جماعتوں کو اک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہونے دیا ،حلاں کہ
ہمارے جمہوری نظام میں بہت سے سقم ہیں جیسے سیاسی مافیہ جو یہاں حکمرانی
کرتے ہیں جائیددادیں ملک سے باہر بناتے ہیں ،مشکوک کردار ، قول وفعل میں
تضاد ،ناقص خارجہ پالیسیاں ،ناقص منصوبہ بندی ،تعلیمی وطبی سہولیات کی عدم
فراہمی ،تعمیری منصوباجات میں غیر شفافیت معروف ہیں کسی بھی چیز کو جواز
بنا کر تبدیلی کا نعرہ لگا کر صحیح لائحہ عمل اپنا کر اگر میدانِ سیاست میں
کودتے تو یقینا کامیاب ہوتے اس تمام پراسس کے کے لیے اتحادپہلی شرط ہے جو
ہوتا دکھا ئی نہیں دیتا 2013کے الیکشن میں ساڑھے گیارہ سو اسمبلی کی نشستوں
میں سے با مشکل تین فیصد سیٹیں نکال پائی ،جہاں شیرازا بندی ہووہاں قوت
راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے،دشمن کے گھوڑوں کی چاپ سے ہی دھول کی طرح اڑ جاتی
ہے ،جہاں اجتماعیت اوراتحاد ہوتا ہے وہاں بڑے سے بڑے طاقت ور سے طاقت
وردشمن کی شکست نوشتہ دیوارپر لکھ دی جاتی ہے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں
ہر جمعہ مذہبی تنظیمیں احتجاج ریکارڈ کروارہی ہیں ،کبھی سوچا کہاں ریکارڈ
جمع ہوا ؟کس نے آپ کے درد کو محسوس کیا ؟کہاں ظلم وبربریت تھمی ؟کہاں انصاف
کی یقین دہانی کروائی گئی ؟ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا تو کیوں ؟ اس کی وجہ تم
ہو کیوں کہ تمہارے اندر اتحاد ،اتفاق ،محبت والفت نہیں ہے تمہارے اندر اپنے
مفادات قربان کرنے کی طاقت نہیں ہے امت مسلمہ لہو لہوہے لگتا ہے زمین نے
مسلمان خون کے علاوہ کچھ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے وہ برما ہو یا
فلسطین،شام ہو یا سوڈان، افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش ہو یا بھارت،
کاشغرسے لے کر کشمیر تک ہر جگہ مرنے والا کلمہ توحید کا ماننے والاہے کہیں
ریاستی جبر ہے تو کہیں بیرونی جارحیت پھر بھی تمام مسلمان حکومتیں ایک
دوسرے کے حالات سے لاتعلق نظر آتی ہیں جس کا شکوہ رجب طیب اردگان نے جنرل
اسمبلی کے خطاب میں کیا ،مذہبی جماعتوں کو باہمی رنجشیں بھلاکر ایک پلیٹ
فارم پر جمع ہونا ہوگا اس میں ہی ان کی کامیابی کا راز مخفی ہے ،اس اتحاد
کے ذریعے ہی باریک وارداتوں سے بچا جاسکتا ہے ۔ |