نا چاہتے ہوئے بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ملک افراتفری کی
گرفت میں آگیا۔جس سازش کا خدشہ تھا وہ سچ ثابت ہوا۔پاکستان کو بیرونی
معاملات میں الجھانے کے لئے اسے اندرونی افراتفری کی طرف دھکیل دیا گیا۔آج
پورا ملک بند ہونے کو ہے، کاروبار، آمدورفت اور دوسرے روزمرہ کے کام ٹھپ ہو
رہے ہیں۔شہری علاقوں میں گھروں سے باہر نکلنا محال ہے۔خطرناک نتائج لئے
پھیلتی افراتفری ہے کہ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ہر ذی شعور پریشان ہے کہ اکیس
کروڑ کے اس ملک کا کیا مستقبل ہے۔معاملات دن بدن سنگین سے سنگین کیوں ہو
رہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دشمن ہمارے ملک میں افرتفری پھیلانے
میں بھی سرگرم عمل ہے،ہمارے آپس کے اختلافات دشمنوں کے اس ایجنڈے کو فروغ
دے رہے ہیں۔ملک میں موجود دشمن دوست پاکستان کے خلاف سازشی منصوبہ بندی میں
متحرک ہیں۔وہی پاکستان جو وسط ایشیاء کا نمائندہ ملک بننے جا رہا ہے ،کیا
وہ ایسا کر پائے گا؟وہ اپنے اندرونی معاملات سے نمٹنے کی بجائے روز بروز
مزید الجھتا جا رہا ہے۔آخر کوئی تو بڑی سازش ہے جو اس وقت متحرک ہے؟، جو
پاکستان کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتی۔گزشتہ چند عرصے سے پاکستان کو ہمہ
وقت بیرونی و اندرونی معاملات میں الجھایا جا رہا ہے۔ایسے کٹھن حالات میں
ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے یکجا ہو کر
دشمنی سازشوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کریں۔مگر افسوس کہ ملک میں پھیلتی
افراتفری میں جتنا ہاتھ دشمن کا ہے اس کہیں زیادہ قصور ہماری سیاسی جماعتوں
اور ہمارے اداروں کا ہے۔ملکی افراتفری میں اضافے کے ذمہ دار ہم عام عوام
بھی ہیں جو کبھی ایک نظریے پر متفق نہیں ہو سکے،بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا
ہماری قوم کسی ایک کام ایک نظریے کے لئے کبھی یکجا نہیں ہوئی۔ہمیشہ عوام نے
ظاہری و وقتی مفاد کو ترجیح دی ہے۔موجودہ حکومت کی بات کی جائے تو وہ
نامعلوم ہے ایسا لگتا ہے کہ ملک بغیر حکومت کے ہی چل رہا ہے۔فیض آباد کے
دھرنے کو کچلنے کی جو ناکام کوشش کی گئی اس کے نتائج ملک بھگت رہا ہے اور
نہ جانے کتنے دن اس کے نتائج بھگتنا پڑیں۔حکومتی نااہلی کے باعث ہی تو
دھرنا شروع ہوا،مگر مذہبی جماعتوں کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ملک کو
افراتفری کی طرف دھکیلیں۔ملک پھیلتی افراتفری کی ریس میں اتنا آگے نکل گیا
ہے، لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں ۔کوئی قانون نہیں ۔جس کی لاٹھی
اس کی بھینس والا مہاورا سچ ثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ریاست تو جیسے سرے سے ہی
موجود نہیں،جنگل راج ہے۔ریاست کی تذلیل ہو رہی ہے۔ حکومتی کنٹرول کم ہوتا
جا رہا ہے۔جو کسی کا دل چاہتا ہے کرتا ہے۔موجودہ پھیلتی افراتفری میں ہم سب
قصور وار ہیں عام عوام سے کہیں زیادہ قصور وار حکومتیں ادارے اور دوسری
بااثر جماعتیں ہیں۔نااہلی کی انتہا دیکھئے جس کا دل چاہتا ہے وہ اکٹھ کر کے
ملک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔یہ جنگل راج ہے جو جتنا طاقتور اتنا
ہی با اثر۔آخر کب اس وطن کو سکھ اور چین نصیب ہوگا؟پھیلتی افراتفری کب رکے
گی؟کون ملک کا حقیقی لیڈر ہے؟اقتدار کے لالچ سے پاک مفادات سے پاک کون ہے
؟ہے کوئی ایسا لیڈر جو اپنے وزراء کو نوازنے کی بجائے ملک کا سوچے؟ایسا
کیوں ہے؟ کسی کے پاس اس کا جواب نہیں، ہو بھی کیوں۔کیوں کہ لالچ و بے حسی
ہے کہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔آج ہم اپنے مفادات کی خاطر دین کا سہارا لینے
سے بھی نہیں کتراتے۔ہماری تعلیمات کہاں گئیں؟ہمارے علماء و اساتذہ کے علم
میں اتنا بھی اثر نہیں کہ وہ بڑھتی حوس و لالچ کو کم کر سکیں۔اسلام تو مکمل
نظام حیات ہے، بلکہ واحد دین ہے جو مکمل ہے۔کیا پھر ہماری تعلیمات میں کوئی
کمی کوتاہی ہے؟کیا ہمارے عالم ہی نامکمل علم رکھتے ہیں،یا عمل سے عاری ہیں؟
کچھ تو ایسا ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی بے حس ہو چکا ہے ۔ورنہ کوئی ختم
نبوت کی شک کو حذف کرنے کی گستاخی نہ کر سکتا۔آپﷺ ہمارے آخری نبی ہیں اور
آپﷺ کے بعد اس دنیا میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔آپﷺ کی ذات پر ہماری جان بھی
قربان۔حکومت نے جو غلطی کی ہے وہ حقیقت میں بڑی غلطی ہے جس کا خمیازہ انہیں
بھگتنا پڑے گا۔مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نظام حیات کو درہم برہم کیا
جائے۔تحریک لبیک کا وزیر کی نااہلی کا مطالبہ درست ہے مگر ملک میں افراتفری
پھیلانے کا منصوبہ غلط ہے۔حکومت نے جلد بازی میں یا اپنے وزیر کو بچانے کے
چکر جس افراتفری کو فروغ دیا ہے ملک اس کا متحمل نہیں ۔اس کٹھن وقت میں جب
دشمن سے بھی خطرات موجود ہیں حکومت کو دانشوری کا مظاہرہ کرنا چاہئے نہ کہ
دشمنی سازش کو ترویج دی جائے۔ویسے کچھ عرصے سے ہماری عدالتیں کافی متحرک
ہیں اور ہر معاملے میں اپنا فیصلہ صادر فرما دیتی ہیں۔سپریم کورٹ کو چاہئے
کہ وہ اس معاملے کوبھی خود ہی دیکھ لے،اور آئین و قانون میں تبدیلی کے ذمہ
داران کو سامنے لانے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں
کو بھی پرامن رہنے کی تلقین کرے۔تاکہ پھیلتی افراتفری پر فوری قابو پایا جا
سکے۔باقی بات رہی سازش اور قصور کی وہ وقت عیاں کر دے گا کہ کس کا کتنا
قصور ہے۔ |