مسعود خان کا ساتھ کیوں دیں؟

اقوام متحدہ کی کشمیر تنازعے بارے قراردادوں۔کشمیر کے زمینی حقائق اور آئین پاکستان کی روح سے ہم آزادکشمیر کے انتظامی سیٹ اپ کو قبول کرتے ہیں۔آزادکشمیر کے عوام نے ووٹ دیکر ممبران اسمبلی منتخب کیے اور ان ممبران میں سے کیبنٹ بنی۔ممبران نیوزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کووزیراعظم چنا، انہی ممبران اسمبلی نے مسعود خان کو اکثریتی ووٹ دیکر صدرمنتخب کیا۔

مسعود خان پاکستان کے وفادار رہے اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے انہیں اپنا سفیر بنا کر چین، امریکہ اور اقوام متحدہ میں بھیجا۔پاکستان کے موقف کو دنیا بھر کے سامنے پیش کرنے والے مسعود خان کی مدت ملازمت ختم ہوئی توحکومت پاکستان نے انہیں ایک اور حساس نوعیت کے ادارے کی سربراہی سونپ دی تھی۔آزادکشمیر میں سردار یعقوب خان کی مدت صدارت ختم ہونے کے قریب آئی تو حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی کے اداروں نے بھی کشمیر تناظر میں مسعود خان کو اس عہدے کیلئے موضوع ترین شخص قرار دیا۔

اب مسعود خان گذشتہ ایک سال تین ماہ سے آزادکشمیر کے صدر ہیں۔ انہیں پاکستان کے ان تمام حکومتی، سیاسی و عسکری ایوانوں تک با عزت رسائی حاصل ہے جس کا حصول عموماً دیگر صدور کیلئے خاصا مشکل ہوتا تھا۔ مسعود خان کی اب تک کی بطور صدر وچانسلر جامعات کارکردگی سے ہم بھی زیادہ مطمئن نہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمارا ایک مضبوط نمائندہ پاکستان سمیت اہم ممالک میں لابنگ میں مصروف ہے۔اسے مکمل وقار کے ساتھ اپنے ساتھ بٹھایا جاتا ہے اور قومی نوعیت کے معاملات میں مشاورت کی جاتی ہے۔

مسعود خان کی ذاتی کاوشوں سے ہی بیرون ممالک سے ممبران پارلیمنٹ و سینٹ اور سیاسی جماعتوں کے سربراہان آزادکشمیر آتے رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر جو کئی دہایوں سے مسلسل سرد مہری کا شکار رہا ہے اس کو مسعود خان کے آنے سے پر تو لگ نہیں سکتے تھے لیکن منجمد پانی پرارتعاش اور دیواروں پر دراڑیں پڑنا شروع ہو چکی ہیں۔

مسعود خان کی غیرمتنازعہ بہترین شخصیت،پر اثر انداز بیان اور انکی سفارتی مہارت انہیں مزید ممتاز کرتی ہے۔ ہاں اگر کمی ہے تو وہ ان کی سیاسی بلوغت ، مقامی سوچ و ایشوز سے کم آگاہی ہے۔مسعود خان اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کو ذاتی لالچ تو ہونی نہیں چاہیے۔ نہ انہیں غیرضروری پروٹوکول کا عادی بننا چاہیے، انہیں برادری یا علاقہ ازم سے بالاتر ہو کر سب کیلئے قابل قبول بننا ہے۔ اسی طرح کشمیر کیلئے جو بھی مخلص لوگ ہیں وہ مسعود خان سے ملاقاتیں کریں، اپنے تحفظات اور نقطہ نظر ان سے شیئر کریں۔ اہم معلومات دیں،زمینی حقائق بتائیں، اگر ان کو مسعود خان کے غیر ملکی دوروں یا کام کے طریقہ کار یا فکر سے اختلاف ہے تو گھر کا بندہ سمجھ کر ان کو دفتر بیٹھ کر آگاہ کریں۔

مسٹر خان کو پریذیڈنٹ آف سٹیٹ کی حیثیت سے مختلف سوچوں والے گروہوں کو سننا چاہیے اور اپنی پالیسی میں ضروری تبدیلی کرلینی چاہیے۔یقین مانیں ،مسعود خان میں وہ قابلیت ہے کہ وہ تنازعہ کشمیر بارے کشمیریوں کے اور قومی و عسکری و سیاسی اداروں سمیت دیگر تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان بہترین پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن ان کو اعتماد میں لینا اور ان تک اپنا پیغام پہنچانا ہماری بھی ذمہ داری ہے۔
آزادکشمیر کے انتظامی سیٹ اپ میں خامیوں اور خرابیوں پر توہم ہمیشہ لکھتے آئے ہے۔ 4 ملین افراد کا یہ چھوٹا سا علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے،یہاں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام کے تحت پروفیشنلز پر مشتمل مختصر کابینہ، چند قابل سیکرٹریز کی ٹیم چاہیے جو باآسانی عوامی سہولت کیلیے مختصر بجٹ میں بہترین کام کرسکتی ہے۔ یہ سوا لاکھ ملازم، 49 اسکیم و بجٹ خور ممبران اسمبلی ودو درجن سیکرٹریز اور ہزاروں گریڈ 17 ٹو 22 کے آفیسران ہمیں نہیں چاہیے نہ ہی کروڑوں روپے پنشن لینے والے بیوروکریٹس اور جج وغیرہ چاہیے۔ہمیں پانی، معدنیات سمیت اپنے تمام قدرتی وسائل اور اوورسیز کشمیریوں کی آمدن میں سے معقول حصہ چاہیے جس سے ہماری معیشت مضبوط ہو گی، اس کے ساتھ غیرملکی سیاحوں کو ان تفریحی علاقوں تک رسائی چاہیے جہاں لائن آف کنٹرول قریب نہ ہو،اس کے ساتھ نوجوانوں کو نجی سطح پر روزگار کے مواقعے چاہیے ، بہتر سڑکیں، معیاری تعلیمی ادارے اور صحت کی سہولیات چاہیں،آزادکشمیر حکومت کو باختیار اور باوقار کرنا ہے، اور یہ تمام کام صدرریاست کے نہیں انتظامی سربراہ یعنی وزیر اعظم اور انکی ٹیم نے کرنے ہیں۔

