طوائف، فقیر اور اسلام آباد کا دھرنا

اگلے زمانے میں ایک طوائف کا بہت چرچا تھا۔ اس کی آواز کے شیدائی ہزاروں میل سے کھنچے چلے آتے تھے۔ پھر ایک دن جب کہ مہمانوں کی ایک بڑی تعداد بیٹھی اس کے نغمہ و رقص سے حظ کشید کر رہی تھی تو اچانک اس نے چپ تان لی۔ طبلہ نواز اور سازندوں نے اس بتِ کافر کی خاموشی کے آگے سر جھکا دیے اور حاضرین کے دل دھڑکنا بھول گئے۔ سب حیران و پریشاں…… پل بھر میں محفل ویراں ہو گئی تھی…… اس کا سبب کچھ تو تھا لیکن اس بتِ کافر سے کون پوچھے…… کسی میں اتنی مجال کہاں کہ اس دربارِ حسن میں لب کشائی کرے…… طوائف نے ایک نظر دروازے پہ ڈالی اور پھر بالا خانہ کی جانب چل دی۔ دروازے پہ کھڑا وہ فقیر کبھی کبھاربعد آیا کرتا تھا لیکن جب وہ آتا تو طوائف محفل میں موجود نوابین کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھی۔ شرفا کو واپسی کا اشارہ مل چکا تھا۔ باری باری سب باہر نکلنے لگے۔ سازندوں کے استاد نے آگے بڑھ کے فقیر کے ہاتھوں پہ بوسہ دیا اور بالاخانے تک اس کی رہنمائی کی۔ برسوں سے ایساہی ہو رہا تھا۔ فقیر کبھی کبھی آتا اور کچھ گھڑیاں طوائف کے ساتھ گزار کے واپس لوٹ جاتا۔ دونوں کے بیچ معاملات کی نوعیت کیا تھی یہ کوئی نہ جانتا تھا اور نہ ہی کبھی کوئی جان سکا۔ دونوں کے متعلق کئی کہانیاں زبانِ زدِ عام تھیں۔ وہ حسینہ جس کی آواز اور رقص نے شہنشاہوں کو باندھ رکھا تھا ایک فقیر کی اس قدر پابند کیوں تھی۔ اس سوال کا جواب کوئی نہ جانتا تھا لیکن ایک دو ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اس فقیر کو کئی اور مقامات پہ بھی دیکھ کر ان دیکھا کر چکے تھے۔ فقیر طوائف اور اس شہر کے حالات پہ بات پھر کرتے ہیں۔ فی الحال واپس اپنے دیس اور اس کے لوگوں میں ا ٓتے ہیں۔

اسلام آباد میں تحریکِ لبیک یا رسول اﷲ کے دھرنے کو دو ہفتے ہونے کو ہیں۔ عدالت اپنے احکامات جاری کر چکی ہے۔ حکومت نے مذاکرات کے لیے کئی کوششیں کی ہیں، انتظامیہ کسی بھی غیر معمولی صورت حال سے نبٹنے کے لیے تیار ہے۔ اور میڈیا نے خاموشی اوڑھی ہوئی ہے۔ مولانا حضرات کی ضد ایسی ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے کو ہی تیار نہیں۔ اب جبکہ حلف نامے مین متنازعہ شق بھی بحال کر دی گئی ہے تو ان صاحبان کو نرمی سے کام لینا چاہیے تھا۔ استعفے کسی چیز کا حل نہیں ہوتے۔ مسائل کی نشاندہی اور درستگی میں ہی حق کی فتح ہوتی ہے لیکن جہاں ضد اور انا کی بات ہو وہاں نہ تو کوئی نظریہ موجود ہوتا ہے اور نہ ہی نصب العین۔ ویسے داد و تحسین اُن لوگوں کا حق ہے کہ جن نے ملکِ خداداد میں دھرنوں کی روایت کو استحکام بخشا۔ اب یہاں کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو یا اپنی بات کو بھرپور طریقے سے پیش کرنا ہو تو دھرنا بہترین حل ہے۔ بڑے شہروں کے چوراہے اس کام کی بسم اﷲ کے لیے موزوں مقامات ہیں۔ اور جب موقع مناسب جانیں تو دارالحکومت کا رخ کر لیجیے۔ وہاں ایسے بیسیوں مقامات دلی تسلی و تشفی کا سبب بن سکتے ہیں۔ سو اس بار بھی خادم رضوی نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام آباد کو مرکزی دھرنے کا مقام بنایا ہے۔ دھرنے میں جس قسم کی گفتگو خادم رضوی اور ان کے احباب فرما رہے ہیں اس نے اس دیس کے بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کر دیا ہے۔ ان بے وقوفوں نے تو اپنی دشنام طرازی کے دفاع میں صحابہ کرام سے بھی ایسی ایسی فضول باتیں منسوب کر دی ہیں کہ جنھیں تاریخ و روایت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کوئی صاحبِ علم مستند تسلیم نہیں کرتا۔ ان لوگوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی مہر نہیں دی گئی کہ جو لوگوں کے ایمان کی تصدیق کرے۔ اگر ان کی ہر حرکت کو برداشت کیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ یہ وہ سب کر سکتے ہیں جو ان کے دل دماغ میں آئے۔

