تربت،قتل کے واقعات اور بلوچستان کی سیاست

18نومبر کو بلوچستان کے علاقے تربت سے پنجاب کے شہر گجرا ت سے تعلق رکھنے والے 5نوجوانوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھااس سے چند دن قبل 15افراد کی لاشیں بھی تربت ہی کے علاقے بلیدہ سے ملی تھیں یعنی ایک ہفتہ میں 20لوگوں کا صوبے میں قتل اپنے ساتھ دہشت گردی کی نئی لہر لے آیا ہے جس نے صوبائی سطح پر نون لیگی حکومت کیلئے کئی سوالات پیدا کردئے ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ کوئی نیا یا پہلا واقعہ لیکن بات دراصل یہ ہے کہ اس نوعیت کے واقعات کا خاتمہ ثناء اﷲ زہری سے قبل سابق وزیراعلیٰ بلوچ نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ سابق سدرن کمانڈر ناصر خان جنجوعہ کے ہمراہ کردیا تھا۔ 2013سے قبل اس صوبے کی حالت ہر لحاظ سے خراب تھی، قوم پرست اور علیحدگی پسند تنظیموں نے یہاں اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے اور پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے دشمن ملک کی امدا د سے طوفان اور شورش بنارکھی تھی ، ایسے میں عام انتخابات کے بعد کی مدد سے مالک بلوچ نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد نے لا تعدا دناراض بلوچوں کوملکی سالمیت اور بقا کی خاطر راضی کرکے قومی دھارے میں شامل کیا۔ ہتھیار ڈلوائے تاکہ انتشار اور جنگ کی کیفیت کا صوبے سے خاتمہ ہوسکے او ر لوگوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوسکے۔ مالک بلوچ ایک پڑھے لکھے ، دانش مند اور سینئر سیاستدان ہیں اور انہیں اس وجہ سے بھی بلوچوں کی پسماندگی کا احساس تھا کیونکہ وہ ایک مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور چاہتے تھے بلوچ عوا کو ان کے حقوق کی فراہمی ہو، صوبے کے لوگوں میں برداشت کا باہمی جذبہ ناپید تھا بالخصوص پنجاب کے خلاف ان میں زہر بھر ا ہوا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھے والے لوگوں سے انتہا کی نفرت اپنے اندر محسوس کرتے تھے ، چاہے یہ پنجابی یہاں کے مکین ہو ں یا کام کی غرض سے یہاں آئے ہوئے ہوں ۔مالک بلوچ جب تک وزیراعلیٰ رہے ہم نے دیکھا کہ وہ ہر لحظہ ، دن رات اسی کوشش میں مصروف رہے کہ کسی طرح سے بلوچوں کے بنیادی حقوق تک ان کی رسائی ہو سکے اور بلوچ عام میں زیرو ٹالنس کی پالیسی پننپ جائے ۔ فراریوں سے ہتھیار ڈلوانا ان کا بڑاکارنامہ سمجھا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ انہوں نے صوبے کئی نو گوایریاز کا خاتمہ کرکے ثابت کردیا کہ وہ سیاسی اور نتظامی معاملات پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کئی ایسے ضلعوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جہاں ماضی میں پاکستان کے خلاف اقدامات کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ برداشت کی پالیسی نے ملک بھر سے آنے والے بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ۔ بلوچ عوام میں نفرت کے خاتمے اور سیاسی و معاشی طور پر استحکام لانے میں انہوں کلیدی کردار ادا کیا ۔ انہوں نے عوام پر باور کروایا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر اور پاک چین اقتصادی راہداری سے سب سے زیادہ بلوچوں ہی کو ہانے والا ہے لہٰذا وہ صبر و بردباری سے اتحاد و اتفاق کا دامن تھامے رکھیں ۔ اس تمام صوتحال میں سیاسی و عسکری قیادت نے بھر پور کردار ادا کیا جس کا مستقبل میں فائدہ حاصل ہونا یقینی تھا لیکن ملک میں سیاسی قیادت کے عدم توازن نے بلوچستان میں کی جانے والی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا اور نون لیگ نے یہاں انتہائی سنگین سیاسی غلطی کرتے ہوئے ڈھائی سال بعد سیاسی قیادت تبدیل کردی ۔

