ہارون آباد کی سیاسی صورتحال

ہارون آباد کی سیاسی تاریخی پس منظر کو اس آرٹیکل میں مختصر بتا یا گیا ہے

ہارون آباد پنجاب کا ایک نہایت اہم سرحدی علاقہ ہے جسکی سرحدیں ہندوستان سے ملتی ہیں ، کاروباری لحاظ سے بھی یہ بہاولنگر ضلع میں ستون کا درجہ رکھتا ہے ، ہارون آباد کی کاٹن انڈسٹری جنوبی پنجاب میں بہت اہمیت رکھتی ہے ،ہارون آباد شروع سے ہی سیاسی اعتبار سے اہم مقام رکھتا ہے ، اس مٹی پہ نامور سیاسی اور فلم انڈسٹری کی مشہور شہصیات پیدا ہویئں جن میں سابق وفاقی وزیر تعلیم چوہدری عبدلغفور (مرحوم) سابق وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانی میاں عبد لستار لالیکا (مرحوم) ، مشہور فلمسٹار میرا کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے ،

مشہور گلوگار عارف لوہار کے والد اور فوک گلوگاری میں برصغیر میں نمایاں پہچان رکھنے والے عالم لوہار کو اسی شہر میں ٹانگ میں گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا ، اس شہر کی اور نامور شخصیات میں پیپلز پا رٹی کے سابقہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی شوکت بسرا بھی ہارون آباد سے تعلق رکھتے ہیں ، جبکہ سابقہ وزیر مملکت برائے قانون اور پیپلز پارٹی کے بانی رہنماوں میں شامل افضل سندھو بھی ہارون آباد سے ہی تعلق رکھتے ہیں جو ۲۰۱۳ کے الیکشن میں تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے ، ہارون آباد میں آرایئں اور جٹ برادری ہمیشہ سے ہی سیاست میں ایک دوسرے کے مدمقابل رہی ہیں یہاں سے جٹ برادرئ کے علی اکبر وینس ، افضل سندھو ، جبکہ چوہدری عبدلغفور ، اعجاز الحق آرائیں برادری کی طرف سے رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں، 1977 میں جب بھٹو صاحب نے الیکشن کروائے اور وزیر اعظم بنے تو ہارون آباد کی اس نشست NA 146 سے پیپلز پارٹی کے افضل سندھو رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ، 1985 کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی نے انکا بائکاٹ کیا تو اس حلقہ سے بیگم نسیم ماجد اختر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو ئی ، 1988 میں چوہدری عبدلغفور نے پیپلز پارٹی کے افضل سندھو بڑے سخت مقابلہ کے بعد ہرایا انہوں نے 58765 اور افضل سندھو نے 57800 ووٹ حاصل کیئے ، 1990 میں چوہدری عبدلغفور کا مقابلہ پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس کے علی اکبر وینس سے ہوا ، یہ مقابلہ بھی چوہدری عبدلغفور نے جیت لیا ، انہوں نے 74872 اور علی اکبر وینس نے 60000 ووٹ لیئے ، 1993 میں علی اکبر وینس نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ مسلم لیگ ن کے چوہدری عبدلغفور کو بڑے مارجن سے ہرا دیا ، علی اکبر وینس نے 89969 جبکہ چوہدری عبدلغفور نے 59062 ووٹ لیئے ، 1997 میں ایک بار پھر دونوں حریفوں کا آمنا سامنا ہوا مگر اس بار چوہدری عبدلغفور نے علی اکبر وینس کو شکست دے کر پرانی شکست کا بدلہ چکا دیا چوہدری غفو ر نے 72181 جبکہ علی اکبر وینس نے 46000 ووٹ حاصل کیئے ، 1999 کے مارشلاٰ کے بعد چوہدری غفور نے اپنی وفادری بدلتے ہو ئے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی ، 2002 میں یہاں انکا مقابلہ سابق صدر پاکستان جناب ضیاٰالحق کے حا حبزادے اعجااز لحق سے اور پیپلز پارٹی کے افضل سندھو سے تھا اس مقابلہ میں مسلم لیگ (ض) کے اعجااز لحق نے میدان مار لیا انہوں نے 55000 ووٹ حاصل کیئے جبکہ دوسرے نمبر پہ افضل سندھو تھے انہوں نے 45478 اور چوہدری غفور نے 43739 ووٹ حاصل کیئے ، 2008 میں چوہدری عبدلغفور نے ایک بار پھر وفاداری تبدیل کرتے ہوے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنے آبائی حلقہ کی بجائے انہیں چشتیاں سے ٹکٹ دے دیا گیا جہاں سے وہ رکن قومی اسمبلی بنے اور بعد میں انہیں وزیر تعلیم بنا دیا گیا جبکہ ہارون آباد سے بھی پیپلز پارٹی ہی کے افضل سندھو نے میدان مار لیا انہوں نے 83000 جبکہ مسلم لیگ (ض) کے اعجااز لحق نے 79000
