مفاد پرستی کی سیاست اور ضلع بہاونلگر

اس مضمون میں ان شخصیات کا زکر کیا گیا ہے جنہوں نے بدلتے وقت کے ساتھ پارٹیاں بدلی اور مفاد پرستی کی سیاست کو پروان چڑھایا ،

بہاولنگر ضلع میں سیاست کے بڑے بڑے نام شامل رہے ہیں جن میں ملک قاسم ، منظور موہل ( سابقہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی ) سید ممتاز عالم گیلانی (سابقہ وفاقی وزیر ) میاں عبدلستا ر لالیکا ( سابقہ وفاقی وزیر ) خادم حسین وٹو ( سابقہ صوبائی وزیر ) چوہدری عبدلغفور سابقہ وفاقی وزیر) اعجاز الحق ( سابقہ وفاقی وزیر ) شامل ہیں مگر اس ضلع کی بدقسمتی رہی ہے کی یہ پنجاب کہ پسماندہ ترین اضلاع میں شامل رہا ہے سب وڈیرہ سیاست نے اپنی زات کے لیئے سیاست کی اور بدحال عوام کی طرف کبھی نہیں دیکھا ، اس ضلع کے سب نامور سیاستدانوں نے اپنے مفاد کے لئے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جا کے زاتی مفاد کی سیاست کی ، میاں عبدلاستار لالیکا مشرف کے مارشل لا لگانے کے بعد مسلم لیگ ن سے لا تعلق ہو گئے اور مسلم لیگ ق میں شامل ہوکے ایک بار پھر وزارت کے قلمدان تک پہنچ گئے ، چو ہدری عبدلغفور نے بھی اپنے اپکو بچانے کے لیے مسلم لیگ ق کا سہارا لیا اور اور وزیر بنے ، سید اصغر شاہ نے 1988 میں الیکشن آئی جی آئی 1990 میں آزاد 1993 میں مسلم لیگ چھٹہ گروپ کی طرف سے لڑا 2002 میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پہ ممبر قومی اسمبلی بنے اور 2008 پھر آزاد حسیت سے لڑ کے مسلم لیگ ق کے خادم حسین وٹو سے ہار گئے 2013 میں بھی آزاد حشیت سے الیکشن جیتا اور مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے اب بھی امکان ہے کے وہ ایک بار پھر سیاست میں قلابازی لگاتے ہوئے تحریک انصاف کا صہارا لے سکتے ہیں میاں عبدلستار لالیکا نے 85 میں غیر جماعتی انتخابات میں آزاد حشیت سے کامیابی حاصل کی 88 اور 90 میں آئی جی آئی کے ٹکٹ پہ کامیابی حاصل کی 93 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ ہار گئے 97 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ کامیاب ہوئے اور پھر 2002 میں مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر کے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑا اور کامیاب ہو کے وفاقی وزیر بنے عبدالستار لالیکا سال 2006 میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے ، سید ممتاز عالم گیلانی پیپلز پارٹی کے بانی رہنماوں میں شامل ہوتھے تھے 88 اور 90 میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پہ الیکشن لڑا 88 میں جیت گئے لیکن 90 میں ہار انکے مقدر میں آئی ، 2002 میں وہ پیپلز پارٹی سے غداری کرتے ہوے مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے مگر پیپلز پارٹی کے ممتاز متیانہ سے ہار گئے 2008 میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ممبر قومی اسمبلی بننے کے بعد وفاقی وزیر بنائے گئے ، 2013 میں انہوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا
ممتاز احمد متیانہ پیپلز پارٹی کے ایک بہت پرانے سیاسی ورکر جانے جاتے تھے وہ اپنے درینہ حریف میاں عبدلستار لالیکا کے مقابلے میں الیکشن لڑتے رہے لیکن صرف ایک بار ہی انکو ہرا سکے تھے ، 1990 سے 2002 تک وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑ تے رہے جس میں وہ صرف 1993 اور 2002 میں کامیاب ہو سکے تھے بعد میں وہ ایم این اے کی سیٹ سے مستعفی ہو کے ضلع ناظم بہاولنگر بن گئے تھے ، 2008 میں انہوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا لیکن 2013 کے الیکشن سے پہلے وہ تحر یک انصاف میں شامل ہوگئے اور مسلم لیگ ن کے میاں عالم داد لالیکا کے مقابلہ میں الیکشن لڑا لیکن بھاری ووٹوں سے ہار گئے ، چوہدری عبدلغفور بھی کبھی مسلم لیگ ن کے اہم لوگوں میں شمار کیئے جاتے تھے مگر وہ بھی مشکل وقت میں مسلم لیگ ن چھوڑ کے مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے -

88 اور 90 میں میں وہ آئی جی ائی کے ٹکٹ پہ رکن قومی اسمبلی بنے 1993 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑا مگر پیپلز پارٹی کے علی اکبر وینس سے ہار گئے ، 97 میں پھر وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ کامیاب ہوئے اور مارشل لا کے بعد مسلم لیگ ق میں شامل ہوکے 2002 کا الیکشن مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پہ لڑا مگر مسلم لیگ ض کے اعجاز الحق سے ہار گئے 2008 میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور چشتیاں سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ ایم این اے بننے کے بعد وفاقی وزیر بنے 2013 میں انہوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور انکے بیٹے ظفر اقبال نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑا اور ہار گئے چوہدری عبدلغفور 2016 میں وفات پا گئے تھے -

