ووٹ کی طاقت سے ہر پست کو بالا کردے

جمہوری نظام کیلئے جمہور یعنی عوام کا کردار انتہائی بامعنی اور اہمیت کا حامل ہے ، عوام کسی کی مقبولیت کا پیمانہ طے کرنے ، اسے اقتدار تک رسائی سمیت اپنی قسمت یا مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد ان کے منتخب کردہ افراد ان کی زندگی کو لاحق مسائل حل کرنے کی بجائے ذاتی گھر کے راشن پانی کی فراہمی و فراوانی میں لگ کر سوائے ٹیکس کی وصولی اور ووٹ کے بعد مزید کسی قربانی کا تقاضہ کرنے کیلئے ان سے رابطے میں رہیں یا ان کو چھری تلے لانے کے اقدامات کریں ۔ عام طور پر وہ ممالک جہاں حقیقی انداز میں جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اقدامات پر توجہ دی جاتی ہے وہاں امیدوار کیلئے کچھ خاص قسم کے ضابطے، اصول، قائدے اور قانون بھی وضع کئے جاتے ہیں تاکہ ان میں اخلاقی ، سیاسی ، ذاتی اور معاشرتی معاملات میں انجام دہی کا اندازہ لگایا جاسکے ، آیا کہ وہ فرد واقعی کسی بھی نوعیت کی ذمہ داری نبھانے کادیانت وا مانت داری سے اہل ہوسکتا ہے یافقط شہرت ، مقبولت اور اقتدار ہی اس کا اولین مقصد ہے ۔ اہل سیاست میں ان دنوں چلن ماضی کے انداز فکر سے مختلف ہوچکا ہے البتہ جب سیاست بامعنی اور اصولوں پر مبنی ہو اکرتی تھی تب اس میدان میں آنے والے کھلاڑیوں کا تعلق زیادہ تر متوسط طبقوں سے ہوا کرتا تھا ، یہ باکردار تھے، معاشرت بھی جانتے تھے، معیشت کو بھی سمجھتے تھے، ذاتی قابلیت کی بنیاد پر سماجی حیثیت میں ایک نمایاں مثال تصور کئے جاتے تھے اور یہی ان کی وجہ شہرت بھی تھی کہ یہ اقتدار میں آکر خدمت کاپہلو نمایاں کرتے ۔سیاست کو جب بھی خدمت کے جذبہ سے لیا گیا ہمیشہ معاشرہ مثبت روایات میں پھلا پھولا اور ترقی راہوں پر قدرے سست روی سے مگر مضبوط جڑیں بناتا ہوا گامزن رہا ، سیاست دانوں نے سوائے اچھا نام کمانے کے کوئی مالی فائدے اس خدمت کے عوض نہیں پائے البتہ کسی مالی حالت میں بہتری محسوس کی بھی گئی تو معمولی تھی اسے غیر معمولی تصور نہیں کیا جاسکتا۔اثاثہ جات میں اضافہ قابل فہم ہوا ، اس پر اظہار حیرت ہوا اور نہ ہی کبھی کسی ایمپائر کی ضرورت پڑی ۔

جمہوریت میں اقتدار کے حصول کی اولین شرط عوام کی رائے لینا ہوتی ہے ، مطلب عوام کی وجہ سے کوئی فرد یا سیاسی جماعت مسند اقتدار کو پاسکتی ہے ، انتخابی عمل کے آغا ز سے قبل امیدوار لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے ، مائل باکرم کرنے اور اس مقام پر پہنچانے کیلئے متوجہ کرنے کیلئے مختلف جتن کرتے ہیں جہاں پہنچ کر وہ ان ہی کے مسائل کے حل کیلئے بھاگ ڈور کریں گے اور ملک و قوم کو دنیا میں نمایاں حیثیت دلانے کی ہر ممکن کوش کریں گے۔ یہ مرحلہ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو امیدوار کیلئے مہم جوئی ثابت ہو تا ہے۔ جہاں نظام جمہوریت تسلسل سے رائج ہے وہاں بھی کسی نئی جگہ کی طرح سے مہم کا آغاز کیا جاتا ہے ، چاہے کوئی فرد یا سیاسی جماعت اقتدار کا آئینی وقت گزار ہی کیوں نہ چکی ہو۔ ہر بار نیا کنواں کھودنا ہوتا ہے ۔ نئے سرے سے چوٹی سر کرنی ہوتی ہے ۔ ماضی کا کردار ، اقدامات اور عوام کو دی جانے والی سہولتوں اور ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک انہیں نئی منزل کی راہیں متعین کرانے میں مدد فراہم کرتا ہے ، نئے امیدوار یا سیاسی جماعت کیلئے یہ مرحلہ مشکل ضرور ہوتا ہے کیونکہ اس کا کردار اسے آگے بڑھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے البتہ وہ لوگ جو پہلے سے سیاسی عمل کا فرد ِواحد یا سیاسی جماعت کے توسط سے حصہ ہوتے ہیں ان کیلئے عوام کی عدالت میں جوابدہی قدرے کٹھن ہوتی ہے ۔عوام کی یہ عدالت جزو وقتی ہوتی ہے اس میں سیاست دان جادوئی انداز میں مختلف پیرائے میں انہیں اپنے سحر میں گرفتار کرتے ہیں ، باالفاظ ِ دیگر بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ماضی قریب تک یہ عوا م سادہ لوح تھے اور بہت آسانی سے سیاست دانوں کے فریب میں آجاتے تھے ، کسی پست اخلاق شخص کو وقتی طور پر مفاد کے حصول یا پھر اپنی سادگی اور بے علمی کے باعث بلندیوں پر پہنچادیتے تھے اور کسی چوٹی سے منوں مٹی میں دفن کرنے کا کام بھی باآسانی انجام دے رہے تھے ۔

