ایسا لگتا ہے کہ مرکز اور دیگر کئی ریاستوں میں
برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں میں پورے ملک کی سیات اور اقتدار
پر قبضہ جمانے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ۔ بھارتیہ
جنتا پورٹی اور اس کی حکومت میں شامل وزرأ میں اس بات کو لے کر زبردست
مقابلہ ہے کہ کون سب سے زیادہ جھوٹ بول کر ملک کے عوام کو بیوقوف بنا سکتا
ہے ۔
ایک طرف بی جے پی کے لوگ اس بات پر عوامی سطح پر فخر اور دعویٰ کرتے نظر
آتے ہیں کہ ساڑھے تین سال کی مدت میں بھاجپا حکومت میں ’ایک بھی‘ کرپشن کا
معاملہ سامنے نہیں آیا ۔ گزشتہ 16 ستمبر 17ء کو جھارکھنڈ کے رانچی شہر میں
بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ’
تین سال کی ، ان کی پارٹی کی حکومت میں حزب مخالف ایک بھی کرپشن کا الزام
نہیں لگا سکی ہے۔ ‘حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی کی موجودہ حکومت کا
ہر قدم کرپشن ہی کی جانب اٹھتا ہے ۔ چیخ چیخ کر ممبران پارلیامنٹ اور
اسمبلیوں میں او ر عوام سڑکوں پر اتر کر حکومت کے کرپشن اور ان سے ہونے
والے قومی نقصانات پر احتجاج کر رہے ہیں ۔ لیکن عوام کی آواز اور احتجاج کو
نظر انداز کرتے ہوئے یہ لوگ ہٹلر کے ہروپیگنڈہ وزیر جوزف گوبلز کی اس بات
پر پوری طرح عمل کر رہے ہیں کہ جھوٹ کو اتنی بار بولو کہ وہ سچ لگنے لگے۔
یوں تو بی جے پی میں جھوٹ بولنے کا مسلسل سلسلہ جاری ہے ، لیکن جب بہت ہی
ذمہ دار شخص بھی ایسے ہی جھوٹ کا سہارا لیتا ہے ، توتعجب کے ساتھ ساتھ
افسوس بھی ہوتا ہے کہ لوگ اقتدار حاصل کرنے کے لئے عوام کے درمیان اپنی اور
اپنے ملک کی شبیہ کو کریہہ بنانے سے گریز نہیں کرتے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ 1
نومبر کو ملک کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ہماچل کے مندی میں ایک عوامی
جلسہ میں یہ بات کہتے ہوئے ذرا بھی نہیں ہچکچائے کہ بدعنوان رہنماؤں کو
اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دینا چاہئے ۔ میں گزارش کرتا ہوں ، تمام سیاسی
پارٹیوں کے رہنماؤں سے کہ اگر ان پر بدعنوانی کا الزام لگتا ہے اور ثابت ہو
جاتا ہے تو وہ فوراََ اپنے عہدہ سے سبکدوش ہو جائیں ۔ راجناتھ سنگھ نے ساتھ
ہی ساتھ ’فخریہ‘ یہ بھی کہا کہ ساڑھے تین سال کی مودی حکومت میں ایک بھی
کسی وزیر پر بدعنوانی کا الزام نہیں لگا ہے ۔
وزیر داخلہ کے اس بیان پر بے اختیار قہقہہ لگانے کو جی چاہتا ہے کہ جس
پارٹی کی حکومت کے لوگ سر سے پیر تک بدعنوانیوں میں ڈوبے ہوئے ہوں ، اس
پارٹی کا ایک وزیر ایسی مضحکہ خیز بات کر رہا ہے ۔ دوسری پارٹیوں کے افراد
کے ذریعہ لگائے گئے الزامات کو چھوڑئے ، کہ ان کا کام اختلاف کرنا ہی
ہے۔لیکن خود ان کی ہی پارٹی کے صف اوّل کے رہنماوں مثلاََ یشونت سنہا، ارون
