انسانیت کا عالمی دن

(شعیب الطاف )
امریکی صدر نے اقوام متحدہ میں خطاب کرنا تھا اور آج ایک نئے عالمی دن منائے جانے کی پالیسی کا اجراء کیا جانا تھا۔ مقامی الیکٹرانک میڈیا اندرونی تمام مسائل کو بھلا کر پوری کوریج امریکی صدر کو دے رہا تھا۔ آج بریکنگ نیوز میں کوئی بم دھماکہ نہیں دکھایا جا رہا تھا۔ کہیں غربت کی ماری ماں کی اپنے تین بھوکے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگانے کی خبر نہیں چل رہی تھی۔ کوئی نہیں بتا رہا تھا کہ دہشت گردی کا شکا ر ہونے والے جواں سال لاشے تدفین کے لیے ان کے آبائی علاقوں میں پہنچ گئے ہیں۔ غریب ہاری کی بیٹی کی وڈیرے کے ہاتھوں عصمت دری کی خبر کہیں دب گئی۔ سڑک پر ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ہلاک ہونے والے امجد کی خبر بھی فراموش ہوگئی۔ کرپشن میں اٹے ہوئے حکمرانوں کے مکروہ چہرے بھی نہیں دکھائے جا رہے تھے۔ ملکی سالمیت کو سبو تاژ کرنے پر تلے ہوئے لسانی گروہوں کے بارے میں کچھ نہیں بتا یا جا رہا تھا۔

عوام کے ٹیکس پر پلنے والے کھلاڑی جو بیرون ملک جوا کھیل کر مادر گیتی کے منہ پر کالک مل رہے تھے ان کی بھی آج سکرین سے چھٹی تھی۔ جائیداد کی خاطر خونی رشتوں کے قتل کی خبریں تھم سی گئیں تھیں۔ علاقائی خبریں تو ایک طرف ملکی و بین الاقوامی خبروں پہ بھی سکوت مرگ طاری تھا۔ ورکنگ باونڈری پہ فائرنگ کا کوئی واقعہ نہیں۔ کہیں در اندازی کی خبر نہیں۔ کہیں افغان صوبے پہ ڈرون اٹیک نہیں۔ کہیں کشمیر میں بھارتی جارحیت کی خبر نہیں، کہیں فلسطین میں نہتے شہریوں پہ بربریت کے واقعات کا نوٹس نہیں۔ برما میں انسانیت سوز قتل عام کی خبریں بھی خاموش۔ بین الاقوامی مارکیٹ بھی سکوت کا شکار ہر چیز اس میڈیا کوریج کے تلے دب کر رہ گئی۔ کئی دنوں سے خبر گردش کر رہی تھی کہ کچھ لوگوں نے اقوام متحدہ میں مطالبہ کیا ہے کہ جو بین الاقوامی دن منائے جاتے ہیں کبھی گلاب کا دن، کبھی سائنس کا، کبھی محبت کا، کبھی شاپنگ کا، کبھی ماں کا کبھی باپ کا، کبھی حیا کا کبھی بے حیائی کا۔ کبھی بیماروں کا کبھی بیماریوں کا۔ کبھی سبزیوں کا تو کبھی گوشت کا۔غر ض ہر چیز کا دن منایا جاتا ہے تو ''انسانیت '' کا بھی 365 دنوں میں ایک دن منایا جائے۔ اتنا حق تو انسانیت کابھی بنتا ہے۔ اس پر انسانیت کے علمبرداروں کے سر جڑ گئے اور پے در پے میٹنگز ہونے لگیں۔ کبھی اسرائیل تو کبھی بھارت۔ کبھی فرانس تو کبھی کوریا۔ سب چھوٹے علمبردار اپنے سردار امریکہ کے پاس پہنچ گئے کہ ہماری مدد کی جائے کہ آپ سے بڑا تو انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی بھی نہیں۔ کیونکہ سب سے زیادہ انسانیت کو درد آپ کے زیر سایہ ملا۔ سب سے زیادہ انسانیت کو پامال آپ کے آشیر باد پر کیا گیا۔ سب سے زیادہ اسلحہ آپ کا بکتا ہے۔ سب سے بڑا قبضہ مافیا بھی آپ سرکار ہی ہیں۔ آپ زمین پہ خدائی کے دعوے دار بھی ہیں تو کچھ کیجیے کہ یہ تیسری دنیا کے ممالک کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

اگر ایک دن انسانیت کا عالمی دن قراد دے دیا گیا تو ایک یوم کے لیے ہی سہی ہمیں اپنی جاری جارحیت بند کرنا ہوگی جس سے آپ سمیت ہم سب کو اربوں ڈالرز کے نقصان کا خدشہ ہے۔ تو صاحبو ہوا کچھ یوں کہ انسانیت کے تمام علم بردار اقوام متحدہ میں اکٹھے ہوئے اور سوچ وچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مطالبے کو تسلیم کر ہی لیا جائے۔ تیسری دنیا بشمول ایشیائی ممالک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کشمیر، فلسطین، شام، بوسینیا، میں ایک امید جاگی کہ ایک دن کے لیے ہی سہی ہمای ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہونگی۔برما میں روہنگی مسلمانوں کے چہرے اس ایک روزہ خوشی کی امید سے کھل اٹھے۔ دن طے ہوا کہ اس دن باقاعدہ اعلان کیا جائے گا کہ انسانیت کا عالمی دن منایا جائے اور سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے موم بتیاں جلائی جائیں گی۔سو آج اسی سلسلے میں صبح سے تما م میڈیا چیخ رہا تھا۔ امریکی صدر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ امریکی صدر پہنچ گئے۔ اتر گئے، گارڈ نے سیلوٹ کیا۔ اس طرح کی بریکنگ نیوز چلائی جا رہی تھیں۔ آخر وہ لمحہ بھی آ پہنچا جب ہر طرف سکوت طاری تھا۔ صدر نے مائیک پہ آ کر اپنی گفتگو کا آغاز کیا اور انسانیت کے حق میں لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ اور آخر میں کہا کہ تمام انسانیت کے علمبرداروں کے باہمی مشورہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسانیت کا عالمی دن ضرور منایا جائے گا۔ لہذا اگلے سال سے ہم اسے باقاعدہ عالمی دن کا درجہ دے رہے ہیں۔ اور تاریخ ہوا کرے گی'' 30'' فروری۔۔ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ہمارے ملکی میڈیا میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ ہر طرف شادمانی کا عالم تھا۔
ـ" دور کہیں گمنام صحرا میں انسانیت بیٹھی سسک رہی تھی"۔
 

Faisal Azfar Alvi
About the Author: Faisal Azfar Alvi Read More Articles by Faisal Azfar Alvi: 48 Articles with 41611 views Editor: Ghazi Group of Newspapers (Pvt.) Limited, Islamabad.
Editor: Daily "MUBALIGH" Islamabad.
Writer of Column: "Kaala Daa'era"
Member: All Paki
.. View More