مہذب سیاسی و جمہوری ماحول میں ہر فرد آزا داور خودمختار ہے کہ وہ اپنے ووٹ کو اپنی مرضی و منشا کے مطابق کسی کے بھی حق میں استعمال کرسکے ، اس پر کوئی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے اور ہی کسی قسم کی زبر دستی کی جاسکتی ہے ، یہ اس کا آئینی و قانونی اور بنیادی حق ہے تاہم نفسیاتی طور پر دباؤ ڈالنے کی روش ابتداء سے اب تک موجود ہے ۔ ماہرین نفسایت کے مطابق یہ طریقہ ء کار گو درست نہیں لیکن اس کا استعمال عام ہورہا ہے اور بعض اوقات لوگ باشعور ہونے باجود اس کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

انتخابات کے موقعوں پر ایک ضابطہ اخلاق بنایا جاتا ہے جس میں اس بات کی یقین دھانی کی جاتی ہے کہ امیدوار نے اپنی ذات سے متعلق درست معلومات فراہم کیں ، وہ دیانت و امانت کے کروجہ اصولوں پر پورااترتا ہو ، بددیانت نہ ہو، صاحب ِ کردار ہو ، معاشرے میں اچھی شہرت کا حٓمل ہو، لوگ اسے مثال قرار دیتے ہوں ، اپنے کردار اور اوصاف سے عوام کو مائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، مخالفین کی برائیوں اور ان پر کیچڑ اچھالنے سے پرہیز کرتا ہو۔ اگر وہ ان پر پورا اترتا دکھائی دے تو گمان غالب ہے کہ وہ ایک اچھا سیاست دان ہوگا البتہ دوسروں کے عیب فاش کرکے خود کو معتبر ظاہر کرنے والا یقینا اچھے اوصاف کا حامل نہیں ہوسکتا۔ ہماری فرسودہ سیاست میں یہ چلن عام ہے کہ سیاست دان مخالفین پر سرے راہ کیچڑ اچھال کر اپنی سیاست کی دکان چمکاتے ہیں ۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ بھی اس سے مختلف صورتحال پیش کررہا ہے ، آج بھی ہمارے ملک کے بڑے بڑے سیاست دان انہی اصولوں کے تابع نظر آتے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی اس جدید دور میں بھی عوام کو اسی طرح سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ، جبکہ حقیقت اس کے برعکس منظر کشی کررہی ہے ۔ 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت جس نے پورے پانچ سال جمہوریت کا حسن ملک میں بنائے رکھا اسے سوائے صوبہ ء سندھ کے اندرون کے کہیں جائے پناہ نہ مل سکی، تحریک ِ انصاف نے کے پی کے سے اے این پی کا صفایا کرڈالا، جبکہ بلوچستان میں جے یو آئی کی سیاسی طاقت کا خاتمہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اب عوام میں شعور اور آگاہی بڑھ رہی ہے ۔ یہ کسی بھی پست کو بالا اور بام ِ عروج پر مووجود سیاسی جماعت کو بے اماں کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ۔