شوری ، کرتی آزاد، شتروگھن سنہا وغیرہ نے جس طرح کے کرپشن کے الزامات اپنے
لیڈروں پر لگائے ہیں ، کیا وہ بھی غلط ہیں؟ مختلف ممالک کے سروے رپورٹ بھی
غلط ہیں ؟ بی جے پی کے رہنما ، سابق ممبر پارلیامنٹ کرتی آزاد نے تو یہاں
تک کہہ دیا کہ مجھے پارٹی سے صرف اس وجہ کر برطرف کیا گیا کہ میں نے چور کو
چور کہا اور کرپٹ وزیر ارون جیٹلی کے خلاف جانچ کا مطالبہ کیا تھا کہ جس
شخص کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور جو سیکنڈ ہینڈ کار پر چلتا تھا ، وہ آج
پانچ سؤ کروڑ کا مالک کیسے بن گیا ۔ اگر میں نے جانچ کا مطالبہ کیا ، تو
کیا غلط کیا تھا کہ اس کی پاداش میں مجھے پارٹی سے بر طرف کر دیا گیا ۔ بی
جے پی کے کئی بڑے لیڈروں کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر حکومت میں ساتھ رہنے والی
شیو سینا کے سربراہ نے جس طرح بی جے پی کے کرپشن کو اجاگر کیا ہے ، کیا یہ
بھی غلط ہے؟شیو سینا کے صدر دفتر سے تو باضابطہ بی جے پی کے ایکناتھ کھڈسے
، سمیت دس کرپٹ لیڈروں کی تصاویر اور ان کی بدعنوانیوں کی تفصیل 56 صفحات
پر مشتمل ایک کتابچہ ’’ گھوٹالے باز بھاجپ‘‘ کے نام ہی شائع کر دیا ہے۔ شیو
سینا نے کرپشن کے معاملے میں خود مودی اور امت شاہ تک کو نہیں بخشا ہے۔ یہ
سلسلہ یہیں نہیں ختم ہوتا ہے ، بلکہ جس انّا ہزارے کے سہارے بی جے پی کی
حکومت برسراقتدار آئی ، اسی انّا ہزارے نے بھی بی جے پی حکومت کے مسلسل
کرپشن کودیکھ کر متنفر ہوتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ بدعنوانیوں میں
کانگریس نے گریجوئیشن کیا تھا ، اب بھاجپا پی ایچ․ڈی کر نے میں جٹی ہے۔
World Economic Forum کی حالیہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے دس
سب سے کرپٹ لوگوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پرمودی کا نام ہے ۔
میں بی جے پی کے ان کرپٹ لوگوں کی بہت لمبی فہرست کو ا سوقت اپنے اس مضمون
میں شامل نہیں کر رہا ہوں ، جنھیں میں مختلف اوقات میں پیش کر چکا ہوں ۔
میں امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کے ذکر کو بھی چھوڑ رہا ہوں ، جنھوں نے نہ صرف
ملک کے اندر ، بلکہ پوری دنیا کی تجارت میں سولہ ہزار فی صد منافع کما کر
ایک مثال قائم کی ہے ۔ انھیں تو اس بڑے ایچیومنٹ کے لئے عالمی سطح پر
ایوارڈ ملنا چاہئے ۔ لیکن ہمارے سابق وزیر مالیات اور موجودہ بی جے پی کے
لیڈر یشونت سنہا مسلسل اس بات پر مصر ہیں کی جئے چند پر جب جانچ ہو سکتی ہے
، تو جئے شاہ کے گھوٹالے کی جانچ کیوں نہیں ہو سکتی ہے ۔ اب انھیں کون
بتائے کہ ارون شوری کے مطابق اس وقت مرکز میں ڈھائی شخص کی حکومت میں جئے
شاہ پورے ایک شخص کے شاہ زادے ہیں ، کس کی ہمت ہے کہ ان پر کسی طرح کی جانچ
کی بات کہے۔ کرپشن سے شدید طور پر نفرت کرنے والے بہار کے وزیر اعلیٰ نیتیش