2013میں عام انتخابات کے بعد کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سوائے بلوچستان کے ہر صوبے میں صوبائی حکومتیں بہت جلد بن گئی تھیں لیکن اس صوبے میں اقتدار کی کھینچا تانی کے باعث وزیراعلیٰ کی نامزدگی میں کافی وقت لگا اور کابینہ کی تشکیل ایک مہم مرحلہ نہیں تھا ۔ صوبے میں سیاسی کشمکش نے مالک بلوچ کو اصل ہدف سے دور کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ بھی مرد آہن کی طرح ڈٹے رہے ، ہر طرح کے مسائل کے حل کیلئے ہر ایک سے ملے ، بات کی تاکہ صوبے کو اچھے حالا ت دستیاب ہوسکے ، بلوچ نوجوانوں میں پائی جانے والی مایوسی کا خاتمہ ہو سکے۔ مالک بلوچ کی ثابت قدمی اور صوبے کی بہتری کیلئے کام ہی نے ملک بھر میں سب سے پہلے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی یعنی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا حالانکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کیلئے مجبوراً سپریم کورٹ کو احکامات جاری کرنے پڑے۔ثناء اﷲ زہری ایک سینئر سیاست دان کی حیثیت سے بلوچستان کے سیاسی منظر نامہ کا کردار ہیں لیکن ان کا ابتداء ہی سے مطمہ ء نظر اقتدار کا حصول رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ صوبے میں اقتدار کی منتقلی کا معاملہ پیش آیا ، حالانکہ یہ یہاں کے معروضی حالات سے مطابقت نہیں رکھتا تاہم میاں نواز شریف کی کج فہمی نے انہیں صوبے میں پارٹی کو قائم رکھنے کیلئے وزیراعلیٰ بنادیا۔ موجودہ صوبہ کے وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے وہ بھی اسی طرح کے اقدامات کرتے تو شاید حالات میں بہتری آتی لیکن وہ بھی اپنے قائد کی ڈگر پر چل رہے ہیں ، انہیں ااس سے غرض نہیں کہ صوبے میں سیاسی صورتحال کیا چل رہی ہے ، عوام کی ضروریات کیا ہیں ، وسائل کتنے اور مسائل کی تعداد کیا ہے ۔ وہ تو بس اقتدار کے مزے لے رہے ہیں ۔بلوچستان میں جب بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے ، اس کو بیرونی سازش کا شاخسانہ کہہ کر اور اسے را سے جوڑکر اپنی دکان بڑھادیتے ہیں ۔ عوام میں پائی جانے والی مایوسی ، پسماندگی کے خاتمہ کی جانب توجہ دینے کی بجائے وفاق کی جانب دیکھتے ہیں کہ شاید وہیں سے کوئی خیر کا پہلو اجاگر ہو اور سب کا بھلا ، سب کی خیر ہوجائے۔تربت میں 20 افراد کا قتل بھی انہیں بیدار نہیں کرسکا ،انہیں ابھی غالباً اس بات کا ادراک نہیں ہوسکا کہ اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والوں سے نفرت ان واقعات سے بلوچ عوام میں بیدار ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بلوچستان صرف رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے ، آبادی اس میں اپنی گنجائش سے کہیں کم ہے ، حکومت اور دیگر اداروں کی لوگوں تک رسائی اتنی مشکل نہیں کہ صاحب اقتدار اور متعلقہ ادارے یہ نہ جان سکیں کہ صوبے میں کیا ہورہا ہے یا کس شے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر افراد اس جانب ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ اپنامنصب سنبھالتے ہوئے ذمہ داری محسوس کریں ۔