تحریک آزادی اجاگر کرنے کے نام پر سرکاری بجٹ سے غیر ضروری عیاشی ٹور بھی ختم ہونے چاہیے۔صدرمسعود خان کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے بااثر پاکستانیوں اور کشمیریوں یعنی سردار علی شاہنواز جیسی بااثر شخصیات سے روابط مزید بڑھائیں جو کشمیر ایشو پر لابنگ ( رائے شماری ) کیلئے ان کی مدد کرسکتے ہوں۔ بیرون ملک میں مختلف دستیاب با اثر کشمیری رہنماوں( بیرسٹر سلطان، راجہ فاروق حیدر، سردار عتیق خان، عبدالرشید ترابی، چوہدری عبدالمجید،لارڈ نذیر، لارڈ قربان،چوہدری یاسین، سردار خالد ابراہیم، چوہدری لطیف اکبر، طارق فاروق وغیرہ) کو دوروں میں ساتھ لیجائیں اور ان کے تعلق دار ممبران پارلیمنٹ، سینٹ یا سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے کشمیر ایشو پر لابنگ کیلئے ملیں۔

حکومت پاکستان کو بھی ذمہ داری کا احساس دلائیں کہ وہ بین الاقوامی میڈیا میں لابنگ کیلئے انوسٹمنٹ کرے اور اپنے سفارتی تعلقات کو کشمیریوں کے فائدے کیلئے استعمال کرنے میں مدد کرے۔ صدرریاست کو اس کے ساتھ اپنی ٹیم میں کشمیری دانشوروں/پروفیشنلز ( پی ایچ ڈی ڈاکٹر جاوید حیات،ممتاز صحافی طارق نقاش جیسے دماغوں اور سیاسی لابنگ کیلئے سابق مشیر حکومت مرتضیٰ درانی ) کو شامل کرنا چاہیے تاکہ وہ لمحہ بہ لمحہ ان کو بروقت اہم مشوروں، اہم موضوعات پر ریسرچ اور میڈیا منیجمنٹ میں مدد دے سکیں۔مسعود خان کو کشمیر امور پر بہتر مشاورت کیلئے اپنے لوگوں پر بھروسہ کرنا ہو گا۔

کشمیر تنازعہ کا فریق ملک بھارت کشمیریوں اور پاکستان کے موقف کو کمزور کرنے کیلئے اربوں ڈالر خرچ کرکے دنیا بھر میں لابنگ کررہاہے۔چند افراد کو فنڈنگ کرکے کشمیریوں کو آپس میں تقسیم کرارہا، آپس میں نفرتیں پھیلا رہا۔بھارت کا میڈیا کشمیر مسئلے پر پروپیگنڈہ میں تمام صحافتی اقدار کو بھی پامال کرجاتا ہے، یہی بھارت، پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے ہر دستیاب ہتھکنڈہ استعمال کررہاہے اس لیے ہمیں مضبوط دشمن سے مقابلہ کرنے اور کیس جیتنے کیلئے آپسی اختلافات اور پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک متحد ٹیم کی صورت میں ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں اور آگے بڑھنا ہے۔ہم کشمیریوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ نہ ہم خود کچھ بڑا کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کا کام ہمیں پسند آتا ہے، ایک دوسرے کی کردار کشی ہمیں اجتماعی نقصان دے رہی ہے، ملک پاکستان کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور دیگر قوتوں کے سامنے بھی ہماری حیثیت کمزور ہو جاتی ہے اور اسی کا فاہدہ ہمارا اصل دشمن ملک بھارت اٹھا رہا ہے۔انتظامی خرابیوں کی وجہ سے ہم نے دستیاب لیڈر شپ کو بین الاقوامی سطح پر نقصان نہیں پہنچانا بلکہ ان کی کمی کوتاہیوں کو گھر کے اندر بیٹھ کر باز پرس کرنی ہے۔

آئیں آگے بڑھیں اور ہم اپنی دستیاب لیڈر شپ اور پروفیشنلز سے عوامی بہتری اور کشمیر کی آزادی کیلئے کام لیں۔ آئیں ہم رائے شماری کیلئے راہ ہموار کریں۔جب رائے شماری ہوگی تو اکثریتی رائے نے جو بھی فیصلہ کیا وہ ہمیں بھی متظور اور آپ کو بھی قبول ہو گا۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66154 views Columnist/Writer.. View More