سچ اور جھوٹ ،نیکی اور بدی اورزمین و آسمان میں جو فرق
پایا جاتا ہے ویسا ہی واضح فرق مصطفی کمال اور فاروق ستار کی شخصیت ،کردار،سوچ
،قول وفعل،نظریہ ،فلسفہ اور طرز سیاست میں نمایاں ہے لیکن اس کے باوجود
کراچی میں رہنے والا ایک خوش گمان ،خوش فہم یا نادان طبقہ آج بھی یہ چاہتا
ہے کہ پاک سرزمین پارٹی کے چئیرمین سید مصطفی کمال اور ایم کیو ایم پاکستان
کے سربراہ فاروق ستار کو کسی نہ کسی طرح راضی یا مجبور کرکے ان کا سیاسی
الحاق کروادیا جائے یا کم سے کم کراچی میں مقبول ان دونوں جماعتوں کو ایک
سیاسی اتحاد کی صورت میں ہی اکٹھا کردیا جائے ۔
کراچی کے جو سیاستدان ، تاجر ،صنعت کار ،تجزیہ نگاراور سادہ لوح عوام پاک
سرزمین پارٹی اور ایم کیوایم پاکستان کے الحاق یا اتحاد کی بات کرتے ہیں نہ
جانے وہ کیوں اس حقیقت کو فراموش کربیٹھتے ہیں کہ انسان اور شیطان،چاند اور
سورج اور جنت اور دوزخ کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے جو بھی شخص یا ادارہ
ایسی کوئی غیر فطری کوشش کرے گا ناکامی اور بدنامی اس کا مقدر بنے گی لیکن
کراچی میں رہنے والے ہوں یا پاکستان کے کسی بھی صوبے کے باشندے گزشتہ 10
روز سے جس غیر یقینی اور بے چینی کا شکا ر ہیں اس کی شدت کا اندازہ شاید ان
دونوں مذکورہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کونہیں ہے جب ہی تو مصطفی کمال اور
فاروق ستارمسلسل پریس کانفرنسوں کے ذریعے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ
کرتے ہوئے تابڑ توڑ حملے کرنے میں مصروف ہیں یہ دونوں ہی اردو بولنے والی
کمیونٹی کی ترجمانی ،رہنمائی اور مسائل کو حل کرنے کے دعویدار ہیں لیکن
افسوس دونوں کو ابھی تک کراچی اور حیدرآباد کے باشندوں میں پائی جانے والی
شدید بے چینی اورکنفیوژن کی کوئی فکر نہیں ہے ،یہ دونوں ہی کسی کے اشارے
پریا پھر اپنی مرضی سے اپنے یا اردو بولنے والوں کے وسیع تر مفادات کے پیش
نظر آپس میں ملنے کے خواہشمند بھی نظر آتے ہیں مگر ساتھ ہی ایک دوسرے کے
خلاف پوری قوت سے صف آراء ہیں اور دونوں نے اپنی اس سیاسی لڑائی کی فری
پبلسٹی کا ذریعہ پاکستانی میڈیا کو بنایا ہوا ہے۔
پرنٹ میڈیا ہو یا الیکڑونک میڈیا وہ تو وہی چیز شائع کرنا ،دکھانا اور
سنانا چاہتا ہے جس سے اس کی ر یٹنگ میں اضافہ ہو تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ
تعداد میں اشتہارات ملیں اور وہ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرکے کم سے کم
وقت میں زیادہ سے زیادہ مال اور نام بناسکے سو پاکستانی میڈیا آج کل یہی
کچھ کررہا ہے اور میڈیا ایسا کیوں نہ کرے کہ یہ تو اس کا پروفیشن ہے کہ وہ
اپنے ادارے کے بزنس اور ترقی کے لیئے کام کرے سو اسیا ہی ہورہا ہے ،مصطفی
کمال اور فاروق ستار کے پے درپے پریس کانفرنسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں
انٹرویوز سے ان دونوں کا یا عوام کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو میڈیا
اوراخبارات کا پیٹ ضرور بھر جاتا ہے۔میڈیا پر لڑی جانے والی اس لڑائی میں
ان دونوں سیاسی پہلوانوں میں مصطفی کمال کا پلڑہ زیادہ بھاری نظر آتا ہے کہ
وہ ڈرامے بازی کی بجائے سچ بول کر بہت سے چھپے ہوئے حقائق بہت واضح طور پر
موثر انداز میں بیان کررہے ہیں جبکہ فاروق ستار اس سیاسی دنگل میں نسبتا ً