میں سوچتا ہوں کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو دعوی تو حضور کی نبوت پہ پہرہ دینے کا کرتے ہیں اور تضحیک حضور کے ہی صحابہ کی کرتے ہیں۔ کیا پاکستان میں موجود دیگر علما ان باتوں پہ خاموش رہیں گئے؟؟؟ کیا وہ آگے بڑھ کر اس معاملے میں عوام کو حقیقت سے آگاہ نہیں کریں گئے؟؟ یا یہ سب کسی اور مقصد کے تحت ہو رہا ہے تاکہ انتظامیہ کی جانب سے کسی انتہائی قدم کے اٹھائے جانے کے بعد اپنے اپنے بلوں سے نکل کر سب مذمت، ہمدردی اور سیاست کا منظرنامہ تشکیل دیں۔ میڈیا جس کا کام یہاں عوام میں شعور بیدار کرنا تھا اس نے اس سارے قصے سے الگ رہنے میں ہی اپنی عافیت جانی ہے۔ آئی ایس پی آر جو چھوٹے چھوٹے حکومتی معاملات پہ بھی اظہار میں نہیں چوکتا تھا وہ بھی اس سارے عمل میں خاموش بیٹھا ہے۔ کہیں کچھ تو ہے جس نے ضمانت دے رکھی ہے۔ ورنہ عدالتی حکم فضا میں نہیں اڑا کرتے۔ صد آفریں کہ عدالت کے آگے وزیراعظم تو جواب دہ ہو سکتا ہے لیکن کچھ لوگ سب احکامات کے باوجود گرفت میں نہیں آتے۔ تو کیا ہماری عدالتیں بھی خواہشات کے تابع ہیں؟؟؟ اگرچہ ہر عہد میں عدالتیں کسی نہ کسی کی خواہشات کے تابع رہی بھی ہیں لیکن اس تابعداری کے بھی تو کوئی اصول و قوانین ہونے چاہیے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ملک کے طاقتور اداروں خواہ اہلِ میزان ہوں یا آہنی ہاتھ، ان لوگوں نے ہمیشہ فتنہ پرور اور شدت پسندوں کو ہوا دی ہے۔ ایک نجی چینل کو ہی دیکھ لیں کہ اسے ملک میں ہر معاملے میں مکمل چھوٹ دی گئی۔ ’’ایسا نہیں چلے گا‘‘ کے تحت سب کچھ چلا دیا گیا۔ میزبان کا جس سے اختلاف ہوتا سیدھا اس کے حرم میں داخل ہو جاتا۔ کبھی کسی کو ملک دشمن قرار دیتا اور کبھی کسی کو دین دشمن۔ خود سے مختلف فکر رکھنے والوں پہ کفر، الحاد، گستاخ اور جانے کیا کیا لیبل لگائے گئے۔ لوگوں کی وطن محبت کو مشکوک کر دیا گیا۔ کئی خاندانوں کو جعلی مہم چلا کر نہ صرف بدنام کیا گیا بلکہ ان کے جان و مال کو بھی خطرات میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود اداروں کی جانب سے مکمل چھوٹ ملی رہی بلکہ بہ زبانِ دوستم آشیرباد ملتی رہی۔ مذکورہ چینل کے لیے خصوصی ماحول بنایا جاتا رہا اور مختلف معاملات میں خاص رعایت دی جاتی رہی اور تو اور بنی بنائی ’’اسٹوریز‘‘ بھی فراہم کی جاتی رہیں تا کہ چینل کے کارکنان کو خبر کے لیے زیادہ تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ خیر اب چینل کے وہی میزبان جب چینل سے الگ ہوئے یا کر دیے گئے تو پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ میزبان نے ان سب الزامات کو چینل کی پالیسی قرار دے دیا جو وہ ’’ایسا نہیں چلے گا‘‘ کے تحت چلاتے رہے اور یہ اعلان بھی کر دیا کہ ایسا وہ ہدایات پہ کرتے تھے یعنی کہ ڈکٹیشن لیتے تھے۔ موصوف ایک ویڈیو پیغام میں ان لوگوں سے معافی کے خواستگار بھی ہوئے ہیں جنھیں ان نے سال بھر اپنے نشانے پہ رکھے رکھا…… گویا کچھ لوگ پہلے مل کر ملک میں مذہبی تعصب، نفرت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں اور اس کے بعد جب کہیں آپس میں پھوٹ پڑ جائے تو پھر اپنے گذشتہ کرتوت ایک دوسرے کے سر ڈالنے لگتے ہیں۔ بھئی جو بھی ہدایات دیتا ہو جو بھی نشر کرتا ہو اور جو بھی بولتا ہو…… یہ تو ثابت ہوتا ہے نا کہ سب مل کر اس عوام کو بے وقوف بناتے رہے اور ہنوز بنا رہے ہیں۔ عوام کے دلوں میں نفرت بھرتی ہے تو ان لوگوں کی دولت مین اضافے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک عوام کے جذبات و احساسات اور عزت و مال کی کوئی اہمیت ہے بھی یا نہیں؟؟؟ کیا پاکستانی عوام اتنی وقعت کھو چکی ہے کہ اسے جوتے بھی مارو اور آہ بھی نہ کرنے دو؟؟؟

سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سادہ لوح عوام اب بھی عقیدت پرستی میں ڈھلے ہیں۔ انھیں اب بھی پردے کے پیچھے کے کرداروں سے غرض نہیں ہے۔ یہ دو بول سن کے رائے بنا لینے والی قوم ہے۔ سو اسی لیے اسے کسی جانب بھی دھکیلا جا سکتا ہے۔ کبھی کوئی اینکر انھیں یرغمال بنا لیتا ہے تو کبھی کوئی ملا…… کسی بھی وقت نبی کریم کا نام لے کر انھیں احتجاج پہ آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ حضور کے نام پہ یہ لوگ سر کٹا سکتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جو شخص انھیں استعمال کر رہا ہے اس کے مقاصد کیا ہیں۔ وہ انھیں تو حضور کی عزت کے نام پہ گھروں سے باہر لاتا ہے لیکن خود صحابہ سے گھٹیا الفاظ منسوب کرتا ہے۔ جس دن اس سادہ لوح عوام کو سمجھ آئے گی کہ رہنما کا انتخاب کیسے کرنا ہے اور رہنما کی معیت میں کن اصولوں کے ساتھ چلنا ہے تو اسی دن بہتری کا سفر شروع ہو جائے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ اس ہجوم کو ہر حال میں منتشر کیا جائے تاکہ جڑواں شہروں کے باسیوں کے لیے سہولت ہو۔ انتظامیہ ایسے کئی طریقے اپنا سکتی ہے جس کے تحت کسی خون خرابے کے بغیر ان سب کو منتشر کیا جا سکے۔ اتنے سرد موسم میں سرد پانی کا چھڑکاؤ ہی ان دیوانوں کے لیے کافی ہو گا۔ کسی انتہائی قدم سے اجتناب برتنا ہی حکومت ا ور انتظامیہ کے حق میں بہتر ہو گا ورنہ کوئی بھی انتہائی قدم ان فقیروں کا ہی بھلا کرے گا جو ایسے دھرنوں میں موجود ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے۔

Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 15739 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.