ووٹ حاصل کیئے ، تیسرے نمبر پہ یہاں مسلم لیگ ن کے محمد یار ممونکا تھے جنہوں نے 3500 ووٹ لیئے ، 2013 میں یہاں مقابلہ مسلم لیگ (ض) کے اعجااز لحق اور مسلم لیگ ن کے میاں رشید میں ہوا جو اپنا پہلا الیکشن لڑ رہے تھے مگر مسلم لیگ (ض) کے اعجااز لحق نے 78221 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ ن کے میاں رشید نے پارٹی ووٹ کی بنا پہ 54995 ووٹ حاصل کئے ، تیسرے نمبر پہ آزاد امیداور خالد حسین باٹھ تھے جنہوں نے 35202 ووٹ حاصل کیئے جبکہ پیپلز پارٹی سے اپنی 40 سالہ رفاقت ختم کرکے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے والے افضل سندھو صرف 8000 ووٹ حاصل کر سکے پنجاب اسمبلی کے حلقوں کی بات کی جائے تو 1988 میں یہاں مقابلہ صوبائ نشستوں پر بھی چوہدری غفور اور پیپلز پارٹی کے علی اکبر وینس میں پڑا جس میں علی اکبر وینس نے چوہدری غفور کو ہرا دیا انہوں نے 32278 جبکہ چوہدری غفور نے 27983 ووٹ لیئے ، 1990 میں یہاں مقابلہ پیپلز پارٹی کے چوہدری منیر اور آئی جی آی کے چوہدری غفور میں ہوا جس میں چوہدری غفور نے میدان مار لیا انہوں نے 38886 جبکہ چوہدری منیر نے 22271 ووٹ لیئے ، 1993 میں چوہدری غفور کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے افضل سندھو سے ہوا جس میں انہیں شکست ہوئی افضل سندھو نے 36610 جبکہ چوہدری غفور نے 26000 ووٹ لیئے ، 1997 میں یہاں مسلم لیگ ن نے امتیاز لالیکا کو ٹکٹ دیا جنہوں نے پیپلز پارٹی کے افضل سندھو کو ہرا دیا امتیاز لالیکا نے 37000 جبکہ افضل سندھو نے 20000 ووٹ لیئے ، 2002 میں یہاں مقابلہ مسلم لیگ (ض) کے چوہدری غلام مرتظی اور مسلم لیگ ق کے عرفان شوکت میں ہوا یہ مقابلہ مسلم لیگ (ض) کے چوہدری غلام مرتظی 35015 ووٹ لیکر جیت گئے انکے مدمقابل مسلم لیگ ق کے امیدوار نے 19645 جبکہ پیپلز پارٹی کے شوکت بسرا نے 15338 ووٹ لیئے ، 2008 میں پیپلر پارٹی کے شوکت بسرا نے مسلم لیگ (ض) کے چوہدری غلام مرتظی کو ہرا دیا انہوں نے 43279 جبکہ چوہدری غلام مرتظی نے 38279 ووٹ لیئے شوکت بسرا بعد میں پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بھی بنے تھے ، سال 2013 کے الیکشن میں یہاں ایک بار پھر مسلم لیگ (ض) کے چوہدری غلام مرتظی نے کامیابی حاصل کی انہوں نے مسلم لیگ ن کے اشرف السلام کو ہرایا ، غلام مرتظی نے 43337 ووٹ جبکہ مسلم لیگ ن کے اشرف السلام نے 34989 ووٹ لیئے ، جبکہ شوکت بسرا صرف 11525 ووٹ حاصل کر سکے
اب یہاں دوسرا حلقہ فورٹ عباس کا ہے جہاں 2002 میں پیپلز پارٹی کے شاہد انجم جبکہ 2008 میں یہاں سے روف خالد نے پیپلر پارٹی کے ٹکٹ پہ کامیابی حاصل کی جبکہ 2013 میں یہاں سے مسلم لیگ (ض) کے نعیم انور نے 26665 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جبکہ پیپلز پارٹی کے کاشف نوید پنسوتہ نے 25903 اور مسلم لیگ ن کے نعمان جاوید نے 21094 ووٹ حاصل کیئے اب موجودہ صورتحال میں بھی اس حلقہ میں مسلم لیگ (ض) کی پوزیشن کافی مظوط ہے یہاں انکا مقابلہ اب مسلم لیگ ن کے میاں رشید اور پاکستان تحریک انصاف کے راو شعیب سے متوقع ہے ، مسلم لیگ ض کی طرف سے اعجاز الحق ہی متوقعہ امیدوار ہونگے قومی اسمبلی کے جبکہ صوبای اسمبلی کے لئے بھی چوہدری غلام مرتظی ہارون آباد سے اور نعیم انور فورٹ عباس سے امیداوار ہونگے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کس کو ٹکٹ دیتی ہے یہ تو ا لیکشن کے قریب جا کے ہی پتہ چلے گا مگر یہاں اس بار مسلم لیگ ض کو تحریک انصاف مشکل میں ڈال سکتی ہے گو کے یہاں راو شعیب کا زاتی ووٹ بنک نہیں ہے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے ناراض ووٹر اپنا ووٹ تحریک انصاف کو دے سکتا ہے ، لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہوگا کے یہاں کوئئ اپ سیٹ ہو سکتا ہے تو اسکا چانسز کم ہیں لیکن اس بار تحریک انصاف پہلے سے زیادہ ووٹ نکال سکتی ہے مسلم لیگ ن کے پاس یہاں کو ئی خا ص امیدوار نہیں ہے اسلیئے یہ حلقہ مسلم لیگ ن کے لیئے کسی خوشخبرری کا سبب نہیں بن سکتا جبکہ پیپلز پارٹی اس بار یہاں کس کو ٹکٹ دیتی ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر وہ جسکو بھی پیپلز پارٹی زیادہ حیران نہیں کر پائے گی ، یہاں اصل مقابلہ مسلم لیگ ض مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں ہی ہوگا ،

Muhammad wajid aziz
About the Author: Muhammad wajid aziz Read More Articles by Muhammad wajid aziz: 17 Articles with 15307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.