ایک کنفیوزڈ اور کمزورپوزیشن میں دکھائی دیتے ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں
جیسا کہ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے تو اپنی سابقہ سیاسی پارٹی اور
حکومتی عہدوں اور مراعات کو لات مار کر سیاست کے میدان میں ایک نئی پہچان
کے ساتھ قدم رکھا ہے جبکہ فاروق ستار اور ان کے ساتھی الطاف حسین سے اپنی
وابستگی سے اعلانیہ علیحدگی کے باوجود الطاف حسین کے خلاف ایک لفظ بولنے کو
تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ فاروق ستار اینڈ کمپنی پر یہ الزام عائد کیا جاتا
ہے کہ وہ اندرون خانہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن سے آج بھی ملے ہوئے
ہیں اور اس الزام کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اور
اس کے سربراہ فاروق ستار جب کراچی میں کوئی نمایاں سیاسی سرگرمی دکھاتے ہیں
تو اس پر ان کو ایم کیو ایم لندن سے باقاعدہ ان کی آفیشل ویب سائیٹ پر
مبارکباد اور شاباش دی جاتی ہے جبکہ مصطفی کمال کا معاملہ اس کے بالکل
برعکس ہے وہ تو 3 مارچ 2016 سے آج تک مسلسل یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ
الطاف حسین غدار وطن اور بھارتی ایجنسی ’’ را‘‘ کا ایجنٹ ہے اور ایم کیو
ایم الطاف حسین کی تھی ہے اور اسی کی رہے گی لہذا ایم کیو ایم پاکستان کی
سیاسی سرگرمیوں پر اصولی طور پر تو پابندی ہونی چاہیئے تاکہ الطاف حسین کا
بنائے ہوئے برانڈ’’ ایم کیو ایم ‘‘ کا نام ہمیشہ کے لیئے ختم کیا
جاسکے۔مصطفی کمال تو ایم کیو ایم پاکستان کو مانتے ہی نہیں ان کا کہنا ہے
کہ 22 ،اگست 2017 کو کراچی پریس کلب پر ایم کیو ایم کے احتجاجی مظاہرے کے
دوران الطاف حسین کی جانب سے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے اورلگوانے کے
بعد ایم کیو ایم کو Ban کردیا جانا چاہیئے تھا لیکن پاک رینجرز کی جانب سے
فاروق ستار کو گرفتار کیئے جانے کے ایک ہی روز بعد ’’ ایم کیو ایم پاکستان‘‘
بن گئی جس کے سربراہ فاروق ستار قرار پائے اور یوں الطاف حسین کے سیاسی
مردے میں ایک بار پھر جان ڈالی گئی۔
ایک طرف مصطفی کمال ہیں جو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے حوالے سے بہت
واضح انداز میں مخالفانہ طرز عمل اپنا کر ببانگ دہل بہت کچھ میڈیا کے ذریعے
کراچی اور ملک بھر کے عوام سے بیان کرتے چلے آرہے ہیں اور ایک طرف فاروق
ستار ہیں جو اپنے گرو الطاف حسین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قیادت سے استعفیٰ
دینے اور واپس لینے کا ٹوپی ڈرامے کرکے اپنی ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو
بچانے کی ناکام کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں ۔گزشتہ دس روز کے دوران فاروق
ستار جس تیز رفتاری کے ساتھ اپنا موقف بدل رہے ہیں اور پھر انہوں نے کراچی
پریس کلب پر ہونے والی انتہائی اہم پریس کانفرنس کے دوران مصطفی کمال کے
ساتھ بیٹھ کرایک نئے نام ،نئے انتخابی نشان اور نئے منشور کے ساتھ اتحاد
قائم کرنے کا اعلان کیا جبکہ اسی پریس کانفرنس میں فاروق ستار کی موجودگی
میں مصطفی کمال نے اپنی عادت کے مطابق بہت کھل کر یہ بات کہی کہ’’ ایم کیو
ایم الطاف حسین کی تھی ہے اور رہے گی‘‘۔ تو فاروق ستار نے ان کی اس بات پر