کمار کو بی جے پی کے اعلیٰ کمان نے نہ جانے ایسی کون سی اہم بات بتائی کہ
وہ ’زہر کا گھونٹ‘
پینے کے لئے تیار ہو گئے اور اچھی خاصی چل رہی حکومت کو اپنی تحویل سے نکال
کر بی جے پی کے حوالے کر دیا اور اب مسلسل انھیں زہر کا گھونٹ پینا پڑ رہا
ہے ۔ یہاں تک کہ جس کرپشن کے سامنے آنے پر وہ لالو پرساد کے جنتا دل سے الگ
ہو کر بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی ، اس حکومت میں، اے ڈی آر (
Association for Democratic reforms) کی گزشتہ2 اگست 17ء کو جاری ایک رپورٹ
کے مطابق 76% فی صد داغی وزرأ شامل ہیں اور یہ رپورٹ بذات خود ان وزرأ کی
جانب سے اپنے انتخابی حلف نامے میں دی گئی تفصیلات پر مبنی ہے ۔ اب نیتیش
جی کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں ، وہ تو اب بری طرح بدعنوان
لوگوں کے درمیان گھر گئے ہیں۔
ابھی حال میں جرمنی کے جس اخبار نے پناما لیکس کو اجاگر کیا تھا ، اسی
اخبار نے پیراڈائز پیپرس کے معاملہ کو سامنے لا کر ایک طوفان مچا دیا ہے ،
یہاں تک کہ میڈیا کو اس سوال کا جواب دینے سے بچنے کے لئے پیراڈائز پیپرس
میں شامل بھاجپا کے راجیہ سبھا ممبر روندر کمار سنہا کو ’مون برت ‘ رکھنا
پڑا۔بڑے پیمانے پر اجاگر ہونے والے ٹیکس بچانے والوں کی اس لمبی فہرست میں
ایک مرکزی وزیر سمیت کل 714 لوگوں کا نام شامل ہے ، اور جو ظاہر ہے کہ یہ
سب کے سب بڑے ہی نہیں ، کافی بڑے اور بڑی پہنچ والے لوگ ہونگے۔
مذید بر آں ، اب بی جے پی یہ بھی کر رہی ہے کہ جن ریاستوں میں جو کوئی بھی
ووٹ اور نوٹ دلانے کی طاقت رکھتا ہے ، خواہ وہ جس قدر بھی کرپشن کے کیچڑ
میں ڈوبا ہوا ہو ، اسے اس کیچڑ سے نکال کر اس کے ہاتھوں میں کمل کا پھول
تھما کر ’ بھرشٹاچار مکت ‘ کر دیا جاتا ہے ۔ کل تک ہماچل پردیش کے جس سابق
کانگریسی مرکزی وزیر سکھ رام کو دکھ رام کہا جاتا تھا ، ان کے کرپشن پر ملک
بھر میں1996 ء میں بھاجپا نے زبردست احتجاج اور مظاہرے کئے تھے ، اور جس
سکھ رام کی رہائش گاہ سے تین کروڑ کی نقد رقم ایک چھاپے میں ملی تھی اور جو
تہاڑ یاترا بھی کر آیا ہو ، آج وہی سکھ رام بی جے پی کے لئے اچھوٹ نہیں رہا
اور انھیں پارٹی میں شامل کر فخر محسوس کیا جا رہا ہے۔بی جے پی کے لئے اب
زمین گھوٹالہ اور مائنس گھوٹالہ میں ملوث پائے جانے پر وزیر اعلیٰ کی کرسی
سے ہٹائے جانے والے کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ بی ایس یودیورپّا کوبھی اب
نہ صرف پارٹی میں شامل کر لیا گیا ہے ، بلکہ انھیں کرناٹک کے اگلے وزیر
اعلیٰ کی کرسی کی بھی پیش کش کر دی گئی ہے ۔ اسی طرح مغربی بنگال میں جب
پارٹی کے قدم جمانے کی ہر کوشش بھاجپا کی ناکام ہو گئی تب ، جس مکل رائے
سمیت شاردا چٹ فنڈ اور ناردا اسٹنگ کے سلسلے میں تیرہ لوگوں پر ایف آئی آر