چشتیاں سے ہی سابقہ ایم این اے ،ایم پی اے اور تحصیل ناظم رہنے والے طاہر بشیر چیمہ مسلم لیگ ن کے موجودہ ایم این اے بھی کئ پارٹیاں بدل چکے ہیں وہ ڈہرانوالہ سے پیپلر پارٹی کے ٹکٹ پہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو ئے 90 سے 97 تک انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ مسلم لیگ ن کےحاجی محمد اکرم کا مقابلہ کیا جس میں وہ صرف 1993 میں ایم پی اے بنے 2002 میں وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے اور بلدیاتی الیکشن میں چشتیاں سے مسلم لیگ ق کی طرف سے تحصیل ناظم بنے بعد میں عبدلستار لالیکا کی وفات کے بعد ہونے والے ضمی الیکشن میں مسلم لیگ ق نے انہیں ٹکٹ دیا اور وہ ممبر قو می اسمبلی بنے 2008 میں وہ پیپلز پارٹی کے چوہدری عبدلغفور سے الیکشن ہار گئے لیکن 2013 میں انہوں نے ایک پار پھر پارٹی بدلی اور مسلم لیگ ن میں شامل ہوکے ایم این اے کا ٹکٹ حا صل کیا اور ایم این اے منتحب ہو ئے ، اب بھی صاحب سے امید یہی ہے کے وہ نئی پارٹی دھونڈ رہے ہیں لیکن اگر وہ تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں پارٹی ٹکٹ ملنے کا کو ئی امکان نہیں ہے اور کسی دوسری پارٹی میں جا نے کا وہ رسک نہیں لینگے -

الحاج خادم حسین وٹو ( مرحوم) بھی بہاونگر کی سیاست کا بہت بڑا نام سمجھے جاتے تھے 1988 اور 1990 میں وہ آئی جی ائی کے ٹکٹ پہ رکن پنجاب اسمبلی بنے 1993 میں انہوں نے مسلم لیگ (چھٹہ) کی طرف سے الیکشن لڑا مگر مسلم لیگ ن کے محمد سردار خان گدھوکا سے ہار گئے 97 میں وہ ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے امیدوار سے آزاد حشیت سے الیکشن ہار گئے 2002 میں وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوئے اور منچن آباد سے رکن پنجاب اسمبلی بنے 2008 میں مسلم لیگ ق نے انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور وہ ایم این اے منتخب ہوئے لیکن 2013 کے الیکشن سے پہلے وہ مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے اور اپنے درینہ حریف سید اصغر شاہ سے الیکشن ہار گئے لیکن انکے بھا ئی واجد علی وٹو پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے تھے ، خادم حسین وٹو 2017 میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے ، بہاولنگر کی سیاست کا ایک اور بڑا نام سابقہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد موہل کا ہے جو 1988 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پہ رکن پنجاب اسمبلی بنے 1990 میں وہ آئی جی آئی میں شامل ہو گئے اور انہوں نے پیپلز پارٹی کے راٗو اعجاز علیخان کو ہرایا-

1993 میں ایک بار پھر انہوں نے پارٹی بدلی اور مسلم لیگ چٹھہ گروپ میں شامل ہو گئے اور مسلم لیگ ن کے سردار احمد خان عاکوکا کو ہرایا بعد میں انہیں پنجاب اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر بنا دیا گیا تھا انکے بیٹے بھی کبھی مسلم لیگ ق تو کبھی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑتے رہے ہیں ، اور بھی بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے ہمیشہ مفاد کی سیاست کو ترجیح دی ہے اور بہاولنگر ضلع شروع سے ہی مفاد پرستی کی سیاست کا گڑ ھ رہا ہے اب بھی یہاں مسلم لیگ ن کے تین رکن قومی اسمبلی ہیں جبکہ ایک اتحادی ایم این اے اعجاز الحق ہیں مطلب کے چار کی چار نشستیں مسلم لیگ ن کے پاس ہیں مگر کل جب مسلم لیگ ن کو اسمبلی میں رائے شماری کے لیئے ارکان کی ضرورت تھی تو بہاولنگر ضلع کے یہ چاروں اراکین اسمبلی نے اجلاس میں شرکت نہیں کے اور یہ اشارہ دیا کے وہ آنے والے وقت میں مسلم لیگ ن کے لیئے خطرہ کی گھنٹی بن سکتے ہیں میرا سیاسی تجربہ یہی کہتا کے وقتی طور پر آپ اپنی پارٹی سے غداری کر کے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ایسی بہت سی مسالیں ہیں کے جنہوں نے اپنی پارٹی سے غداری کی وہ تاریخ کا حصہ بنتے گئے اور کچھ لوگ برے وقتوں میں ساتھ دے کر بڑے عہدوں پہ فائز ہو گئے -

میرا یہ کالم میری زاتی را ئے ہے اور اسکا ایک ایک لفظ حقیقت پہ مبنی ہے یہ کام نا تو کسی ادارے سے کاپی کیا گیا ہے نہ کسی کی مدد سے لکھا گیا ہے ؎
محمد واجد عزیز چوہدری
 

Muhammad wajid aziz
About the Author: Muhammad wajid aziz Read More Articles by Muhammad wajid aziz: 17 Articles with 15152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.