موجودہ دور ذرائع ابلاغ کا جدید ترین دور ہے ، اب لوگوں کو گمراہ کرنا آسان تصور کیا جانا دیوانے کا خواب ضرور ہوسکتا ہے البتہ اسے حقیقت کا روپ دینا محال ہے ۔ عوام اب جلسے جلوسوں میں اس انداز سے شرکت نہیں کرتے جس طرح کا والہانہ انداز پہلے ہوا کرتا تھا ، عوا م سب دِکھتا ہے اور دکھتا ہے کہ ان کے ساتھ اب سے پہلے کیا کیاگیا۔ موجودہ صورتحال میں کوئی شے پوشیدہ نہیں رہی ، ہر شے عوام کے سامنے آجاتی ہے ، کوئی سیاست کسی کے خلاف بات کرتا ہے تو لوگ معلوم کرلیتے ہیں کہ وہ کس قدر دودھ کا دھلا ہوا ہے ۔ عوام نے 2013میں اپنی طاقت کا پہلا مظاہرہ کرکے بڑی سیاسی قوت کو باور کروادیا تھا کہ اب ان کا فیصلہ اس کے حوالے سے بدل گیا ہے ، 2018کے انتخابات قریب تر ہورہے ہیں ، پاناما کا ہنگامہ ان کیلئے نئی راہ متعین کررہا ہے ، اس ہنگامے سے کئی سیاسی رہنماؤں کے بدعنوانی کے پردے چاک ہوتے جارہے ہیں ، نظام ِ انصاف گو کہ انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے لیکن یہ وام کی راہنمائی میں کلیدی کردار ادا کرنے جارہا ہے ، کردار اور اخلاق سے عاری سیاست دان بجائے خود میں بہتری لانے کے عدلیہ کو معتصب قرار دے کر جان بچانے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ کچھ عدلیہ کے مخالفین سے متعلق فیصلوں کو اپنی بقا سمجھ کر اس کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں ، یہ تمام لوگ ممکنہ طور پر معاملہ فہمی سمجھ رہے ہوں مگر حالات نے عوام میں شعور اجاگر کردیا ہے کہ اگلے وقتوں کیلئے انہیں کیا کرنا ہے جو ان کے مفاد میں ہوگا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بعض جماعتوں کا کردار تقریبا ً غیر اہم رہا ہے البتہ ان کا ماضی قابل ِ اطمینان ضرور ہے ، یہ لوگ دیانت دار ہیں، امین بھی ہیں ، صاحب ِ کردار بھی ہیں مگر انہیں کردار ادا کرنے کا موقع اس انداز سے بھر پور نہیں ملا جس قدر بددیانت اور بے ایمان افراد نے حاسل کیا ۔ حالیہ سیاسی صورتحال میں عوام کو ادراک ہوگیا ہے کہ انہوں جن لوگوں کو اپنے مستقبل کیلئے فیصلے کا اختیار دیا وہ نااہل تھے ، انہیں انصاف کے اداروں نے ایک بار نہیں کئی بار نااہل قرار دیا ہے ، یہ لوگ اقتدار کی حوس اور اس کے نشے میں یہ بھول گئے کہ اصل کام اپنا گھر بھر نا نہیں تھا بلکہ عوامی مفاد کیلئے اقدامات اور ملکی تشخص کی عالمی سطح پر اچھے انداز میں بحالی تھی۔ آپ جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ 2008سے 2013اور پھر 2013 سے تاحال کون سے ایسے منصوبے بنے جن سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوا، بجلی کی لوڈشیڈنگ برقرار ہے ، بیروزگاری اسی طرح سے ہے بلکہ بڑھنے کی جانب تیزی سے گامزن ہے ، پانی جیسی ضرورت کی شے اب خالص ملنا نایاب ہورہی ہے ،صحت و صفائی کے مسائل کم نہیں ہوئے جبکہ تعلیمی سہولیات عام آدمی کو میسر آنا خواب بن رہا ہے ، ہر طرف ایسی تجارت شروع ہوگئی ہے جس سے عوام ہی کیلئے ہی مسائل ہیں ، انہیں ہی اس سے خود سے نمٹنا ہے ، مقتدر افراد کو صرف کرسی کی فکر لاحق ہے ، اب ایسے میں اگر ان کو کرسی تک پہنچانے والے لوگ ہی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسترد کرکے ان لوگوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کریں جو واقعی ان کی امنگوں پر پورا اترتے ہوں تو انقلاب برپا ہوسکتا ہے ۔ عوا م کے ووٹ کی طاقت کا اندازہ سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد سابق وزیراعظم کو لاہور جاتے ہوئے ہوا، کیونکہ جن کے ووٹ سے وہ اہل ہوکر وزیراعظم نبے تھے ، اپنے ہی حلقے میں جانا تک گورا نہ کیا تھا،NA-120کے تنائج نون لیگ کے حق میں ضرور تھے لیکن عوام کی بڑی تعداد نے انہیں بتادیا کہ ان کا خیال ان کی جانب سے اب تبدیل ہورہا ہے ۔2018میں شاید یہ خیال مکمل طور پر انہیں مسترد کرنے کا بھی ہوسکتا ہے ۔یہ خیال کسی کیلئے غلط ہی سہی مگر عوام کیلئے بہر حال درست سمت کا تعین کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔پاکستان کے عوا کو حقیقی طور پر باشعور ہونے کا ثبوت دینے کا موقع آگیا ہے ، وہ اسے طاقت دیں جو ان کی طاقت کو عزت اور احترام دے ، اسے اپنا ہاتھ تھمائیں جو ان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چل سکتا ہو، ان کی بقا ، کامیابی اور ترقی کا ضامن ہو ۔ ظاہری طور پر خوشنماخواب دکھانے والا تعبیر فراہم کرنے سے اسی طرح قاصر ہوتا ہے جیسے ہر ہاتھ ملانے والے دوست نہیں ہوتا۔ آج کل عدلیہ ملک سے بدعنوانی ے خاتمہ کیلئے سیاسی جماعتوں کی بھل صفائی مہم پر ہے جس سے قوم کو فوائد سمیٹنے چاہئیں تاکہ آئندہ عام انتخابات میں باکردار افراد بے کردار لوگوں کی جگہ لے کر قوم کو بہتر سمت پر ڈال دے۔

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 49088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.