تربت واقعات سے اس بات کی نشاندہی ہوگئی ہے کہ بلوچستان میں ایک مخصوص گروپ پھر سے سر اٹھارہا ہے جو صوبے سمیت ملک بھر میں صوبائیت اور نفرت کو ہوا دے رہا ہے ۔بلوچستان کے حالات کا بہت عرصہ سے لوگوں کو علم ہے ، یہاں ایک عرصہ سے غیر ملکی ایجنسیاں دہشت گردی اور انتشار پھیلانے کیلئے کام کررہی ہیں یا پھر مقامی افراد کی پشت پناہی کرتی آرہی ہیں جو صوبے کے امن و امان میں خلل کا سبب بن رہی ہیں ۔صوبے میں غیر ملکی ایجنسیوں کا نیٹ ورک کس قدر مضبوط ہے حکومت اس سے غافل نہیں ۔ جب جب صوبے میں دہشت گردی ہوئی ثناء اﷲ زہری نے اسے غیر ملکی ایجنسیوں جوڑا ہے یعنی وہ بھی اس بات سے بھر پور آگاہ ہیں البتہ وہ اس جانب توجہ دے رہے ہیں او ر نہ ہی ان کی کابینہ میں کوئی ہل چل محسوس ہوتی نظر آرہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی حیثیت سے ثناء اﷲ زہری کے پاس کوئی اور کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ عوام کی کسمپرسی کو دور کریں ،ان میں پائی جانے والی مایوسی کے کاتمے کیلئے سوچ بچار کریں اور مقامی سطح پر دانش وروں ، اہل قلم ، صاحب علم و مرتبہ افراد کی خدمات حاصل کرتے ہوئے لوگوں کی ذہنی تربیت کریں تاکہ آنے والے وقتوں میں جس نسل نے صوبے کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرنا ہے وہ سوائے احساس محرومی کے اظہار کے کچھ اور کر سکے اور نہ کہہ سکے ۔ہم جانتے ہیں کہ ملک میں بیروگاری عام ہے ، غربت اور مہنگائی نے عوا م کو کہیں کا نہیں چھوڑا ، بیرون ِ ملک نوکری کرنے کا مقصد خاندان ک مالی پسماندگی دور کرنا ہوتا ہے ، وسائل کی کمی اور حالات کی سنگینی کے باعث لوگ انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تاکہ کم خرچ میں کام ہوجائے ،غیر قانونی راستے سے بیرون ِ ملک جانے والوں کو بھی ہر مشکل حالات سے گزرنے کا علم ہوتا ہے لیکن جان ہتھیلی پر رکھ موت کے منہ سے زندگی کی ضروریات چھیننے چلے جاتے ہیں ۔ کئی راستے میں مارے جاتے ہیں ، کئی دوسرے ملک کی سرحدی پر سیکیورٹی اہلکاروں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور شازو ناظر ہی کوئی اس پار جانے میں کامیاب اور زندہ بچ جاتا ہے ، یہ جوا پھر بھی ہر کوئی کھیلنا چاہتا ہے کیونکہ ہمارے اہل اقتدار اس جانب توجہ نہیں دے رہے کہ نئی نسل کی ضروریا ت کیا ہیں ، ان کی ذہن سازی کون کررہا ہے ، روزگار ہم نہیں دے رہے تو پھر کون سے ذرائع ان کی جرورت پوری کررہے ہیں ۔ وقت کی ضرورت ہے حکومت ِوقت مقامی طور پر روزگار کی فراہمی کے اقدامات کرے ، قانونی طور پر بیرون ِ ملک روزگار کے مواقع تلاش کرے ، نوجوانوں کی ذہن سازی کرے ، غیر قانونی ذرائع سے مانع رکھنے کیلئے ایسی سرگرمی کی جائے تاکہ لوگ اس جانب توجہ دینے کا خیال بھ ذہن میں لانے سے گھبرائیں۔

زبانی جمع خرچ کے طور پر پورے ملک اور بلوچستان میں حالات قابو میں ہیں ،بہتری آرہی ہے ، معاشی طور پر ہم مستحکم ہوتے جارہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس منظر کشی کررہی ہے ، بیرزگاری مسلسل اسی تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہے جس رفتار سے مہنگائی بڑھتی چلی جارہی ۔ حکومت کو کبھی دھرنوں نے اقتدار سے دور ہونے کے خوف سے کام نہیں کرنے دیا اور کبھی پاناما کے ہنگامے نے سوائے ووٹ کے حصول کے عوام کی جانب جانے سے روکے رکھا ہے ۔ باشعور قوم کو لاشعور بنانے کے تمام اقدام کئے جارہے ہیں ، دانش وروں ار صاحب علم کا میدان میں آنا وقت کی ضرورت ہے بالخصوص بلوچستان میں ذہن سازی کی کوششیں کی جائیں۔
 

Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 43401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.