درج کی گئی تھی اور سی بی آئی کے پاس مکل رائے کے گھوٹالوں میں شامل ہونے
کے ثبوت تھے ۔ ان سے سی بی آئی اور ای ڈی نے ناردا اسٹنگ جانچ کے سلسلے میں
پوچھ تاچھ بھی کر چکی تھی ، یوں کہا جائے کہ مکل رائے پوری طرح سی بی آئی
کے شکنجے میں تھے اور بی جے پی انھیں بھرشٹ بتانے میں تھک نہیں رہی تھی ۔
انھیں بھی سلاخوں کا خوف دلا کر بھاجپا کے مرکزی وزیر قانون نے قانون کی
دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک جلسہ میں بھاجپا میں شامل کر ، کمل کا پھول پیش کیا
گیا ۔ مکل رائے بھی بھاجپا حکومت کے اس احسان تلے اس قدر ڈوب گئے کہ جس
ترنمول کانگریس کو بڑی محنت سے ایک بڑی اور اہم پارٹی بنائی ، اسی پارٹی
اور ممتا بنرجی حکومت کو اکھاڑ پھینکے کے لئے نریندر مودی جی کی رہنمائی
میں کام کرنے کا عہد کیا ہے۔ مہاراشٹر میں آدرش گھوٹالے کے معاملے میں بری
طرح پھنسے نرائن رانے کو بھی بی جے پی نے ڈرا دھمکا کر اور کرپشن کے کیچڑ
سے نکال کر بھا جپا باتھ ٹب میں غسل کرا کر ’ کرپشن مکت‘ کر اپنی پارٹی میں
شامل ہی نہیں کیا ہے ، بلکہ انھیں وزیر بھی بنانے کی پوری کوشش ہو رہی ہے ۔
تامل ناڈو میں اپنی زمین تلاش رہی بی جے پی نے کرونا ندھی کو بھی اپنے دام
میں لانے کی کوشش شروع کر دی ہے ۔ یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ کرونا
ندھی کے خاندان کے بیشتر افراد ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں بری طرح پھنسے
ہوئے ہیں او رکئی تو اس سلسلے میں جیل یاترا بھی کر چکے ہیں ۔ ابھی چند روز
قبل نریندر مودی مدراس دورے پر گئے ، تو وہ خاص طور پر ڈی ایم کے پارٹی کے
سربراہ کرونا ندھی سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے ۔ باتیں کیا ہوئیں ،
یہ ابھی طشت از بام نہیں ہوئی ہے ، لیکن کچھ نہ کچھ جلد سامنے آنے کی توقع
ہے ۔
ادھر سپریم کورٹ نے گزشتہ روز اپنے ایک عبوری حکم میں مرکزی حکومت سے،
ممبران پارلیامنٹ اور ممبران اسمبلی کے خلاف زیر التوا مقدمات کو جلد حل
کرنے کے لئے اقدامات کئے جانے کا حکم صادر کیا ہے ۔ زیر التوا معاملے میں
جہاں عاپ کے 26 ، کانگریس کے 248 وہیں بی جے پی کے 523 ممبران کے خلاف
مقدمات درج ہیں ۔
اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جو بھاجپا کرپشن کو نظر انداز کرتے
ہوئے بقول کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کہ ’ جن کرپٹ لوگوں کو کانگریس
نے کوڑے میں پینک دیا تھا ۔ انھیں مودی ٹکٹ دے رہے ہیں ۔ ا سلئے مودی جی کو
یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ بدعنوانیوں پر باتیں کریں ۔ اس لئے کہ جتنے بھی
کرپٹ لوگ میرے ساتھ تھے ، وہ سب کے سب اب بھاجپا میں شامل ہو گئے ہیں ‘۔
ایسے میں وہ سپریم کورٹ کے اس عبوری حکم پر کیا کرتے ہیں ، اس کا انتظار
سبھوں کو ہے ۔ |