کوئی اعتراض کیے بغیر اس نئے اتحاد کو قائم کرنے کے حوالے سے اپنی رضامندی
کا اظہار کیا مصطفی کمال سے ہاتھ ملایا گلے ملے مٹھائی کھائی اور گھر چلے
گئے اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ گھر پہنچنے کے بعد اچانک ایسا کیا ہوا کہ
انہوں نے میڈیا کو اپنے گھر پر بلا کراور میڈیا کے نمائندوں کوکئی گھنٹے
وہاں بٹھا کرنہ صرف مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ کسی بھی قسم کے
اتحاد کو مسترد کردیا بلکہ واضح طور پر مہاجر سیاست کو نئی زندگی دینے کی
دانستہ کوشش کی جس کی وجہ سے ان کی پریس کانفرنس کے دوران ان کے کارکنوں کی
جانب سے ’’ جیے مہاجر ‘‘ کے نعرے لگائے جاتے رہے گویا انہوں نے اس پریس
کانفرنس کے ذریعے’’ مہاجر ازم‘‘ کی سیاست کو دوبارہ دوا م بخشاجس کے بعد
انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت سے دستبردار ہونے کے ساتھ سیاست سے
ہی علیحدہ ہونے کا اعلان کرڈالا جس پر گویا کوئی طوفان ساکھڑا ہوگیا جبکہ
اپنی اس طویل پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنی ذات اور پارٹی کے لیئے خدمات
پر بھی اتنا تفصیلی اظہار خیال کیاکہ اس کے دوران اپنی اور مصطفی کمال کی’’
لینڈ کروزر‘‘ کی خریداری اور قیمت وغیرہ کو بھی غیر ضروری طور پر اور ایم
کیو ایم پاکستان کے پی آئی بی میں قائم عارضی مرکز پر پھر کئی گھنٹو ں تک
جو ڈرامہ بازی ہوئی اسے ساری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ ایک گھنٹے بعد
ہی فاروق ستار نے ’’ماں کارڈ‘‘ کھیلتے ہوئے انتہائی ڈرامائی انداز میں اپنی
ماں کے کہنے پر اپنا پارٹی سے استعفیٰ دینے اور سیاست چھوڑنے کا اعلان واپس
لے لیا اور دوبارہ پارٹی اور حکومتی عہدوں اور مراعات سے چمٹ گئے کہ یہ
عہدے اور مراعات ہی تو ان کے سیاست میں آنے اور پارٹی چلانے کا بنیادی مقصد
ہے لیکن افسوس اس مفاد پرستانہ سیاست کے لیئے انہوں نے جس طرح مہاجروں کو
استعمال کیا اور پھر اپنی فیس سیونگ کے لیئے اپنی ماں کا سہارا لیا اس نے
ان کے سیاسی قد کو مزید چھوٹا کردیا کیونکہ ان کی صرف 48 گھنٹوں کے درمیان
کی گئی بھونڈی حرکتوں اور مضحکہ خیز ٹوپی ڈرامے کوپاکستانی قوم کے سنجیدہ
حلقوں میں کسی سرکس کے جوکر کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی
گئی اور یوں مصطفی کمال کے دھمال پرفاروق ستار جیسے سیاسی جوکر کی
قلابازیاں ان کے سیاسی قد کو مزید چھوٹا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
کراچی کی سیاست میں مصطفی کمال اور فاروق ستار کی جانب سے میڈیا پر لڑی
جانے والی سیاسی لڑائی نے قوم کو ایک عجیب ہیجان میں مبتلا کیا ہوا ہے ۔لوگوں
کو کچھ پتہ نہیں کہ کب یہ لوگ ایک ساتھ مل بیٹھنے کے لیئے تیار ہوجائیں گے
اور کب ایک دوسرے کے خلاف پریس کانفرنسیں کرکے ایک دوسرے پر الزامات کی
بوچھاڑ کررہے ہونگے ۔اکثر پاکستانیوں کی جانب سے ان دونوں سیاست دانوں کی
جانب سے کی جانے والی حالیہ میڈیا وارکو کراچی یا ملک کے عوام کی خدمت یا
عوامی مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں بلکہ کراچی پر قبضے کی جنگ قرار دیا
جارہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے کراچی میں کسی بھی قسم کا
کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا ،کراچی کے گٹر بدستور ابل رہے ہیں ،سڑکیں ٹوٹ
پھوٹ کا شکار ہیں اورلوگوں کے گھروں کے قریب بدبودارکچرے کے ڈھیر سٹی
انتظامیہ کی نام نہاد کارکردگی پر بدنما داغ کی صورت میں نمایاں ہیں پھر
کراچی کی آبادی کی نمائندگی ،ترجمانی اور خدمت کرنے کی دعویدار برسراقتدار
ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت جو کراچی اور حیدرآباد میں تمام اہم حکومتی
عہدوں پر فائز ہے ،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں ان کی سیٹیں موجود
ہیں ان کی جماعت کے سینیٹر بھی سینیٹ میں ہیں ،سندھ کے دونوں بڑے شہروں میں
مئیر ان کے ہیں ،سٹی انتظامیہ میں ان کی اکثریت ہے لیکن افسوس فاروق ستار
اینڈ کمپنی ’’ جیے مہاجر‘‘ کے نعرے لگا کر ایک بار پھر مہاجر ازم پر مشتمل
لسانی سیاست کو قوت فراہم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے اور طرفہ
تماشہ یہ ہے کہ حکومت میں موجود ایم کیو ایم پاکستان کراچی وحیدرآباد کے
عوام کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی ساری توانائیاں اور وسائل ایم
کیوایم پاکستان کے نام ،انتخابی نشان پتنگ اور مہاجر کارڈکو بچانے کے لیئے
خرچ کررہی ہے۔
دوسری جانب مصطفی کمال جو کراچی و حیدرآباد سمیت پوری پاکستانی قوم کے
دیرینہ مسائل کو حل کرنے کے لیئے آواز بلند کررہے ہیں پاکستانی جھنڈے
اورپاکستانی قومیت کو اپنا
فخر قرار دیتے ہوئے مہاجر سیاست سے اعلانیہ اور عملی لاتعلقی کا کھل کر اظہار
کرتے ہوئے عوامی مسائل کے حل کے لیئے مصروف عمل لیکن بدقسمتی سے وہ یا ان
کے ساتھی اور ان کی پارٹی اس وقت بر سراقتدار نہیں ہے ان کے پاس اس وقت
کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہے کہ جس کے ذریعے وہ عوام کے دیرینہ مسائل کو حل
کرکے دکھا سکیں مگر وہ اس بات کی کو شش ضرور کررہے ہیں کہ جو لوگ اس وقت
برسراقتدار ہیں ان کو اس بات پر مجبور کرسکیں کہ وہ اپنے فرائض منصبی
ایمانداری سے انجام دے کر لوگوں کے مسائل کو حل کریں اس لیئے مصطفی کمال کو
عوامی مسائل کے حل نہ ہونے کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا ،ہاں اگر 2018
کے انتخابات میں لوگوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعے ایوان اقتدار میں پہنچانے کا
فیصلہ کیا تو پھر مصطفی کمال جو اچھی اچھی باتیں کررہے ہیں انہیں ان پر عمل
بھی کرنا پڑے گا تاکہ پوری پاکستانی قوم کو پتہ چلے سکے کہ مصطفی کمال صرف
گفتار کا ہی نہیں کردار کا بھی غازی ہے ۔
اﷲ تعالی کراچی سمیت پورے پاکستان کی سیاست میں مصروف عمل نئے اور پرانے
سیاست دانوں کو ہدایت عطا فرمائے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد
کو ترجیح دے کر پاکستان اور پاکستانی عوام کی خدمت کرسکیں کہ تاریخ کے
صفحات میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جن کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوتا اور جو
ملک وقوم کی فلاح وبہبود اور ترقی و استحکام کے لیئے خلوص دل اور ایمانداری
کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں ورنہ لیڈر تو بہت آتے جاتے رہتے ہیں
پرعوام کے دلوں میں بہت کم لوگ زندہ رہتے ہیں اور بقول شاعر: جو دلوں کو
فتح کرلے وہی فاتحہ زمانہ ! |